وَلَا تُخۡزِنِىۡ يَوۡمَ يُبۡعَثُوۡنَۙ ۞- سورۃ نمبر 26 الشعراء آیت نمبر 87
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَلَا تُخۡزِنِىۡ يَوۡمَ يُبۡعَثُوۡنَۙ ۞
ترجمہ:
اور جس دن سب لوگ دوبارہ زندہ کیے جائیں گے مجھے شرمندہ نہ کرنا
قیامت کے دن پردہ رکھنے کی دعا کی تلقین
حضرت ابراہیم نے پانچویں دعا یہ کی کہ اور جس دن سب لوگ دوبارہ زنہ کئے جائیں گے مجھے شرمندہ نہ کرنا (العراء 87) یعنی مجھ سے ایسے جو کام سرزد ہوگئے جو خلاف اولیٰ تھے ان پر مجھے عتاب نہ فرمانا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو علم تھا کہ اللہ تعالیٰ ان پر عتاب نہیں فرمائے گا اور ان کو شرمندہ نہیں کے گا اس کے باوجود انہوں نے اظہار عبودیت کے لئے یہ دعا کی اور دوسروں کو اس دعا کی ترغیب دینے کے لئے۔
قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ فرمائے گا :
اے مجرمو ! آج تم الگ ہو جائو
اس دن کافر، مومن سے اور گنہگار اطاعت گزار سے الگ کر کے کھڑے کردیئے جائیں گے۔ اس دن بدکاروں کو نیکوں سے الگ کردیا جائے گا اس دنیا میں تو سب لوگ مل جل کر رہتے ہیں، ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن پیر بدکاروں کی صف میں ہو اور مرید نیکو کاروں کی صف میں ہوا اور استاذ بدکاروں کی صف میں ہو اور شاگرد نیکوں کی صف میں کھڑا ہو، جن لوگوں کو دنیا میں ہم پر پردہ رکھا ہے آخرت میں بھی پردہ رکھنا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ہمیں اسید عا کی تلقین فرمائی ہے۔
جس طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دوسروں کو تلقین کرنے کے لئے یہ دعا کی کہ جس دن سب لوگ دوبارہ زندہ کئے جائیں مجھے شرمندہ نہ کرنا یعنی میرا پردہ رکھنا اور میرے عیوب اور خطائیں لوگوں کے سامنے ظاہر نہ کرنا، اسی طرح نبی سید نا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اپنی امت کی تعلیم کے لئے یہ دعا کی ہے کہ میرے عیوب اور خطائوں پر پردہ رکھنا۔
حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبح اور شام ان دعائوں کو ترک نہیں کرتے تھے۔
اے اللہ میں تجھ سے دنیا اور آخرت میں عافیت کا سوال کرتا ہوں، اے اللہ ! میں تجھ سے اپنے دین اور دنیا میں اور اپنے اہل اور مال میں عافیت کا سوال کرتا ہوں اے اللہ ! میرے عیوب پر پردہ رکھ اور جن چیزوں سے مجھے خوف ہے، ان سے مجھے محفوظ رکھ، اے اللہ میرے آگے اور میرے پچیھے اور میرے دائیں اور میرے بائیں اور میرے اوپر (کے شر) سے مجھ کو محفوظ رکھ اور اس سے میں تیری عظمت کی پناہ میں آتا ہوں کہ میں اپنے نیچے سے کسی شر میں مبتلا کیا جائوں، حضرت عبداللہ بن عمر نے کہا آپ کی مراد تھی زمین میں دھنسنے سے۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث)
اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صراحتہ بھی مسلمانوں کو پردہ رکھنے کی دعا کی تلقین فرمائی ہے۔
حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ جنگ خندق کے دن ہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! جب خوف سے ہمارے کلیجے منہ کو آنے لگیں تو کوئی ایسی چیز ہے ؟ کہ ہم پڑھ لیا کریں۔ آپ نے فرمایا ہاں ! تم یہ دعا کیا کرو :
اے اللہ ہمارے عیوب پر پردہ رکھ اور جن چیزوں کا ہمیں خوف ہے ان سے ہم کو محفوظ رکھ۔
پھر اللہ تعالیٰ نے دشمنوں کے مونہوں پر سخت آندھی بھیجی، پھر اللہ عزو جل نے اس آندھی کے ذریعہ ان کو شکست دے دی۔ (مسند احمد، کنز الاعمال)
القرآن – سورۃ نمبر 26 الشعراء آیت نمبر 87