اَمَّنۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ وَاَنۡزَلَ لَـكُمۡ مِّنَ السَّمَآءِ مَآءً ۚ فَاَنۡۢبَتۡنَا بِهٖ حَدَآئِقَ ذَاتَ بَهۡجَةٍ ۚ مَا كَانَ لَـكُمۡ اَنۡ تُـنۡۢبِتُوۡا شَجَرَهَا ؕ ءَاِلٰـهٌ مَّعَ اللّٰهِ ؕ بَلۡ هُمۡ قَوۡمٌ يَّعۡدِلُوۡنَ ۞- سورۃ نمبر 27 النمل آیت نمبر 60
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَمَّنۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ وَاَنۡزَلَ لَـكُمۡ مِّنَ السَّمَآءِ مَآءً ۚ فَاَنۡۢبَتۡنَا بِهٖ حَدَآئِقَ ذَاتَ بَهۡجَةٍ ۚ مَا كَانَ لَـكُمۡ اَنۡ تُـنۡۢبِتُوۡا شَجَرَهَا ؕ ءَاِلٰـهٌ مَّعَ اللّٰهِ ؕ بَلۡ هُمۡ قَوۡمٌ يَّعۡدِلُوۡنَ ۞
ترجمہ:
(بھلا بتائو تو سہی) آسمانوں اور زمینوں کو کس نے پیدا کیا اور تمہارے لیے آسمانوں سے پانی کس نے اتارا ! تو ہم نے اس سے بارونق باغات اگائے ! تم میں یہ طاقت نہ تھی کہ تم ان (باغات) کے درخت اگاتے ‘ کیا اللہ کے ساتھ اور کوئی معبود ہے ؟ (نہیں) بلکہ وہ لوگ راہ راست سے تجاوز کر رہے ہیں
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا اپنی توحید پر دلائل بیان فرمانا
اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا : کیا اللہ اچھا ہے یا وہ (بت) جن کو وہ اللہ کا شریک قرار دیتے ہیں ‘ اب اس کے بعد اللہ تعالیٰ دلائل سے بیان فرما رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی اچھا ہے وہی تم کو پیدا کرنے والا ہے ‘ اور پیدا کرنے کے بعد تمہاری زندگی قائم رکھنے کے لیے انواع و اقسام کی نعمتیں عطا کرنے والا بھی وہی ہے ‘ اسی نے تم پر آسمانوں سے اپنی نعمتیں نازل فرمائیں جو تمہاری روزی اور بقائے حیات کا سبب بنیں اور اس نے تمہارے رہنے کے لیے زمین بنائی اور اس میں نعمتیں رکھیں ‘ وہی تمہاری ضروریات کو پوری کرتا ہے اور تمہاری دعائوں کو سنتا ہے ‘ بحروبر میں تمہارے کام آتا ہے ‘ وہی تمہیں مرنے کے بعد زندہ کرے گا ‘ بتائو یہ تمام نعمتیں تم کو کس نے عطا کی ہیں ‘ صرف اس ایک اللہ کا شریک قرار دے رہے ہو جب ان میں سے کوئی چیز بھی نہیں تھی تب بھی اللہ تم پر ان نعمتوں کی بارش کر رہا تھا تو پھر وہی واحد لا شریک ہے ‘ وہی عبادت کا مستحق ہے تو تم اس کو چھوڑ کر اوروں کی پرستش اور پوجا پاٹ کیوں کرتے ہو !
پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید پر آسمانوں سے استدلال کیا پھر زمین سے ‘ پھر دعائوں کو قبول کرنے سے پھر بحروبر میں کام آنے سے اور پھر موت کے بعد زندہ کرنے اور حشر میں اٹھانے سے۔
آسمانوں اور زمینوں کی نعمتیں عطا کرنے سے توحید پر استدلال
اللہ تعالیٰ نے النمل : ٦٠ میں یہ بتایا کہ وہی آسمانوں سے پانی نازل فرماتا ہے اور وہی اس پانی کے ذریعہ زمین میں تمہارا رزق اور روزی پیدا کرتا ہے ‘ وہی لہلہاتے ہوئے سرسبز کھیت اور رنگارنگ پھولوں اور پھلوں سے لدے ہوئے خوبصورت باغات کو پیدا کرتا ہے ‘ پھر یہ بتایا کہ تم یہ گمان نہ کرلینا کہ تم زمین میں ہل چلاتے ہو ‘ اس بیج ڈالتے ہو ‘ زمین میں پانی دیتے ہو تو اس سے غلہ اور پھل اگ آتے ہیں۔ بتائو اگر اللہ زمین ہی کو پیدا نہ کرتا تو تم کہاں ہوتے ! وہ زمین پیدا کردیتا ‘ لیکن تمام زمین سخت اور پتھریلی ہوتے تو تم زمین میں کس طرح ہل چلاتے ‘ اس نے بیج پیدا کیے تو زمین میں تم بیج بوتے ہو اگر وہ بیج ہی نہ پیدا کرتا تو تم کیا کرلیتے ! تم طمین میں پانی دیتے ہو یہ پانی دریائوں سے ‘ نہروں سے ‘ کنوئوں سے اور چشموں سے حاصل کرتے ہو اور ان میں یہ پانی بارش سے حاصل ہوتا ہے اگر وہ آسمانوں سے بارش باشل نہ فرماتا تو دریا سوکھ جاتے ‘ کنوئیں خشک ہوجاتے تو پھر تم زمین کو سیراب کرنے کے لیے پانی کہاں سے لاتے !
