أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَالَّذِىۡ هُوَ يُطۡعِمُنِىۡ وَيَسۡقِيۡنِۙ ۞

ترجمہ:

اور وہی مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے

کھلانے پلانے کی نعمت میں لپٹی ہوئی بیشمار نعمتیں 

اس کے بعد فرمایا اور وہ مجھے کھلاتا ہے اور پلاتا ہے (الشعرا ۷۹) اللہ تعالیٰ کے پیدا کرنے کے بعد حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) نے اس کی پرورش کی نعمت کا ذکر کیا کھلا نے اور پلانے کی نعمت کے دامن میں وہ تمام نعمتیں لپٹی اور سمٹی ہوئی ہیں جن پر کھانا اور پینا موقوف ہے مثلاً وہ طعام اور مشروف کا مالک ہوگا تو کھائے اور پیے گا اگر وہ طعام اور شروف کا ما لک ہو لیکن کوئی دشمن اس کو کھا نے پینے نہ دیے تو وہ کھا پی نہیں سکتا طعام کا مالک بھی ہو کئی منع کرنے وال بھی نہ ہو لیکن کسی مرض کی وجہ سے کھا نہ سکتا ہو مثلاً منہ میں کنسر ہوں تو وہ کھا پی نہیں سکتا سو اس کی کتنی بڑی نعمت ہے اس نے کھانے پینے کے لیے زمین میں اناج اور پھل پیدا کیے آسمان سے پانی نازل کیا زمین میں روئیدگی کی صلا حیت رکھی سورج کی حرات سے اناج اور پھلوں کو پکا یا ہوائوں سے دانے اور بھو سے کو الگ کیا پھر زق کے حصول کے لیے انسان کو صحت اور قوت کے اسباب فراہم کیے کھا نے پینے کے قوت کسی مانع سے محفوظ رکھا کھا نے پینے کے لیے منہ کو مرض سے محفوظ رکھا اس غذا کو ہضم کرنے کے لیے اور اس کو جسم کا جز بانے کے لیے معدہ جگر آنتوں اور دیگر اندرونی اعضاء کو امراٗ ض سے سلامت رکھا صحیح وسالم ہاتھ بنائے کہ نوالہ ہاتھوں سے منہ تک لے جاسکے اگر وہ ٹنڈا ہوتا اس کے ہاتھ کٹے ہوئے ہوتے تو وہ کیسے کھاتا اور پیتا اس لیے حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) نے فرمایا اور وہی مجھے کھلا تا ہے اور پلاتا ہے پھر اس نے کھا نے اور پینے کے لیے اناج پھلوں کی متعدد اجناس پیدا کیں گندم ‘ جو اور و مکئی ہے چنا ہے چاول ہے اور مختلف اقسام کے پھل ہیں اگر کسی کے مزاج اور صحت کے گندم موافق نہیں تو جو اور مکئی کھالے گوشت کھا نے کے لیے طرح طرح کے حیوانا پیدا کیے ‘ غریب آدمی مرغی اور بکری کا گوشت نہیں کھا سکتا وہ گائے کا گوشت کھالے جس کا گائے کا گوشت نقصان دیتا ہو وہ بکری کا گوشت کھالے مرغ کھالے مچھلی کھالے سبزیاں کھالے دالیں کھالے اس نے امیر اور غریب ہر طبقہ کے لیے صحت اور مرض کے اعتبار سے ہر قسم کے اسنانوں کے لیے غدا کی اجناس فراہم کی اس لیے حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے پیدا کرنے کے بعد اس کی پرورش کرنے کی اس عظیم اور ہم گیر نعمت کا ذکر فرمایا اور وہی مجھے کھلاتا ہے اور پلاتا ہے 

ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کھانے اور پینے کے اسرار 

ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی ایک حدیث میں اللہ تعالیٰ کے کھلا نے اور پلانے کا ذکر کیا ہے فرمایا 

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا وصال کے روزے (سحر و افطار کے بغیر مسلسل روز) نہ رکھو ‘ صحابہ نے کہ آپ تو وصال کے روزے رکھتے ہیں آپ نے فرمایا میں تم میں سے کسی کی مثل نہیں ہوں بیشک میں کھلا یا جاتا ہوں اور پلایا جاتا ہوں ‘ یا فرمایا میں اپنے رب کے پاس سے رات کہ ہوتا ہوں مجھے کھلایا اور پلایا جاتا ہے 

