کنزالایمان مع خزائن العرفان پارہ 14 رکوع 6 سورہ الحجر آیت نمبر 80 تا 99
وَ لَقَدْ كَذَّبَ اَصْحٰبُ الْحِجْرِ الْمُرْسَلِیْنَۙ(۸۰)
اور بےشک حجر والو ں نے رسولوں کو جھٹلایا(ف۸۶)
(ف86)
حِجر ایک وادی ہے مدینہ اور شام کے درمیان جس میں قومِ ثمود رہتے تھے ۔ انہوں نے اپنے پیغمبر حضرت صالح علیہ السلام کی تکذیب کی اور ایک نبی کی تکذیب تمام انبیاء کی تکذیب ہے کیونکہ ہر رسول تمام انبیاء پر ایمان لانے کی دعوت دیتا ہے ۔
وَ اٰتَیْنٰهُمْ اٰیٰتِنَا فَكَانُوْا عَنْهَا مُعْرِضِیْنَۙ(۸۱)
اور ہم نے ان کو اپنی نشانیاں دیں (ف۸۷) تو وہ ان سے منہ پھیرے رہے (ف۸۸)
(ف87)
کہ پتھر سے ناقہ پیدا کیا جو بہت سے عجائب پر مشمل تھا مثلاً اس کا عظیم الجُثہ ہونا اور پیدا ہوتے ہی بچہ جننا اور کثرت سے دودھ دینا کہ تمام قومِ ثمود کو کافی ہو وغیرہ یہ سب حضرت صالح علیہ الصلٰوۃ والسلام کے معجزات اور قومِ ثمود کے لئے ہماری نشانیاں تھیں ۔
(ف88)
اور ایمان نہ لائے ۔
وَ كَانُوْا یَنْحِتُوْنَ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا اٰمِنِیْنَ(۸۲)
اور وہ پہاڑوں میں گھر تراشتے تھے بے خوف(ف۸۹)
(ف89)
کہ انہیں اس کے گرنے اور اس میں نقب لگائے جانے کا اندیشہ نہ تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ یہ گھر تباہ نہیں ہوسکتے ، ان پر کوئی آفت نہیں آسکتی ۔
فَاَخَذَتْهُمُ الصَّیْحَةُ مُصْبِحِیْنَۙ(۸۳)
تو انہیں صبح ہوتے چنگھاڑ نے آلیا (ف۹۰)
(ف90)
اور وہ عذاب میں گرفتار ہوئے ۔
فَمَاۤ اَغْنٰى عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَؕ(۸۴)
تو ان کی کمائی کچھ ان کے کام نہ آئی (ف۹۱)
(ف91)
اور ان کے مال و متا ع اور انکے مضبوط مکان انہیں عذاب سے نہ بچاسکے ۔
وَ مَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَیْنَهُمَاۤ اِلَّا بِالْحَقِّؕ-وَ اِنَّ السَّاعَةَ لَاٰتِیَةٌ فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِیْلَ(۸۵)
اور ہم نے آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے عَبَث(بیکار) نہ بنایا اور بےشک قیامت آنے والی ہے (ف۹۲) تو تم اچھی طرح درگزر کرو (ف۹۳)
(ف92)
اور ہر ایک کو اس کے عمل کی جزا ملے گی ۔
(ف93)
اے مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اپنی قوم کی ایذاؤں پر تحمل کرو ۔ یہ حکم آیتِ قتال سے مَنْسُوخ ہوگیا ۔
اِنَّ رَبَّكَ هُوَ الْخَلّٰقُ الْعَلِیْمُ(۸۶)
بےشک تمہارا رب ہی بہت پیدا کرنے والا جاننے والا ہے (ف۹۴)
(ف94)
اسی نے سب کو پیدا کیا اور وہ اپنی مخلوق کے تمام حال جانتا ہے ۔
وَ لَقَدْ اٰتَیْنٰكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ وَ الْقُرْاٰنَ الْعَظِیْمَ(۸۷)
اور بےشک ہم نے تم کو سات آیتیں دیں جو دہرائی جاتی ہیں (ف۹۵) اور عظمت والا قرآن
(ف95)
نماز کی رکعتوں میں یعنی ہر رکعت میں پڑھی جاتی ہیں اور ان سات آیتوں سے سورتِ فاتحہ مراد ہے جیسا کہ بخاری و مسلم کی حدیث میں وارد ہوا ۔
لَا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْكَ اِلٰى مَا مَتَّعْنَا بِهٖۤ اَزْوَاجًا مِّنْهُمْ وَ لَا تَحْزَنْ عَلَیْهِمْ وَ اخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ(۸۸)
اپنی آنکھ اٹھاکر اس چیز کو نہ دیکھو جو ہم نے ان کے کچھ جوڑوں کو برتنے کو دی (ف۹۶) اور ان کا کچھ غم نہ کھاؤ (ف۹۷) اور مسلمانوں کو اپنے رحمت کے پَروں میں لے لو (ف۹۸)