قل ارء یتم ان اصبح ماوکم غورا فمن یاتیکم بماء معین۔ (الملک : ٣٠) آپ کہیے ! بھلا یہ بتائو اگر تمہارا پانی زمین میں دھنس جائے تو وہ کون ہے جو تمہارے لیے صاف پانی لاکر کے گا۔ٍ
پھر تمہارا کام اتنا ہی ہے کہ تم ہل چلا کر زمین میں بیج دبا دیتے ہو اور زمین میں پانی ریتے رہتے ہو لیکن بیج کو پھاڑ کر اس میں سے پودا کون نکالتا ہے اور اس نرم انازک پودے میں اتنی طاقت کان پیدا کرتا ہے کہہ زمین کا سینہ چاک کرکے باہر نکلاآتا ہے ‘ سورج کی دھوپ مہیا کر کے غلہ کون پکاتا ہے ‘ چاند کی کرنوں سے اس میں ذائقہ کون پیدا کرتا ہے ‘ پودوں کی تروتازگی کے لیے ہوائیں کون چلاتا ہے ‘ شبنم سے ان کا منہ کون دھلاتا ہے ! کیا اس سب کی طاقت تم میں ہے یا کسی بھی انسان میں ہے ‘ یا ان میں ہے جن کو تم نے اللہ کا شریک بنا رکھا ہے ! جب یہ چیزیں نہ تھیں تب بھی آسمان اور زمین تھے ‘ آسمان سے پانی برستا تھا اور زمین سے روئیدگی ہوتی تھی ‘ اس وقت اللہ تعالیٰ کے سوا اور کون تھا جو اس نظام کو جاری رکھے ہوئے تھا اور جب اس کے سوا اور کوئی نہیں تھا اور یہ سارا نظام سی طرح چل رہا تھا تو تم کیوں نہیں مان لیتے کہ اس کائنات کو بنانے والا اور اس کو چلانے والا وہی واحد لا شریک ہے اور وہی تمہاری اور سب کی عبادات کا مستحق ہے۔
تصویر بنانے کے شرعی حکم کی تحقیق
اس آیت میں فرمایا ہے کہ تم میں یہ طاقت نہ تھی کہ تم یہ درخت پیدا کرتے ‘
علامہ قرطبی اور بعض دیگرعلماء نے اس آیت سے یہ استدلال کیا ہے کہ تصویر بنانا جائز نہیں ہے۔ خواہ اس میں روح ہو کا نہ ہو ‘ یہ مجاہد کا قول ہے (الجامع لا حکام القرآن جز ١٣ ص ٢٠٥)
کیونکہ انسان کو کسی بھی چیز کے پیدا کرنے کی قدرت نہیں ہے ‘ اس لیے کسی چیز کی بھی تصویر بنانا اس کے لیے جائز نہیں ہے ‘ خواہ وہ جاندار ہو یا غیر جاندار ‘ ان کا استدلال حسب ذیل احادیث سے ہے :
جاندار کی تصویر بنانے کی تحریم اور ممانعت کے متعلق احادیث
مسلم بن یسار بیان کرتے ہیں کہ ہم مسروق کے ساتھ یسار بن نمیر کے گھر میں گئے۔ انہوں نے گھر کے ایک چبوترے میں مجسمے رکھے ہوئے دیکھے۔ مسروق نے کہا میں نے حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے یہ حدیث سنی ہے کہ اللہ کے نزدیک قیامت کے دن سب سے زیادہ عذاب تصویر بنانے والوں کو ہوگا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٩٥٠‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢١٠٩‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ٥٣٦٤‘ مصنف ابن ابی شیبہ ج ٨ ص ٢٩٥‘ مسند احمد رقم الحدیث : ٣٥٥٨‘ عالم الکتب ‘ مسند الحمیدی رقم الحدیث : ١١٧)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو لوگ ان تصویروں کو بناتے ہیں قیامت کے دن ان سے کہا جائے گا جن کو تم نے بنایا تھا ان میں جان ڈالو۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٩٥١‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢١٠٨)
ابوزرعہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت ابوہریرہ (رض) کے ساتھ مدینہ کے ایک گھر میں گیا۔ حضرت ابوہریرہ نے اس گھر کے بلند حصہ میں کچھ تصویریں بنی ہوئی دیکھیں تو انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا ‘ جو میری مخلوق کی مثل بناتا ہے ان کو چاہیے کی وہ ایک دانہ کو پیدا کریں ‘ یا جوار کو پیدا کریں۔ الحدیث (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٩٥٣‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢١١١)
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ انہوں نے ایک گدا خریدا جس میں تصاویر بنی ہوئی تھیں ‘ تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دروازے پر کھڑے رہے اور اندر داخل نہیں ہوئے ‘ پس میں نے کہا میں اس گناہ سے اللہ کی طرف توبہ کرتی ہوں جو میں نے کیا ہے۔ صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے میں اللہ اور اس کے رسول کی طرف اس گناہ سے توبہ کرتی ہوں جو میں نے کیا ہے۔ (صحیح مسلم التصاویر : ٩٦‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ٥٣٥٥)
