أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اِنۡ حِسَابُهُمۡ اِلَّا عَلٰى رَبِّىۡ‌ لَوۡ تَشۡعُرُوۡنَ‌ۚ‏ ۞

ترجمہ:

ان کا حساب تو صرف میرے رب کے ذمہ ہے اگر تمہیں کچھ شعور ہو ،

اور کہا : ان کا حساب تو میرے رب کے ذمہ ہے اگر تمہیں کچھ شعور ہو۔ (الشعرائ : ١١٣)

یعنی ان کے دل میں اخلاص ہے یا نفاق ہے یہ جاننا اور یہ فیصلہ کرنا میرا منصب نہیں ان کے باطن اور ان کے دل کی تفتیش کرنا میرا کام نہیں ہے، میرا کام صرف ظاہر پر حکم لگانا ہے اور باطن کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے، جیسا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے :

حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں اس وقت تک لوگوں سے قتال کروں حتیٰ کہ وہ یہ گواہی دیں کہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ، اور نماز قائم رکھیں اور زکوۃ ادا کریں اور جب وہ ایسا کرلیں گے تو وہ مجھ سے اپنی جانوں اور مالوں کو محفوظ کرلیں گے ماسوا حق اسلام کے (اور اگر انہوں نے کوئی جرم مخفی رکھا) تو اس کا حساب کرنا اللہ کے ذمہ ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٥، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٢، مسند احمد رقم الحدیث : ١٣٠٨٧ عالم الکتب)

حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تقسیم پر اعتراض کرتے ہوئے کہا اللہ سے ڈریے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم پر افسوس ہے اگر میں اللہ سے نہیں ڈروں گا تو پھر کون اللہ سے ڈرے گا، پھر وہ شخص پیٹھ پھیر کر چل دیا۔ خضرت خالد بن ولید (رض) نے کہا یا رسول اللہ ! کیا میں اس شخص کی گردن نہ اڑا دوں ! آپ نے فرمایا : نہیں ہوسکتا ہے کہ وہ نماز پڑھتا ہو ! حضرت خالد نے کہا کتنے نماز پڑھنے والے ہیں وہ زبان سے جو کچھ پڑھتے ہیں وہ ان کے دلوں میں نہیں ہوتا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھے یہ حکم نہیں دیا گیا کہ میں لوگوں کے دلوں کو چیر کر دیکھوں اور نہ مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں ان کے باطن کی تفتیش کروں۔(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٣٥١ صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٠٦٤ سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٤٧٦٤ سنن النسائی رقم الحدیث : ٢٥٧٨ )

حضرت کعب بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب غزوہ تبوک میں آپ کے ساتھ نہ جانے والے اسی (٨٠) سے زیادہ منافقوں نے آپ کے سامنے جھوٹے بہانے کر کے عذر پیش کیے تو :

فقبل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) علانیتھم و بایعھم واستغفرلھم و وکل سرائھم الی اللہ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٧٥٩) تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے ظاہر کئے ہوئے بہانوں کو قبول کرلیا اور ان کو بیعت کرلیا اور ان کے لئے استغفار کیا اور ان کے باطن کو اللہ کے سپرد کردیا۔

حضرت ام سلمہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجرے کے دروازے کے باہر لوگوں کے لڑنے کی آواز سنی، آپ حجرے سے باہر نکل کر ان کے پاس گئے اور فرمایا میں صرف بشر ہوں (خدا نہیں ہوں) اور بیشک میرے پاس دو لڑنے والے فریق آتے ہیں، پس ہوسکتا ہے کہ ان میں سے کوئی فریق اپنے موقف کو زیادہ چرب زبانی کے ساتھ پیش کرے اور میں (ظاہر کے اعتبار سے) یہ گمان کروں کہ وہ سچا ہے۔ پس (بالفرض) میں اس کے متعلق کسی مسلمان کے حق کا فیصلہ کردوں تو دراصل وہ آگ کا ٹکڑا ہے، خواہ وہ اس کو لے یا اس کو ترک کر دے۔

(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٤٥٨، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٤١١ سنن ابودائود رقم الحدیث : ٣٥٨٣ سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٣٣٩ سنن النسائی رقم الحدیث : ٥٣٠١ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٣١٧)

عبداللہ بن عتبہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد میں وحی کی وجہ سے لوگوں پر گرفت ہوتی تھی اور اب وحی منقطع ہوچکی ہے اور اب ہم تمہاری صرف اس چیز پر گرفتک ریں گے جو تمہارے عمل سے ظاہو ہوگی، سو جو شخص ہمارے سامنے کسی خیر اور نیکی کو ظاہر کرے گا ہم اس کو مامون رکھیں گے اور اس کو مقرب بنائیں گے، اور اس کے باطن کی کوئی چیز ہمارے سپرد نہیں ہے اس کے باطن کا اللہ حساب لے گا اور جس نے ہمارے سامنے کسی برے کام کو ظاہر کیا تو ہم اس کو امن نہیں دیں گے اور اس کی تصدیق نہیں کریں گے خواہ وہ یہ کہے کہ اس کا باطن نیک ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٦٤١، مطبوعہ دارارقم بیروت)

امام عبدالبر نے تمہید میں لکھا ہے کہ اس پر اجماع ہے کہ دنیا کے احکام ظاہر پر مبنی ہیں اور باطنی معاملات اللہ کے سپرد ہیں۔ (الشذرہ فی الاحادیث المشتہرہ ج ١ ص ١٢٤-١٢٣ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤١٣ ھ)

القرآن – سورۃ نمبر 26 الشعراء آیت نمبر 113