أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَ اِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الۡعَزِيۡزُ الرَّحِيۡمُ۞

 ترجمہ:

بیشک آپ کا رب ضرور بہت غالب اور بہت رحم فرمانے والا ہے

الشعرائ : ١٢٢ میں فرمایا بیشک آپ کا رب ضرور غالب ہے یعنی وہ جن کافروں کو عذاب دینے کا ارادہ کرے ان پر ضرور غالب ہے اور بہت رحم فرمانے والا ہے یعنی جو توبہ کرے اس پر رحم فرماتا ہے یا عذاب کو موخر کرکے کافروں پر بھی اس دنیا میں رحم فرماتا ہے۔ 

قصہ نوح کے بعض اسرار :

حضرت نوح (علیہ السلام) کے قصہ میں اس آیت کا مکررذکر فرمایا : بیشک اس میں ضرور نشانی ہے اور ان میں سے اکثر لوگ ایمان لانے والے نہ تھے (الشعرائ : ١٢١) اس آیت میں یہ دلیل ہے کہ ایمان والے کم لوگ تھے اور اس میں کو شک نہیں کہ دنیا کے اکثر لوگ اللہ کے نزدیک اسفل اور ارذل ہیں اور جو لوگ اللہ کے نزدیک معظم اور مکرم ہوں وہ بہت کم ہیں اور اللہ کے نزدیک معظم اور مکرم وہی لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہیں اور متقی اور پرہیز گار ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

(الحجرات : ١٣)بے شک اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی اور پرہیز گار ہے۔ 

اور بیشک آپ کا رب عزیز اور غالب ہے تو جو اللہ کے نزدیک ارذل، اسفل اور نیچ لوگ ہیں وہ اس کی طرف ہدایت نہیں پاتے اور وہ بہت رحم فرمانے والا ہے تو جو اس کے نزدیک معزز اور مکرم ہیں وہ اپنی رحمت سے ان کو اپنی طرف ہدایت دینے کے لئے چن لیتا ہے۔ 

ان آیات میں حضرت نوح سے انسان کے قلب کی طرف اشارہ ہے اور ان کی قوم سے نفس اور اس کی صفات کی طرف اشارہ ہے اور مومنین سے انسان کے جسم اور اس کے اعضاء کی طرف اشارہ ہے، کیونکہ انسان کا جسم اور اس کا قلب اللہ تعالیٰ پر ایمان لاکر احکام شرعیہ پر عمل کرتے ہیں، اور بھری ہوئی کشتی سے شریعت کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے احکام، اوامر اور نواہی، اور مواعظم اسرار اور حقائق اور معانی سے بھری ہوئی ہے، جو شریعت کی اس کشتی میں سوار ہوجاتا ہے وہ نجات پا جاتا ہے۔ 

اور جو شریعت کی اس کشتی میں سوار نہیں ہوتا وہ مذموم اور برے اخلاق، دنیا کے مال و دولت، دنیاوی عزت، زینت اور نفس کی شہوات کے طوفان کے غلبہ میں غرق ہوجاتا ہے، اور ہر کشتی کو چلانے کے لئے کسی ملاح کی ضرورت ہوتی ہے اور شریعت کی اس کشتی کو چلانے والے علماء راسخین ہیں جو علم شریعت میں ماہر ہوں اور علم کے تقاضوں پر عمل کرتے ہوں۔ 

ہمارے اس دور میں لوگ مروجہ پیروں پر اعتقاد رکھتے ہیں اور ان ہی کو نجات دہندہ سمجھتے ہیں لیکن ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ اس دور کے اکثر پیرا اور گدی نشین شریعت سے ناواقف اور بےبہرہ ہیں ان کو خود احکام شرعیہ کا علم نہیں ہوتا تو وہ اپنے مریدوں کی کس طرح رہنمائی کریں گے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس زمانہ اور ایسے لوگوں کے متعلق یہ پیش گوئی فرمائی ہے :

جاہل پیروں کی بیعت کا حرام ہونا 

حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) عنھما بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے بیشک اللہ بندوں (کے سینوں) سے علم نہیں نکالے گا لیکن علماء کے اٹھ جانے سے علم اٹھ گا حتیٰ کہ جب کوئی عالم باقی نہیں بچے گا تو لوگ جاہلوں کو اپنا پیشوا بنالیں گے، ان سے سوال کیا جائے گا تو وہ بغیر علم کے جواب دیں گے سو وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔ 

(صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٠٠، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٦٧٣، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٦٥٢، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٥٢، السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ٥٦٠٧)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی متوفی ١٣٤٠ ھ فرماتے ہیں :

صوفیائے کرام فرماتے ہیں صوفی بےعلم مسخرہ شیطان است وہ جانتا ہی نہیں شیطان اپنی باگ ڈور پر لگالیتا ہے۔ حدیث میں ارشاد ہوا : المتعبد بغیر فقہ کالحمار فی الطاحون بغیر فقہ کے عابد بننے والا (عابد نہ فرمایا بلکہ عابد بننے والا فرمایا یعنی بغیر فقہ کے عبادت ہو ہی نہیں سکتی) عابد بنتا ہے وہ ایسا ہے جیسے چکی میں گدھا کہ محنت شاقہ کرے اور حاصل کچھ نہیں۔ ایک صاحب اولیائے کرام میں سے تھے قدسنا اللہ تعالیٰ باسرارھم انہوں نے ایک صاحب ریاضت و مجاہدہ کا شہرہ سنا ان کے بڑے بڑے دعاوی سننے میں آئے ان کو بلایا اور فرمایا یہ کیا دعوے ہیں جو میں نے سنے، عرض کی مجھے دیدار الٰہی روز ہوتا ہے۔ ان آنکھوں سے سمندر پر خدا کا عرض بچھتا ہے اور اس پر خدا جلوہ فرما ہوتا ہے اب اگر ان کو علم ہوتا تو پہلے ہی سمجھ لیتے کہ دیدار الٰہی دنیا میں بحالت بیداری ان آنکھوں سے محال ہے سوائے سید عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اور حضور کو بھی فوق السموات والعرش دیدار ہوا۔ دنیا نام ہے سماوات وارض کا۔ خیران بزرگ نے ایک عالم صاحب کو بلایا اور ان سے فرمایا کہ وہ حدیث پڑھو جس میں حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ شیطان اپنا تخت سمندر پر بچھاتا ہے۔ انہوں نے عرض کی بیشک سید عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے : ان ابلیس یضع عرشہ علی البحر، شیطان اپنا تخت سمندر پر بچھاتا ہے۔ انہوں نے جب یہ سنا تو سمجھے کہ اب تک میں شیطان کو خدا سمجھتا رہا اسی کی عبادت کرتا رہا، اسی کو سجدے کرتا رہا، کپڑے پھاڑے اور جنگل کو چلے گئے پھر ان کا پتہ نہ چلا۔ سید ابوالحسن جو سقی (رض) ، خلیفہ ہیں حضرت سیدی ابوالحسن بن بیتی (رض) ، کے اور آپ خلیفہ ہیں حضور سید نا غوث اعظم (رض) کے آپ نے اپنے ایک مرید کو رمضان شریف میں چلے بٹھایا۔ ایک دن انہوں نے رونا شروع کیا آپ تشریف لائے اور فرمایا کیوں روتے ہو۔ عرض کیا حضرت شب قدر میری نظروں میں ہے۔ شجرو حجر اور دیوار ودرسجدہ میں ہیں نور پھیلا ہوا ہے۔ میں سجدہ کرنا چاہتا ہوں ایک لوہے کی سلاخ حلق سے سینے تک ہے جس سے میں سجدہ نہیں کرسکتا اس وجہ سے روتا ہوں۔ فرمایا اے فرزند وہ سلاخ نہیں وہ تیر ہے جو میں نے تیرے سینے میں رکھا ہے اور یہ سب شیطان کا کرشمہ ہے، شب قدر وغیرہ کچھ نہیں۔ عرض کی حضور میری تشفی کے لئے کوئی دلیل ارشاد ہو۔ فرمایا اچھا دونوں ہاتھ پھیلا کر تدریجا سمیٹو، سمیٹنا شروع کیا، جتنا سمٹتے تھے اتنی ہی روشنی مبدل بہ ظلمت ہوتی جاتی تھی یہاں تک کہ دونوں ہاتھ مل گئے بالکل اندھیرا ہوگیا۔ آپ کے ہاتھوں میں سے شوروغل ہونے لگا۔ حضرت مجھے چھوڑیئے میں جاتا ہوں۔ تب ان مرید کی تشفی ہوئی (پھر فرمایا) بغیر علم کے صوفی کو شیطان کچے تاگے کی لگام ڈالتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے بعد نماز عصر شیاطین سمندر پر جمع ہوتے ہیں ابلیس کا تخت بچھتا ہے۔ شیاطین کی کارگزاری پیش ہوتی ہے، کوئی کہتا ہے اس نے اتنی شرابیں پلائیں، کوئی کہتا ہے اس نے اتنے زنا کرائے سب کی سنیں۔ کسی نے کہا اس نے آج فلاں طالب کو پڑھنے سے بار رکھا۔ سنتے ہی تخت پر سے اچھل پڑا اور اس کو گلے سے لگالیا اور کہا انت انت تو نے کام کیا اور شیاطین یہ کیفیت دیکھ کر جل گئے کہ انہوں نے اتنے بڑے بڑے کام کئے ان کو کچھ نہ کہا اور اس کو اتنی شاباش دی۔ ابلیس بولا تمہیں نہیں معلوم کہ جو کچھ تم نے کیا سب اسی کا صدقہ ہے۔ اگر علم ہوتا تو وہ گناہ نہ کرتے۔ بتائو وہ کون سی جگہ ہے جہاں سب سے بڑا عابد رہتا ہے مگر وہ عالم نہیں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ٍٍٍٍٍْْْْْْاور وہاں ایک عالم بھی رہتا ہو۔ انہوں نے ایک مقام کا نام لیا۔ صبح کو قبل طلوع آفتاب شیاطین کو لئے ہوئے اس مقام پر پہنچا اور شیاطین مخفی رہے اور یہ انسان کی شکل بن کر رستہ پر کھڑا ہوگیا۔ عابد صاحب تہجد کی نماز کے بعد فجر کے واسطے مسجد کی طرف تشریف لائے۔ راستہ میں ابلیس کھڑا ہی تھا، السلام علیکم، وعلیکم السلام حضرت مجھے ایک مسئلہ پوچھنا ہے عابد صاحب نے فرمایا جلد پوچھو مجھے نماز کو جانا ہے۔ اس نے اپنی جیب سے ایک شیشی نکال کر پوچھا اللہ تعالیٰ قادر ہے کہ ان سماوات وارض کو اس چھوٹی سی شیشی میں داخل کر دے۔ عابد صاحب نے سوچا اور کہا، کہاں آسمان و زمین اور کہاں یہ چھوٹی سی شیشی۔ بولا بس یہی پوچھنا تھا تشریف لے جایئے اور شیاطین سے کہا دیکھو اس کی راہ مار دی، اس کو اللہ کی قدرت پر ہی ایمانن ہیں عبادت کس کام کی۔ طلوع آفتاب کے قریب عالم صاحب جلدی کرتے ہوئے تشریف لائے اس نے کہا السلام علیکم، وعلیکم السلام مجھے ایک مسئلہ پوچھنا ہے۔ انہوں نے فرمایا جلدی پوچھو نماز کا وقت کم ہے۔ اس نے وہی سوال کیا۔ عالم نے کہا : ملعون تو ابلیس معلوم ہوتا ہے ارے وہ قادر ہے کہ یہ شیشی تو بہت بڑی ہے ایک سوئی کے ناکے کے اندر اگر چاہیے تو کروڑوں آسمان و زمین داخل کر دے۔ ان اللہ علی کل شیئی قدیر عالم صاحب کے تشریف لے جانے کے بعد ابلیس شیاطین سے بولا، دیکھو یہ علم ہی کی برکت ہے۔ (ملفوظات)

اسی کتاب میں اعلیٰ حضرت کا یہ ارشاد بھی مذکور ہے 

عرض : جاہل پیر فقیر کا مرید ہونا شیطان کا مرید ہونا ہے۔ ارشاد : بلا شبہ (ملفوظات)

القرآن – سورۃ نمبر 26 الشعراء آیت نمبر 122