آپ نے فرمایا یہ کیسا گدا ہے ‘ میں نے کہا تاکہ آپ اس پر بیٹھیں اور ٹیک لگائیں ! آپ نے فرمایا ان تصویروں کے بنانے والوں کو قیامت مے دن عذاب دیا جائے گا ‘ اور ان سے کہا جائے گا ان میں جان ڈالو جن کو تم نے بنایا تھا ‘ اور آپ نے فرمایا فرشتے اس کے گھر میں داخل نہیں ہوتے جس گھر میں تصویر ہو۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٩٥٧‘ صحیح مالم رقم الحعیث : ٢١٠٧‘ سنن ابودائود رقم الحدیث : ٤١٥٣‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ٥٣٥٠ )
حضرت ابن عباس (رض) بنان کرتے ہیں کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص نے دنیا میں تصویر بنائی اس کو قیامت کے دن اس کا مکلف کیا جائے گا کہ وہ اس تصویر میں روح پھونکے اور وہ اس میں روح نہیں پھونک سکے گا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٩٦٣‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢١١٠‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ٥٣٥٨)
چونکہ ان احادیث میں مطالقا تصاویر بنانے پر آخرت میں عذاب کی وعید ہے خواہ وہ جاندار کی تصویر ہو یا غیر جاندار کی اس وجہ سے مجاہد نے یہ کہا تصاویر بنانا مطلقا جائز نہیں ہے۔
بے جان چیزوں کی تصویر بنانے کے جواز کی حدیث
جمہور فقہاء کا یہ موقف ہے کہ بےجان چیزوں کی تصویر بنانا جائز ہے اور ان کا استدلال اس حدیث سے ہے :
سعید بن ابی الحسن بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت ابن عباس (رض) کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ان کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے کہا ایک انسان ہوں اور میرے روزی کمانے کا طریقہ صرف یہ ہے کہ میں یہ تصویریں بناتا ہوں ‘ حضرت ابن عباس نے کہا میں تم کو صرف وہ حدیث سنائوں گا جس کو میں نے خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے۔ آپ نے فرمایا جس شخص نے کوئی تصویر بنائی اللہ اس کو اس وقت تک عذاب دیتا رہے گا ‘ حتیٰ کہ وہ اس میں روح پھونک دے اور وہ اس میں کبھی بھی روح نہیں پھونک سے گا۔ اس شخص نے بڑے زور سے سانس لیا اور اس کا چہرہ زرد پڑگیا۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا تجھ پر افسوس ہے اگر تیرے لیے تصویر بنانے کے سوا اور کوئی چارہ کار نہیں ہے تو پھر اس درخت کی تصویر بنا اور ہر اس چیز کی تصویر بنا جس میں روح نہ ہو۔ ( صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٢٢٥‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢١١٠‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ٥٣٥٨‘ السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ٩٧٨٥)
تصویر بنانے کے حکم میں فقہاء شافعیہ اور مالکیہ کا نظریہ
علامہ یحییٰ بن شرف نوادی شافعی متوفی ٦٧٦ ھ فرماتے ہیں :
جاندار اور ذی روح چیزوں کی تصویر بنانے کی احادیث میں تحریم کی تصریح ہے اور یہ حرمت مغلظہ ہے ‘ اور درخت اور بےجان چیزوں کی تصویر بنانا حرام ہے ‘ مجاہد کے سوا جمہور علماء کا یہی مذہب ہے۔
رہا یہ اعتراض کہ بےجان چیزوں کی تصویر بنانے میں بھی تو تخلیق کی مشابہت ہے اس کا جواب یہ ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی صنعت تخلیق کی مشابہت کے قصد سے تصویر بنائے گا یہ وعیدیں اس شخص کے متعلق ہیں اور جو شخص اپنے متعلق یہ اعتقاد رکھے گا وہ کافر ہوجائے گا اور اسی کو سب سے زیادہ عذاب ہوگا اور کفر کی وجہ سے اس کا عذاب اور زیادہ ہوگا۔ اسی طرح عذاب کی یہ سخت وعیدیں اس شخص کے لیے ہیں جو اس لیے تصویر بنائے کہ اس تصویر کی عبادت کی جائے ‘ جیسے کفاربت تراش کر بناتے تھے اور جو شخص تصویر ‘ اللہ کی صنعت تخلیق کے ساتھ مشابہت کے قصد سے بنائے نہ اس لیے تصویر بنائے کہ اس کی عبادت کی جائے تو وہ فاسق ہے اور گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے اور جس طرح باقی کبیرہ گناہوں کی وجہ سے کسی کو کافر نہیں قرار دیا جاتا اسی طرح اس کو بھی کافر نہیں قرار دیا جائے۔ (صحیح مسلم بہ شرح نوادی ج ٩ ص ٥٧٤٦‘ مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ الباذ مکہ مکرمہ ‘ ١٤١٧ ھ)