(ف96)
معنٰی یہ ہیں کہ اے سیدِ انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم نے آپ کو ایسی نعمتیں عطا فرمائیں جن کے سامنے دنیوی نعمتیں حقیر ہیں تو آپ متاعِ دنیا سے مستغنی رہیں جو یہود و نصارٰی وغیرہ مختلف قسم کے کافِروں کو دی گئیں ۔ حدیث شریف میں ہے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ہم میں سے نہیں جو قرآن کی بدولت ہر چیز سے مستغنی نہ ہوگیا یعنی قرآن ایسی نعمت ہے جس کے سامنے دنیوی نعمتیں ہیچ ہیں ۔
(ف97)
کہ وہ ایمان نہ لائے ۔
(ف98)
اور انہیں اپنے کرم سے نوازو ۔
وَ قُلْ اِنِّیْۤ اَنَا النَّذِیْرُ الْمُبِیْنُۚ(۸۹)
اور فرماؤ کہ میں ہی ہوں صاف ڈر سنانے والا(اس عذاب سے)
كَمَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَى الْمُقْتَسِمِیْنَۙ(۹۰)
جیسا ہم نے بانٹنے والوں پر اتارا
الَّذِیْنَ جَعَلُوا الْقُرْاٰنَ عِضِیْنَ(۹۱)
جنہوں نے کلامِ الٰہی کو تِکّے بوٹی کرلیا (ف۹۹)
(ف99)
حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایا کہ بانٹنے والوں سے یہود و نصارٰی مراد ہیں چونکہ وہ قرآنِ کریم کے کچھ حصّہ پر ایمان لائے جو ان کے خیال میں ان کی کتابوں کے موافق تھا اور کچھ کے منکِر ہوگئے ۔ قتادہ و ابنِ سائب کا قول ہے کہ بانٹنے والوں سے کُفّارِ قریش مراد ہیں جن میں بعض قرآن کو سحر ، بعض کہانت ، بعض افسانہ کہتے تھے اس طرح انہوں نے قرآنِ کریم کے حق میں اپنے اقوال تقسیم کر رکھے تھے اور ایک قول یہ ہے کہ بانٹنے والوں سے وہ بارہ اشخاص مراد ہیں جنہیں کُفّار نے مکّۂ مکرّمہ کے راستوں پر مقرر کیا تھا ، حج کے زمانہ میں ہر ہر راستہ پر ان میں کا ایک ایک شخص بیٹھ جاتا تھا اور وہ آنے والوں کو بہکانے اور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منحرف کرنے کے لئے ایک ایک بات مقرر کر لیتا تھا کہ کوئی آنے والوں سے یہ کہتا تھا کہ ان کی باتوں میں نہ آنا کہ وہ جادو گر ہیں ، کوئی کہتا وہ کذّاب ہیں ، کوئی کہتا وہ مجنون ہیں ، کوئی کہتا وہ کاہن ہیں ، کوئی کہتا وہ شاعر ہیں یہ سن کر لوگ جب خانۂ کعبہ کے دروازہ پر آتے وہاں ولید بن مغیرہ بیٹھا رہتا اس سے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حال دریافت کرتے اور کہتے کہ ہم نے مکّہ مکرّمہ آتے ہوئے شہر کے کنارے ان کی نسبت ایسا سنا وہ کہہ دیتا کہ ٹھیک سنا ۔ اس طرح خَلق کو بہکاتے اور گمراہ کرتے ان لوگوں کو اللہ تعالٰی نے ہلاک کیا۔
فَوَرَبِّكَ لَنَسْــٴَـلَنَّهُمْ اَجْمَعِیْنَۙ(۹۲)
تو تمہارے رب کی قسم ہم ضرور ان سب سے پوچھیں گے(ف۱۰۰)
(ف100)
روزِ قیامت ۔
عَمَّا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۹۳)
جو کچھ وہ کرتے تھے (ف۱۰۱)
(ف101)
اور جو کچھ وہ سیّدِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قرآن کی نسبت کہتے تھے ۔
فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِیْنَ(۹۴)
تو علانیہ کہہ دو جس بات کا تمہیں حکم ہے (ف۱۰۲) اور مشرکوں سے منہ پھیر لو (ف۱۰۳)
(ف102)
اس آیت میں سیدِ عالَم کو رسالت کی تبلیغ اور اسلام کی دعوت کے اظہار کا حکم دیا گیا ۔ عبداللہ بن عبیدہ کا قول ہے کہ اس آیت کے نُزول کے وقت تک دعوتِ اسلام اعلان کے ساتھ نہیں کی جاتی تھی ۔
(ف103)
یعنی اپنا دین ظاہر کرنے پر مشرکوں کی ملامت کرنے کی پرواہ نہ کرو اور ان کی طرف ملتفِت نہ ہو اور ان کے تمسخُر و استہزاء کا غم نہ کرو ۔
