نَزَلَ بِهِ الرُّوۡحُ الۡاَمِيۡنُۙ ۞- سورۃ نمبر 26 الشعراء آیت نمبر 193
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
نَزَلَ بِهِ الرُّوۡحُ الۡاَمِيۡنُۙ ۞
ترجمہ:
جس کو الروح الامین (جبریل) لے کر نازل ہوئے ہیں
حضرت جبریل کو الروح الامین فرمانے کی وجہ
اس آیت میں قرآن مجید کو اتارنے کے لئے تنزیل کا لفظ استعمال فرمایا ہے اور بعض آیات میں انزال کا لفظ ذکر فرمایا ہے۔ تنزیل کا معنی ہے تھوڑا تھوڑا کرکے نازل کرنا اور انزال عام ہے دفعتاً نازل کرنا یا تھوڑا تھوڑا کرکے نازل کرنا ‘ نیز تفعیل کا وزن کثرت پر دلالت کرتا ہے۔ یہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ قرآن مجید تئیس سال میں متعدد بار نازل ہوا ہے اور اس کے ساتھ رب العالمین کا ذکر فرمایا ہے۔ اس میں یہ اشارہ ہے کہ قرآن مجید کی تنزیل مخلوق کی تربیت اور اس کی پرورش کے لئے ہوئی ہے۔
اس کے بعد فرمایا جس کو الروح الامین (جبریل) نے نازل کیا ہے۔ (الشعراء : ١٩٣)
حضرت جبریل کو امین فرمایا کیونکہ وحی کی امانت ان کے سپرد کی گئی تاکہ وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک وحی کو پہنچائیں اور ان کو روح اس لئے فرمایا کہ وہ مکلفین کے دلوں کی زندگی کا سبب ہیں ‘ جس طرح روح بدن کی زندگی کا سبب ہوتی ہے کیونکہ دل علم اور معرفت کے نور سے زندہ ہوتے ہیں اور بےعلمی اور جہالت سے مردہ ہوتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کفار کو مردہ فرمایا :
ترجمہ : (النمل : ٨٠)… بیشک آپ مردوں کو نہیں سناتے۔
کفار اس لئے مُردہ تھے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی معرفت کے نور سے خالی تھے اور اس کی ذات اور صفات کو کما حقہ نہیں پہچانتے تھے۔ پس حضرت جبریل کو الروح فرمانے کی یہ وجہ ہے کہ وہ وحی لانے پر مامور ہیں اور وحی سے اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کی معرفت ہوتی ہے اور اس معرفت سے دل زندہ ہوتے ہیں اور روح زندگی کا سبب ہے۔ اس لئے حضرت جبریل کو الروح فرمایا۔
حضرت جبرل کو الروح فرمانے کی دوسری وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ حضرت جبریل کا جسم لطیف ہے اور روحانی ہے۔ اسی طرح فرشتے بھی روحانی ہیں وہ روح سے پیدا کئے گئے ہیں اور وہ ہوا کی طرح لطیف ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ فرشتے اجسام لطیفہ ہیں اور وہ اپنی لطافت کی وجہ سے روح کے حکم میں ہیں۔ اس لئے ان کو ارواح قرار دیا گیا اور حضرت جبریل کی لطافت باقی فرشتوں سے بہت زیادہ ہے کیونکہ حضرت جبریل کی تمام فرشتوں پر اس طرح فضیلت ہے جس طرح نبی کی اپنی امت پر فضیلت ہوتی ہے سو غایت لطافت کی وجہ سے ان کو الروح فرمایا۔
القرآن – سورۃ نمبر 26 الشعراء آیت نمبر 193