علامہ نووی شافعی نے قاضی عیاض مالکی متوفی ٥٤٤ ھ کی جو عبارت نقل کی ہے اس کا حوالہ یہ ہے : (اکمال المعلم بفوائد مسلم ج ٦ ص ٦٣٨‘ مطبوعہ دارالوفا بیروت ‘ ١٤١٩ ھ)
تصویر بنانے کے حکم میں فقہاء احناف کا نظریہ
شمس الائمہ محمد بن احمد سر حسی حنفی متوفی ٤٨٣ ح لکھتے ہیں :
اگر گھر میں قبلہ کی جانب ایسی تصاویر (یامجسمے) ہوں جن کے سے کٹے ہوئے ہوں تو نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ تصویر سر کے ساتھ ہوتی ہے اور سر کٹنے سے وہ تصویر نہیں رہتی ‘ کیونکہ روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ایک کپڑا ہدیہ کیا گیا جس میں ایک پرندے کی تصویر تھی ‘ صبح کو صحابہ نے دیکھا اس کا سر مٹادیا تھا ‘ اور روایت ہے کہ حضرت جبریل نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آنے کی اجازت طلب کی ‘ آپ نے اجازت دے دی ‘ حضرت جبریل نے کہا میں کیسے آسکتا ہوں جبکہ گھر میں ایک ایسا پردہ ہے جس پر گھوڑوں اور مردوں کی تصویریں ہیں ‘ آپ یا تو ان تصویروں کے سر کاٹ دیں ‘ یا ان پردوں کے بچھانے والے گدے بنادیں ‘ نیز سر کاٹ دینے کے بعد تصویر درخت کی طرح ہوجاتی ہے ‘ اور یہ مکروہ نہیں ہے ‘ مکروہ ‘ جاندار کی تصویر ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک شخص کو تصویر بنانے سے منع کیا۔ اس نے کہا میرے کمانے کا یہی طریقہ ہے پھر میں کیا کروں ؟ آپ نے فرمایا اگر تصویر بنانے کے سوا تمہارے لیے اور کوئی چارہ کر نہیں ہے تو درختوں کی تصویر بنایا کرو ‘ اور حضرت علی (رض) نے فرمایا جس شخص نے کسی جاندار کی تصویر بنائی اس کو قیامت کے دن اس میں روح پھونکنے کے لیے کہا جائے گا اور وہ اس میں روح نہیں پھونک سکے گا۔
اگر تصویر کا سر کٹا ہوا نہ ہو تو پھر اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا مکروہ ہے ‘ کیونکہ اس میں تصویر کی عبادت کرنے والوں کے ساتھ مشابہت ہے ‘ لیکن یہ اس وقت ہے جب تصویر بڑی ہو اور دیکھنے والوں کو دور سے نظر آتی ہو ‘ اگر تصویر چھوٹی ہو تو پھر کوئی حرج نہیں کیونکہ تصویروں کی عبادت کرنے والے بہت چھوٹی تصویر کی عبادت نہیں کرتے ‘ کیونکہ حضرت ابو موسیٰ کی انگوٹھی پر دو مکھیوں کی تصویریں تھیں اور حضرت دانیال (علیہ السلام) کی انگوٹھی ملی تو اس کے نگینوں پر دوشیروں کی تصویریں تھیں اور ان شیروں کے درمیان ایک آدمی کی تصویر تھی جس کو وہ شیر چاٹ رہے تھے ‘ یا اس کی وجہ یہ تھی کہ ہم سے پہلی شریعت میں تصویر حلال تھی ‘ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : یعملون لہ مایشاء من محاریب و تماثیل (سبا : ١٣) حضرت سلیمان جو کچھ چاہتے تھے وہ (جن) ان کے لیے بنا دیتے تھے۔ اونچے قلعے اور مجسمے ‘ تصویر جس طرح قبلہ کی جانب مکروہ ہے اسی طرح چھت پر یا قبلہ کی دائیں یا بائیں جانب بھی مکروہ ہے ‘ کیونکہ حدیث میں ہے :ـ” جس گھر میں کتا یا تصویر ہو اس میں فرشتے داخل نہیں ہوتے “ اس لیے نماز کی جگہوں کو تصویر سے منزہ کرنا واجب ہے ‘ ہاں اگر نمازی کے پیچھے تصویر ہو تو اس میں کم درجہ کی کراہت ہے ‘ کیونکہ اس موقع پر تصویر کی تعظیم یا تصویر کی عبادت سے مشابہت نہیں ہے ‘ اسی طرح اگر تصویر زمین یا تہبند یا پردوں پر ہو تو اس کا بھی یہی حکم ہے ‘ بستر پر تصویر مکروہ ہے لیکن ایسے بستر پر سونے یا بیٹھنے میں کوئی حرج نہیں ہے ‘ کیونکہ بستر کو روندا جاتا ہے اور اس میں تصویر کی تعظم نہیں ہے ‘ گدے کا بھی یہی حکم ہے کیونکہ حضرت جبریل نے کہا تھا کہ آپ اس کا گدا بنالیں جس کو روندا جائے ‘ اگر نمازی بستر پر نماز پڑھے اور اس کی پیشانی کی جگہ یا اس کے سامنے تصویر ہو تو یہ مکروہ ہے ‘ کیونکہ اس میں تصویر کی تعظیم ہے اور اگر اس کے قدموں کی جگہ تصویر ہو تو کوئی حرج نہیں کیونکہ اب تصویر کی تعظیم نہیں ہے۔ (المبسوط ج ١ ص ٢١١- ٢١٠‘ مطبوعہ دارالمعرفتہ بیروت ‘ ١٣٩٨ ھ)