اِنَّا كَفَیْنٰكَ الْمُسْتَهْزِءِیْنَۙ(۹۵)
بےشک ان ہنسنے والوں پر ہم تمہیں کفایت کرتے ہیں(ف۱۰۴)
(ف104)
کُفّارِ قریش کے پانچ سردار ( ۱) عاص بن وائل سہمی اور (۲) اسودبن مطلب اور(۳) اسود بن عبدیغوث اور(۴)حارث بن قیس اور ان سب کا افسر(۵) ولیدا بن مغیرہ مخزومی ۔ یہ لوگ نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بہت ایذا دیتے اور آپ کے ساتھ تمسخُر و استہزاء کرتے تھے ۔ اسود بن مطلب کے لئے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا کی تھی کہ یاربّ اس کو اندھا کر دے ۔ ایک روز سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجدِ حرام میں تشریف فرما تھے ، یہ پانچوں آئے اور انہوں نے حسبِ دستور طعن و تمسخُر کے کلمات کہے اور طواف میں مشغول ہوگئے ۔ اسی حال میں حضرت جبریلِ امین حضرت کی خدمت میں پہنچے اور انہوں نے ولید بن مغیرہ کی پنڈلی کی طرف اور عاص کے کفِ پا کی طرف اور اسود بن مطلب کی آنکھوں کی طرف اور اسود بن عبد یغوث کے پیٹ کی طرف اور حارث بن قیس کے سر کی طرف اشارہ کیا اور کہا میں ان کا شردفع کروں گا چنانچہ تھوڑے عرصہ میں یہ ہلاک ہوگئے ۔ ولید بن مغیرہ تیر فروش کی دوکان کے پاس سے گزرا اس کے تہہ بند میں ایک پیکان چبھا مگر اس نے تکبّر سے اس کو نکالنے کے لئے سر نیچا نہ کیا اس سے اس کی پنڈلی میں زخم آیا اور اسی میں مرگیا ۔ عاص ابنِ وائل کے پاؤں میں کانٹا لگا اور نظر نہ آیااس سے پاؤں ورم کرگیا اور یہ شخص بھی مرگیا ۔ اسود بن مطلب کی آنکھوں میں ایسا درد ہوا کہ دیوار میں سر مارتا تھا اسی میں مرگیا اور یہ کہتا مرا کہ مجھ کو محمّد نے قتل کیا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اسود بن عبد یغوث کو استسقاء ہوا اور کلبی کی روایت میں ہے کہ اس کو لُو لگی اور اس کا منہ اس قدر کالا ہوگیا کہ گھر والوں نے نہ پہچانا اور نکال دیا اسی حال میں یہ کہتا مرگیا کہ مجھ کو محمّد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ربّ نے قتل کیا اور حارث بن قیس کی ناک سے خون اور پیپ جاری ہوا ، اسی میں ہلاک ہوگیا ۔ انہیں کے حق میں یہ آیت نازِل ہوئی ۔ (خازن)
الَّذِیْنَ یَجْعَلُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَۚ-فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ(۹۶)
جو اللہ کے ساتھ دوسرا معبود ٹھہراتے ہیں تو اب جان جائیں گے (ف۱۰۵)
(ف105)
اپنا انجامِ کار ۔
وَ لَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّكَ یَضِیْقُ صَدْرُكَ بِمَا یَقُوْلُوْنَۙ(۹۷)
اور بےشک ہمیں معلوم ہے کہ ان کی باتوں سے تم دل تنگ ہوتے ہو (ف۱۰۶)
(ف106)
اور ان کے طعن اور استہزاء اور شرک وکُفر کی باتوں سے آپ کو ملال ہوتا ہے ۔
فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَ كُنْ مِّنَ السّٰجِدِیْنَۙ(۹۸)
تو اپنے رب کو سراہتے ہوئے اس کی پاکی بولو اور سجدہ والوں میں ہو (ف۱۰۷)
(ف107)
کہ خدا پرستوں کے لئے تسبیح و عبادت میں مشغول ہونا غم کا بہترین علاج ہے ۔ حدیث شریف میں ہے کہ جب سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کوئی اہم واقعہ پیش آتا تو نماز میں مشغول ہو جاتے ۔
وَ اعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰى یَاْتِیَكَ الْیَقِیْنُ۠(۹۹)
اور مرتے دم تک اپنے رب کی عبادت میں رہو