وَمَا تَنَزَّلَتۡ بِهِ الشَّيٰطِيۡنُ ۞- سورۃ نمبر 26 الشعراء آیت نمبر 210
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَمَا تَنَزَّلَتۡ بِهِ الشَّيٰطِيۡنُ ۞
ترجمہ:
اور اس (پرآن) کو شیاطین لے کر نازل ہوئے
اس پر دلائل کہ شیاطین قرآن کو نازل نہیں کرسکتے
اس کے بعد فرمایا : اور اس قرآن کو شیاطین لے کر نہیں نازل ہوئے۔ اور نہ وہ اس کے لائق ہیں اور نہ وہ اس کی طاقت رکھتے ہیں۔ بیشک وہ (فرشتوں کا کلام) سننے سے محروم کردیئے گئے ہیں۔ (الشعرائ : ٢١٢۔ ٢١٠)
یعنی اس قرآن کو شیاطین نے سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل نہیں کیا بلکہ اس کو آپ پر الروح الامین نے نازل کیا ہے اور نہ شیاطین کے لئے یہ لائق ہے کہ وہ اس کو آپ پر نازل کریں اور نہ اس کی صلاحیت اور استطاعت رکھتے ہیں کیونکہ آسمان کی جس جگہ سے قرآن مجید نازل ہوتا ہے ‘ وہ وہاں تک پہنچ نہیں سکتے اور شیاطین کو قرآن سننے کی جگہ تک پہنچنے سے معزول کردیا گیا ہے۔ وہ وہاں تک پہنچنے کی کوشش کریں تو ان پر آگ کے گولے پھینکے جاتے ہیں۔
مقاتل نے کہا کہ مشرکین قریش یہ کہتے تھے کہ (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کاہن ہیں ‘ ان کے پاس کوئی جن ہے جس کا وہ کلام سنتے ہیں اور پھر اس کلام کو نقل کرکے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ خدا کا کلام ہے اور اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے زمانہ جاہلیت میں ہر کاہن کے ساتھ کوئی جن ہوتا تھا جو آسمان کے دروازوں پر جا کر فرشتوں کی باتیں سنتا تھا اور سچی اور جھوٹی باتیں اس کاہن کے کانوں میں ڈال دیتا تھا اور پھر کاہن وہ باتیں مشرکوں کو بتاتا تھا۔ اس وجہ سے مشرکین نے یہ گمان کیا کہ قرآن مجید کی وحی بھی اس جنس سے ہے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو جھوٹا قرار دیا اور فرمایا : اس قرآن کو شیاطین نے نازل نہیں کیا بلکہ اس کو الروح الامین نے نازل کیا ہے اور نہ ان کے لئے یہ ممکن ہے کہ وہ آسمان سے قرآن کو سن کر اس کو نازل کرسکیں اور نہ وہ اس کی طاقت رکھتے ہیں اور سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مبعوث ہونے کے بعد ان کا آسمانوں پر فرشتوں کی باتیں سننے کے لئے جانا ممنوع ہوگیا کیونکہ ان کے اوپر آگ کے گولے مارے جاتے ہیں۔
شیاطین فرشتوں کا کلام نہیں سن سکتے اس کی توجیہ اور بحث و نظر
بعض مفسرین نے یہ کہا ہے کہ شیاطین فرشتوں کا کلام سننے سے اس لئے معزول ہیں کہ فرشتوں اور شیاطین کی صفات میں کوئی مشارکت نہیں ہے اور شیاطین میں انوارحق کے فیضان کو قبول کرنے کی صلاحیت نہیں ہے اور ان کے اندر علوم ربانیہ اور معارف نورانیہ کی صورتیں مرتسم اور نقش نہیں ہوسکتیں۔ شیاطین کے نفوس خبیثہ ‘ ظلمانیہ اور شریرہ ہیں۔ وہ صرف اسی چیز کو قبول کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جو ازقبیل فنون شر ہو اور اس میں بالکل خیر نہ ہو اور قرآن مجید تو حقائق اور مغیات پر مشتمل ہے ‘ ماسوا ملائکہ اور کوئی اس کو آسمانوں سے قبول نہیں کرسکتا۔