علامہ بدر الدین محمد بن احمد عینی حنفی متوفی ٨٥٥ ھ لکھتے ہیں :
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” ان تصویروں کے بنانے والے کو قیامت کے دن عذاب دیا جائے گا۔ “ یہ تصویر کے عموم پر دلالت کرتی ہے خواہ وہ تصویر مجسم ہو یا نہ ہو ‘ خواہ وہ تصویر کسی چیز میں کھود کر بنائی جائے یا نقش سے بنائی جائے ‘ جس چیز پر بھی تصویر کا اطلاق ہوگا وہ حرام ہے۔ (عمدۃ القادی جز ٢٢ ص ٧٣‘ مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المنیر یہ مصر ‘ ١٣٤٨ ھ)
تصویر اور فوٹو گراف کے متعلق علماء ازہر کا نظریہ
ڈاکٹر احمد شرباصی لکھتے ہیں :
ہم یہ بات بداہتہً سمجھتے ہیں کہ فوٹو گراف کی تصاویر ‘ تحریم کے حکم میں داخل نہیں ہیں ‘ کیونکہ یہ ہاتھ سے بنائی ہوئی تصاریر نہیں ہیں ‘ اور نہ ان کا کوئی جسم ہوتا ہے ‘ ان تصاویر میں صرف عکس اور ظل کو ایک کاغذ پر مقید کردیا جاتا ہے اور چھوٹی لڑکیوں کے لیے گڑیوں کو حرام نہیں کیا گیا اور صورتوں کے وہ مجسمے حرام نہیں ہیں جن کی علم طب یا تعلیم میں ضرورت ہوتی ہے اور وہ تصاویر جن کو تعظیم یا تکریم کے لیے نہ بنایا جائے حرام نہیں ہیں ‘ کیونکہ تصاویر کی تحریم کی بنیاد بت سازی اور بت پرستی کا راستہ بند کرنا ہئ۔ (یسٔلونک فی الدین والحیاۃ ج ١ ص ٦٣٢‘ مطبوعہ دارالجیل بیروت)
نیز علماء ازہر نے اپنے فتاویٰ میں لکھا ہے :
ہمارا مختار یہ ہے کہ جس تصویر کا کوئی جسم نہ ہو اس کے بنانے میں کوئی حرج نہیں ہے ‘ اسی طرح جو تصویر کپڑے ‘ دیوار یا کاغذ پا بنائی جائے اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے اور بےجان چیزوں کی تصویر بنانے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے ‘ اسی طرح آج کل کیمرے سے کھینچی جانے والی مروجہ تصاویر بھی جائز ہیں خواہ وہ تصویریں جاندار کی ہوں یا بےجان کی ‘ جبکہ وہ تصویریں کسی علمی مقصد پر مبنی ہوں جس سے عام معاشرہ کو فائدہ ہو اور ان تصاویر کی تعظیم ‘ تکریم اور عبادت کا شبہ نہ ہو تو بھر وہ تصویریں بےجان چیزوں کی تصویروں کے حکم میں ہیں اور وہ شرعاً جائز ہیں۔ (الفتاویٰ الاسلامیہ من دارالافتاء المصر یہ ‘ مطبوعہ قاہرہ مصر ‘ ١٤٠٢ ھ)
تصویر اور فوٹو گراف کے متعلق مصنف کا موقف
میرے نزدیک علماء ازہر کا یہ نظریہ صحیح نہیں ہے کہ کیمرے کی بنائی ہوئی تمام تصاویر اس لیے جائز ہیں کہ وہ ہاتھ سے نہیں بنائی جاتیں اور یہ کہ کیمرے کے ذریعہ صرف عکس کو مقید کرلیا جاتا ہے ‘ دیکھیے پہلے شراب ہاتھ سے بنائی جاتی تھی اب مشینی عمل کے ذریعہ شراب بنائی جاتی ہے تو کیا اس فرق سے اب شراب جائز ہوجائے گی ‘ پہلے ہاتھوں کی تراش خراش سے مجسمے بنائے جاتے تھے اب مشینوں کے ذریعہ پلاسٹک اور دوسری اجناس کے مجسمے ڈھال لیے جاتے ہیں تو کیا اب وہ جائز ہوجائیں گے ؟
فوٹو کے متعلق اسلام کا منشاء یہ ہے کہ کسی بھی جاندار کی صورت اور شبیہ کو مستقل طور پر محفوظ کرلینا جائز نہیں ہے ‘ کیونکہ ہمیشہ جانداروں کی تصویریں شرک اور فتنہ کی موجب بنتی رہی ہیں ‘ اب بھی ہندوستان اور بعض دوسرے ممالک میں تصویروں اور بتوں کی پوجا ہوتی ہے ‘ ہندوستان میں گاندھی کی تصویر کی تعظیم اور تکریم ہوتی ہے ‘ روس میں سٹالن کی تصویر کی تعظیم کی جاتی ہے ‘ پاکستان کے تمام دفاتر ‘ اسمبلیوں اور سفارت خانوں میں بڑے سائز کی قائداعظم کی تصویر تعظیماً اونچی جگہ پر آویزاں کی جاتی ہے ‘ اس لیے اصل فتنہ صورت کے محفوظ کرنے میں ہے ‘ خواہ صورت کو سنگ تراشی سے محفوظ کیا جائے ‘ قلم کاری سے یا فوٹو گرافی سے ‘ جس طریقہ سے بھی تصویر کو حاصل اور محفوظ کرلیا جائے گا اس سے حاصل شدہ تصویر ناجائز اور حرام ہوگی ‘ اور بت فراشی ‘ مصوری اور فوٹو گرافری میں جواز اور عدم جواز کا فرق کرنا صیحح نہیں ہے۔