(صحیح البخاری رقم الحدیث ١٦٩١‘ صحیح مسلم رقم الحدیث ٤٠١١‘ سنن الترمذی رقم الحدیث ٨٧٧ مسند احمد رقم الحدیث ٠٧٧٢١‘ عالم الکتب سنن دارمی رقم الحدیث ١١٧١‘ صحیح ابن حبان رقم الحدیث ٤٧٥٣ )

اور حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے آپنے فرمایا میں تمہاری مثل نہیں ہوں بیشک مجھے میرا رب کھلاتا ہے اور ہی مجھے پلاتا ہے (صیحح البخاری رقم الحدیث ٤٦٩١‘ صحیح مسلم رقم الحدیث ٥٠١١‘ السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث ٦٦٢٣ )

اس حدیث میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جس کھا نے اور پینے کا ذکر ہے اس کی تشریح میں ایک قوم یہ ہے کہ اس سے مراد حسی کھانا ہے جو منہ سے کھایا جاتا ہے دنیاوی کھانے کے اعتبار سے آپنے وصال کے روزے رکھے تھے اور یہکھانا آپ کو جنت سے لا کر کھلایا اور پلایا جاتا تھا اور اس کی تشریح میں دوسرا قول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو معرفت کی غذا کھلا تا تھا اور آپ کے قلب پر دعا اور منا جات خضوع خشوع اور سوزو غداز کی لتت کا فیضان کرتا تھا اور آپ کی آنکھوں کے اپنے قرب کی ٹھنڈک عطا کر تھا تھ اور اپنی محبت کی راحت عطا کرتا تھا اور اپنے روح پر ور جمال سے آپ کی روح کو شاد کام اور نفس تازگی عطا فرماتا تھا 

ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھا نے پینے کے محتاج نہیں تھے یہی وجہ ہے کہ وصال کے روزے رکھنے اور مسلسلے کھا نے پینے کو ترک کرنے کی وجہ سے آپ کی جسمانی حالت میں کوئی ضعف اور تغیر رونما نہیں ہو آپ بہ ظاہر صرف اس لیے کھاتے پیتے تھے کہ آپ کی ضعیف امت کے لیے کھانا پینا سنت ہوجائے اور ان کو کھا نے پینے کے آ داب اور طریقہ کا علم ہوجائے اور جن چیزوں کو آپ کھا نے پینے کے لیے اختیار کریں ان چیزوں کا کھانا پینا کار ثواب ہوجائے اور ان چیزوں کا دوسری چیزوں پر مرتبہ بڑھ جائے 

بعض روایات میں ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیٹ پر پتھر باتھ لیتے تھے تو یہ بھوک کی وجہ سے نہ تھا بلکہ یہ اس لیے تھا کہ آپ کمال الطافت کی وجہ سے عالم ملکوت سے واصل نہ ہوجائیں بلکہ آپ مخلوق کی رشد و ہدایت اور لوگوں کی رہنمائی کے لیے اسی عالم نا سوت میں بر قرار رہی اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس میں بھی امت کی تعلیم مقصود ہو کہ اگر ان کو کچھ کھا نے پینے کے لیے نہ ملے اور بھوک کی شدت ہو تو وہ پیٹ پر پتھر باندھ لیں اور جس طرح کھانا پینا ان کی سنت ہے اور آپ نے انہیں کھا نے پینے کے آ داب بتائے اسی طرح بھوکا رہنا بھی ان کے لیے سنت ہوجائے اور اس کے آ داب بھی انہیں معلوم ہوجائیں 

حضرت ابو طلحہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھوک کی شکایت کی اور ہم نے کپڑا اٹھا کر اپنے پیٹوں پر باندھے پتھردکھائے تو رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے پیٹ پر دو پتھر دکھائے 

(سن الترمذی رقم الحدیث ١٧٣٢‘ شمائل ترمذی رقم الحدیث ١٧٣‘ تہذیب الکمال ج ٢١ ص ١٧١)

علامہ اسماعیل حقی متوفی ٨٣١١ ھ لکھتے ہیں 

شیخ آفندی قدس سرہ نے کہا ہے کہ آپ کی امت کے بعض افراد سے منقول ہے کہ وہ کئی کئی سال بغیر کھائے پیے گزار دیتے تھے کیونکہ ان کو عالم قدس سے واصل ہونے کی شدید قوت تھی اور وہ بشری حجابات سے مجرد ہوچکے تھے تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو ان سے بہت اولیٰ اور اقویٰ ہیں۔ (روح البیان ج ٦ ص ٤٦٣‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٢٤١ ھ)

القرآن – سورۃ نمبر 26 الشعراء آیت نمبر 79