ان آیات میں یہ اشارہ ہے کہ شیاطین میں قرآن مجید کو نازل کرنے کی صلاحیت نہیں ہے اور نہ اس کو برداشت کرنے کی قوت ہے اور نہ اس کو سمجھنے کی وسعت ہے کیونکہ وہ آگ سے پیدا کئے گئے ہیں اور قرانٓن مجید نور قدیم ہے اور آگ نور قدیم کو برداشت کرنے کی طاقت نہیں رکھتی۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جب دوزخ کی آگ کے پاس سے مومن کا گزر ہوتا ہے تو وہ کہتی ہے :
جزیا مومن فقد اطفا نورک لھبی … اے مومن جلدی سے گزر جا کیونکہ تیرا نور میرے شعلے کو بجھا رہا ہے۔
(المعجم الکبیر ج ٢٢ ص ٢٥٧‘ حافظ الہیثمی نے کہا اس کی سند میں سلیم بن منصور بن عمار ضعیف راوی ہے ‘ مجمع الزوائد رقم الحدیث : ١٨٤٤٦ )
اور جب آگ حاملین قرآن کو برداشت کرنے کی قوت نہیں رکھتی اور ان سے کلام سننے کی استطاعت نہیں رکھتی تو آگ سے بنے ہوئے شیاطین قرآن مجید کو نازل کرنے کی کب طاقت رکھتے ہیں اور اگر وہ اس کلام کو سن بھی لیں تو وہ اس کو سمجھنے سے محروم ہیں اور اس کلام کی فہم ہی اس پر عمل کرنے کا سبب بنتی ہے اور اسی وجہ سے وہ عذاب کا مستحق ہوئے ہیں۔
اس تقریر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ شیاطین فرشتوں کے کلام کو بالکل نہیں سن سکتے اور وہ قرآن مجید کو مطلق نہیں سن سکتے حالانکہ یہ صحیح نہیں ہے ‘ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے وہ آسمانوں پر جا کر فرشتوں کی باتیں سنا کرتے تھے ‘ ہاں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد یہ سلسلہ بند ہوگا۔ اب وہ جب آسمانوں پر فرشتوں کی باتیں سننے کے لئے جاتے ہیں تو فرشتے ان پر آگ کے گولے پھینک کر ان کو وہاں سے بھاگنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ قرآن مجید میں ہے :
ترجمہ (الجن : ٩۔ ٨)… اور ہم نے آسمان کو ٹٹولا تو ہم نے اس کو سخت محافظوں اور سخت آگ کے شعلوں سے بھرا ہوا پایا۔ اور ہم پہلے باتیں سننے کے لئے آسمان میں (جگہ جگہ) بیٹھ جایا کرتے تھے اور اب جو بھی کان لگا کر سنتا ہے وہ اپنے تعاقب اور گھات میں آگ کے شعلے کو پاتا ہے۔
اور یہ کہنا بھی صحیح نہیں ہے کہ جن اور شیاطین قرآن مجید کو نہیں سن سکتے کیونکہ قرآن مجید میں ہے :
ترجمہ (الجن : ١) … آپ کہئے کہ مجھ پر یہ وحی کی گئی ہے کہ جنات کی ایک جماعت نے (یہ قرآن) سنا اور کہا کہ ہم نے عجیب قرآن سنا ہے۔
بعض اکابرین نے کہا ہے کہ شیاطین فرشتوں کا کلام سننے سے محروم ہیں کیونکہ ان کے کانوں ‘ ان کی آنکھوں اور ان کے دلوں پر غفلت کے پردے پڑے ہوئے ہیں۔ وہ قرآن مجید کو سننے سے غافل ہیں اور حقیقت میں سننے والا وہ ہوتا ہے جس کے پاس قلبی ‘ عقلی ‘ غیبی اور روحی سماعت ہو وہ ہر لمحہ کائنات کی تمام حرکات اور آوازوں میں حق سبحانہ کے خطاب کو سنتا ہے جس سے اس کی روح کو سرور اور ذوق و شوق حاصل ہوتا ہے۔ پس جس شخص کو اللہ کے کلام کی فہم حاصل ہوجائے اور وہ شریعت ‘ حقیقت اور اللہ کی امانت کا بار اٹھانے کی صلاحیت حاصل کرلئے اس کو آفرین ہو اور مبارک ہو اور اس کے علاوہ جو لوگ اس مرتبہ سے معزول ہیں ‘ ان پر افسوس اور حسرت ہے ‘ سوائے سننے والو ! اللہ کے کلام کو سمجھو اور اس کی حقیقت کو پانے کی کوشش کرو کیونکہ علم حقیقت میں وہ ہے جو سینوں میں ہے نہ وہ محض ظن اور اندازوں سے حاصل ہوتا ہے۔
القرآن – سورۃ نمبر 26 الشعراء آیت نمبر 210
[…] تفسیر […]
[…] تفسیر […]