تصویر کی حرمت کا اصل منشاء غیر اللہ کی تعظیم اور عبادت ہے ‘ اگر لوگ فوٹو گراف کی تعظیم اور عبادت شروع کردیں تو کیا وہ تعظم اور عبادت ناجائز نہیں ہوگی ؟ جبکہ ہمارا مشاہدہ ہے کہ بڑے بڑے قومی لیڈروں اور پیروں کے فوٹوئوں کی ہر ملک میں بالفعل کی جاتی ہے اور غیر اللہ کی عبادت کا منشاء صورت اور شبیہ ہے ‘ خواہ ہو سنگ تراشی سے حاصل ہو ‘ قلم کاری سے یا فوٹو گرافی سے ‘ اس لیے جس طرح پتھر کا مجسمہ بنانا اور قلم اور برش سے تصویر بنانا حرام ہے اسی طرح کیمرے سے فوٹو بنانا بھی حرام (یعنی مکروہ تحریمی) ہے۔
ویڈیو اور ٹی وی کی تصاویر کا شرعی حکم
بعض علماء اہل سنت نے یہ کہا کہ آئینے اور ٹی وی کے ناپائیدار عکوس کو حقیقی معنوں میں تصویر ‘ تمثال ‘ مجسمہ ‘ اسٹیچو وغیرہ کہنا صیحح نہیں ہے ‘ اس لیے کہ پائیدار ہونے سے پہلے عکس صرف عکس ہی رہتا ہے ‘ تصویر نہیں بنتا اور جب اسے کسی طرح سے پائیدار کرلیا جائے تو وہی عکس تصویر بن جاتا ہے ‘ موجودہ معروف اور متعارف آئینہ بالکلیہ انسانی صنعت گری ہے لہٰذا اس میں بھی عکوس کے ظہور میں قطعی طور پر جعل انسانی کا دخل ہے اس لیے اگرچہ ٹی وی کے آئینہ پر عکوس کے ظہور میں جعل انسانی دخیل ہے تب اس کا حکم آئینہ کے حکم کی طرح ہی ہونا چاہیے کیونکہ غیر قارونا پائیدار ہونے میں دونوں بالکل ایک طرح ہیں۔
اس تحقیق کے بعد یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ویڈیو اور ٹی وی کے استعمال کرنے کا معاملہ آئینوں کے استعمال کرنے کی طرح ہے ‘ جس طرح آئینہ کے اندر ہر اس چیز کو دیکھا جاسکتا ہے جس کا دیکھنا سننا اس کے بغیر بھی جائز ہو۔ رہ گئے وہ امور جن کا دیکھنا سننا ناجائز و حرام ہو وڈیو اور ٹی ۔ وی کے ذریعہ بھی ان کا سننا اور دیکھنا ناجائزو حرام ہے ‘ غیر محرم مرد و زن کا عام میل جول شرعاً حرام ہے اور فلموں میں بھی دکھایا جاتا ہے اس لیے یہ فلمیں سینما میں دیکھی جائیں یاوی سی آر کے ذریعہ ٹی وی پر بہر حال حرام ہیں۔ (یہ کلام ختم ہوا)
ہمارے نزدیک ٹی وی کی اسکرین کا آئینہ پر قیاس کرنا درست نہیں ہے ‘ اول اس لیے کہ اگر مثلاً چار شخص آئینے کے سامنے مختلف جہالت میں کھڑے ہوں کوئی دائیں جانب ہو کوئی بائیں جانب ہو ‘ کوئی بالکل سیدھا کھڑا ہو ‘ کوئی کسی اور زاویہ سے ترچھا کھڑا ہو ‘ تو سب کو بیک وقت آئینہ میں مختلف عکوس نظر آئیں گے اس کے برخلاف اگر ٹی وی کی اسکرین کو بیک وقت چار یا چار سے زائد اشخاص مختلف جہات سے دیکھ رہے ہوں تو ان کو ایک ہی منظر دکھائی دے گا اور یہ وہی منظر ہوگا جو ویڈیو ٹیپ پر ریکارڈ شدہ ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر وی سی آر کے مخصوص بٹن کے ذریعہ کسی تصویر کو ساکن کردیا جائے اور ٹھہرا لیا جائے تو اس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنا بہر حال ویڈیو کے مجوزین کے نزدیک بھی ناجائز ہے۔ جبکہ آئینہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنا ناجائز یا مکروہ نہیں ہے اس لیے ہمارے نزدیک ٹی وی کی اسکرین آئینہ کی مثل نہیں ہے اور اس کو آئینہ پر قیاس کر کے جائز قرار دینا صحیح نہیں ہے۔
ٹی ۔ وی کی تصاویر ہرچند کہ عام فوٹو گراف یا قلمی تصاویر کی طرح تو نہیں ہیں تاہم یہ تصویر کی جدید شکل ہیں۔ ٹی وی کی تصویر کو متحرک بھی دکھایا جاتا ہے اور غیر متحرک بھی ‘ تصویر خواہ مجسمہ کی شکل میں ہو یا قلمی ہو یا فوٹو گراف ہو یا ویڈیو کی ریز کے ذریعہ دکھائی دے ان سب میں ایک چیز مشترک ہے وہ ہے جاندار کی صورت کا دکھائی دینا۔ غیر ترقی یافتہ زمانہ میں جاندار کی صورت کو پتھروں سے تراش کر مجسمہ کی شکل میں یا کپڑے یا کاغذ پر نقش کر کے وجود میں لایا جاتا تھا ‘ پھر ترقی یافتہ زمانہ میں کیمرے کے ذریعہ فوٹو گراف کی شکل میں وجود میں لایا گیا اب اور زیادہ ترقی ہوئی تو اس کو ریز کی شکل میں متحرک اور غیر متحرک ہر دو طرح سے وجود میں لایا گیا ‘ بہرحال ہر صورت میں ویڈیو کی وہ تصاویر جن میں ریز کے ذریعہ جاندار کی صورتوں کو وجود میں لایا جائے خواہ وہ متحرک ہوں یا غیر متحرک ہوں وہ اسی طرح ناجائز اور حرام ہیں جیسے پتھر ‘ کاغذ یا کپڑے پر نقش شدہ تصاویر ناجائز اور حرام ہیں ‘ جیسے موسیقی صرف اس لیے حرام نہیں ہے کہ وہ طبلہ ‘ سارنگی اور بانسری کے ذریعہ بجا کر آواز بنائی جاتی ہے اگر یہ آواز ٹیپ ریکارڈر کے ذریعہ سنائی دے ‘ فلم یا ویڈیو ٹیپ کے فیتے کے ذریعہ سنائی دے وہ بہر حال موسیقی کی آواز ہے جو سنائی دے رہی ہے ‘ اسی طرح جاندار کی صورت خواہ کسی ذریعہ سے دکھائی دے وہ بہر حال صورت گری ہے اور ناجائز اور حرام ہے ‘ میں نے اس مسئلہ کو اسی طرح سمجھا ہے اگر یہ درست ہے تو اللہ کی طرف سے ہے اور اگر یہ غلط ہے تو میری فکر کی نارسائی ہے۔
جو علماء دلائل کی بناء پر فوٹو اور ٹی وی کی تصاویر کے جواز کے قائل ہیں ان پر لعن طعن نہیں کرنی چاہیے
فوٹو گراف میں علماء اہلسنت یہ کہتے ہیں کہ گدے پر چھپی ہوئی تصویر کی اجازت ہے اور جب کپڑے پر تصویر کا نقش جائز ہے تو کاغذ پر بھی جائز ہے اور مصری علماء بھی اس کو جائز کہتے ہیں۔ ہمارے نزدیک یہ استدلال صحیح نہیں ہے اسی طرح آئینہ پر قیاس کرکے بعض علماء ٹی وی کی تصاویرکو بھی جائز کہتے ہیں ہمارے نزدیک یہ استدلال صحیح نہیں ہے لیکن جس مسئلہ میں ہمارے علماء کا اختلاف ہو تو اس میں تشدید نہیں کرنی چاہیے جیسے قوالی ‘ سیاہ خضاب ‘ چلتی ٹرین پر نماز پڑھنے اور لائوڈ اسپیکر پر نماز پڑھانے کا معاملہ ہے کیونکہ دلائل میں تعارض تخفیف کا موجب ہوتا ہے مثلاً بعض احادیث میں رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پیشاب سے بچو کیونکہ اسی وجہ سے زیادہ تر عذاب قبر ہوتا ہے۔ (سنن دارقطنی ج ١ ص ١٢٨‘ المستدرک ج ١ ص ١٨٣) اس حدیث کا تقاضا ہے کہ پیشاب مطلقاً نجاست غلیظہ ہو ‘ اور بعض احادیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبیلہ عرینہ کے لوگوں کو اونٹنیوں کا پیشاب بطور علاج پلایا (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٣٣‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٦٧١) اس حدیث کا تقاضا ہے کہ جن جانوروں کا گوشت کھایا جاتا ہے ان کا پیشاب نجس نہ ہو ‘ اور یہی امام احمد کا مسلک ہے ‘ سو دلائل میں اس تعارض کی وجہ سے جن جانوروں کا گوشت حلال ہے ان کے پیشاب کو نجاست خفیفہ قرار دیا گیا۔ (فتح القدیر ج ١ ص ٢٠٦‘ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٥ ھ) اسی طرح بلی کے جھوٹے کا حکم ہے ‘ بعض احادیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بلی درندہ ہے۔ (مسند احمد ج ٢ ص ٣٢٧‘ المستدرک ج ١ ص ١٨٣‘ سنن دارقطنی ج ١ ص ٦٣) اس حدیث کا تقاضا ہے کہ بلی کا جھوٹا حرام اور بعض احادیث میں ہے کہ جس برتن سے بلی نے پانی پیا تھا اس برتن کے پانی سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت عائشہ نے وضو کیا (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٦٨‘ سنن دارقطنی ج ١ ص ٦٩) اس حدیث کا تقاضا ہے کہ بلی کا جھوٹا پاک ہو اور دلائل میں اس تعارض کی بنا پر بلی کے جھوٹے کو مکروہ قرار دیا گیا ہے۔ (فتح القدیر ج ١ ص ١١٥)
اسی بناء پر ہم کہتے ہیں کہ ہرچند کہ فوٹو گراف اور ویڈیو کی تصاویر ہمارے نزدیک جائز نہیں ہیں لیکن چونکہ اس میں دلائل متعارض ہیں اور علماء کا اختلاف ہے اس لیے اس میں بہت زیادہ سختی اور تشدید نہیں کرنی چاہیے اور جو علماء اس میں مبتلا ہیں ان پر لعن طعن نہیں کرنی چاہیے اور ان کو ہدف ملامت نہیں بنانا چاہیے کیونکہ دلیل خواہ کمزور ہو وہ تخفیف کا تقاضا کرتی ہے۔ دیکھیے محرمات سے نکاح کرنا حرام ہے لیکن امام اعظم ابوحنیفہ نے فرمایا جو شخص اپنی ماں یا بہن سے نکاح کرکے وطی کرلے اس پر حد نہیں ہوگی تعزیر ہوگی۔ اس کو تعزیر اً قتل کردیا جائے گا لیکن اگر وہ شادی شدہ ہے تو اس کو رجم نہیں کیا جائے گا کیونکہ حدود شبہات سے ساقط ہوجاتی ہیں اور یہاں پر یہ شبہ ہے کہ ہم سے پہلی شریعت میں بھائی بہن کے درمیان نکاح جائز تھا ‘ ہرچند کہ یہ شبہ ضعیف ہے لیکن اس کا اعتبار کر کے حد سا قط کردی گئی۔ (ہدایہ اولین ص ٥١٦‘ فتح القدیر والعنایہ ج ٥ ص ٢٤٦) اسی وجہ سے ہم کہتے ہیں کہ اگرچہ فوٹو گراف اور ویڈیو کی تصویر کے جواز کے دلائل ضعیف ہیں لیکن وہ تخفیف کا تقاضا کرتے ہیں اور جو لوگ اپنے دلائل کی وجہ سے اس میں مبتلا ہیں ان پر لعن طعن نہیں کرنی چاہیے اور عام لوگوں کو اس سے بہر حال منع کرنا چاہیے۔
