وَاِنَّهٗ لَـتَنۡزِيۡلُ رَبِّ الۡعٰلَمِيۡنَؕ ۞- سورۃ نمبر 26 الشعراء آیت نمبر 192
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَاِنَّهٗ لَـتَنۡزِيۡلُ رَبِّ الۡعٰلَمِيۡنَؕ ۞
ترجمہ:
اور بیشک یہ (قرآن) رب العالمین کی نازل فرمائی ہوئی کتاب ہے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور بیشک یہ (قرآن) رب العالمین کی نازل فرمائی ہوئی کتاب ہے۔ جس کو الروح الامین (جبریل) لے کر نازل ہوئے ہیں۔ آپ کے قلب کے اوپر تاکہ آپ (اللہ کے عذاب سے) ڈرانے والوں میں سے ہوجائیں۔ صاف صاف عربی زبان میں۔ اور بیشک اس قرآن کا ذکر پہلی کتابوں میں (بھی) ہے۔ (الشعراء ١٩٦۔ ١٩٢)
سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر دلائل
اس سے پہلی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے انبیاء سابقین (علیہم السلام) کے احوال اور ان کی نبوت کے دلائل ذکر فرمائے تھے اور ان کی قوموں نے جو ان کی نبوت کا انکار کیا تھا اور اس انکار کے نتیجہ میں ان پر جو اللہ تعالیٰ کا عذاب آیا تھا اس کا ذکر فرمایا تھا اور اس آیت میں ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کے دلائل ذکر فرھمائے ہیں کیونکہ ان آیتوں میں انبیاء علیہم اللام کے قصص اور ان کے واقعات بیان فرمائے جبکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان قصص اور واقعات کو کسی سے نہیں سنا تھا کیونکہ قریش مکہ جانتے تھے کہ آپ اہل علم اور اہل تاریخ کی مجلس میں نہیں بیٹھے تھے۔ اس کے باوجود آپ نے ان کے واقعات بالکل درست بیان فرما دیئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان تمام واقعات سے آپ کو بذریعہ وحی مطلع فرمایا اور آپ پر وحی کا نزول آپ کی نبوت کی دلیل ہے۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) کے یہ واقعات سابقہ کتابوں میں مذکور ہیں اور آپ نے سابقہ کتابیں نہیں پڑھی تھیں کیونکہ آپ امی تھے۔ اس کے باوجود آپ نے یہ واقعات اسی تل کے ساتھ بیان فرما دیئے اور یہ تبھی ہوسکتا تھا جب آپ پر وحی نازل ہو اور نزول وحی آپ کی نبوت کی دلیل ہے۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 26 الشعراء آیت نمبر 192
[…] اس آیت میں قرآن مجید کو اتارنے کے لئے تنزیل کا لفظ استعمال فرمایا ہے اور بعض آیات میں انزال کا لفظ ذکر فرمایا ہے۔ تنزیل کا معنی ہے تھوڑا تھوڑا کرکے نازل کرنا اور انزال عام ہے دفعتاً نازل کرنا یا تھوڑا تھوڑا کرکے نازل کرنا ‘ نیز تفعیل کا وزن کثرت پر دلالت کرتا ہے۔ یہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ قرآن مجید تئیس سال میں متعدد بار نازل ہوا ہے اور اس کے ساتھ رب العالمین کا ذکر فرمایا ہے۔ اس میں یہ اشارہ ہے کہ قرآن مجید کی تنزیل مخلوق کی تربیت اور اس کی پرورش کے لئے ہوئی ہے۔ […]