أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اِنِّىۡ لَـكُمۡ رَسُوۡلٌ اَمِيۡنٌۙ ۞

ترجمہ:

بیشک میں تمہارے لئے امانت دار رسول ہوں

اس کے بعد حضرت نوح نے کہا : بیشک میں تمہارے لئے امانت دار رسول ہوں۔ (الشعرا : ١٠٧) یعنی اللہ تعالیٰ نے مجھ پر جو وحی نازل کی ہے وہ میرے پاس امانت ہے، میں اس میں کوئی کمی بیشی نہیں کرتا اور جوں کی توں وحی اور اللہ کا پغیام تم تک پہنچا دیتا ہوں، اور اس کا دوسرا محمل یہ ہے کہ اعلان نبوت سے پہلے حضرت نوح (علیہ السلام) اپنی قوم میں امانت دار مشہور تھے جس طرح ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اعلان نبوت سے پہلے اپنی قوم میں الصادق الامین کے لقب سے مشہور تھے، اس قول سے حضرت نوح (علیہ السلام) یہ دلیل قائم کرنا چاہتے تھے کہ جب میں لوگوں کی امانت میں کوئی خیانت نہیں کرتا تو اللہ کے معاملہ میں کیسے خیانت کرسکتا ہوں کہ اس نے مجھے نبی نہ بنایا ہو اور مجھ پر وحی نازل نہ کی ہو اور میں کہوں اللہ نے مجھے نبی بنایا ہے اور مجھ پر وحی نازل کی ہے، سو جس طرح اس آیت سے حضرت نوح (علیہ السلام) کی نبوت ثابت ہوتی ہے اسی طرح اس آیت سے ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت بھی ثابت ہوتی ہے۔ 

القرآن – سورۃ نمبر 26 الشعراء آیت نمبر 107