ضرورت کی بناء پر پاسپورٹ سائز کے فوٹو گراف کی رخصت
تاہم بعض تمدنی ‘ عمرانی اور معاشی امور کے لیے فوٹو ناگزیر ہے ‘ مثلاً شناختی کارڈ ‘ پاسپورٹ ‘ ویزا ‘ ڈومی سائل ‘ امتحانی فارم ‘ ڈرائیونگ لائسنس اور اس نوع کے دوسرے امور میں فوٹو کی لازمی ضرورت ہوتی ہے اور اللہ اور اس کے رسول نے دین میں تنگی نہیں رکھی ‘ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
ماجعل علیکم فی الدین من حرج (الحج : ٧٨) اللہ تعالیٰ نے تم پر دین میں تنگی نہیں کی۔
یرید اللہ بکم الیسر ولا یرید بکم العسر (البقرہ : ١٨٥) اللہ تعالیٰ ساتھ آسانی کا ارادہ کرتا ہے اور مشکل کا ارادہ نہیں کرتا۔
اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے :
احب الدین الی اللہ الحنیفیۃ المسحۃ (صحیح البخاری باب : ٢٩) اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ دین وہ ہے جو حق ہو اور آسان اور سہل ہو۔
عن ابی ہریرہ عن النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قال ان الدین یسر (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٩) حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دین آسان ہے۔
عن انس بن مالک یقول قال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یسروا ولاتعسروا (صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٧٣٢‘ سنن ابودائود رقم الحدیث : ٤٨٣٥) حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : لوگوں پر آسانی کرو اور ان کو مشکل میں نہ ڈالو۔
اسلام میں جاندار چیزوں کی تصاویر بنانے کی ممانعت ہے اور بےجان چیزوں کی تصویر بنانے کی اجازت ہے۔ اس لیے انسان کی صرف سینے تک کی تصویر بنانا جائز ہے کیونکہ کوئی انسان بغیر پیٹ کے زندہ نہیں وہ سکتا ‘ اور جن تمدنی اور معاشی امور میں تصویر کی ضرورت پڑتی ہے (مثلاً شناختی کارڈ اور پاسپورٹ وغیرہ) ان میں اس قسم کی آدھی تصویر ہی کی ضرورت ہوتی ہے ‘ اس لیے قسم کی ضروریات میں بغیر پیٹ کے سینہ تک کی آدھی تصویر کھنچوانا جائز ہے ‘ البتہ بلا ضرورت شوقیہ فوٹو گرافی مکروہ ہے ‘ اور تعظیم و تکریم لے لیے فوٹو کھینچنا جائز اور حرام ہے۔
ہم نئے جو آدھی تصویر کو جائز کہا ہے اس کی اصل حدیث یہ ہے :
امام نسائی روایت کرتے ہیں :
عن ابی ہریرہ قال استاذن جبریل (علیہ السلام) علی النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فقال ادخل فقال کیف ادخل وفی بیتک سترفیہ تصاویر فاما ان تقطع رء و سھا اوتجعل بساطا یوطا فانا معشرالملائکتہ لا تدخل بیتا فیہ تصاویر (سنن نسائی ج ٢ ص ٢٦١‘ طبع کراچی) حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں : کہ جبریل (علیہ السلام) نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت طلب کی آپ نے فرمایا آجائو ! انہوں نے کہا میں کیسے آئوں درآں حالیکہ آپ کے گھر میں ایک پردہ ہے جس میں تصویریں ہیں ‘ پس یا تو آپ ان تصویروں کے سر کاٹ دیں یا اس پردہ کو پیروں تلے روندی جانے والی چادر بنادیں کیونکہ ہم گروہ ملائکہ اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں تصاویر ہوں۔
علامہ ابن حجر عسقلانی شافعی لکھتے ہیں :
فاما لو کانت ممتھنۃ او غیر ممتھنۃ لکھنا غیرت من ھینتھا اما قطعھا من نصفھا او بقطع راسھا فلا امتناع (فتح الباری ج ١٠ ص ٣٩٢‘ لاہور ‘ ١٤٠١ ھ) اور اگر تصویر کو ذلت کے ساتھ رکھا جائے یا بغیر ذلت کے رکھا جائے لیکن اس کی ہیئت کو متغیر کردیا جائے یا تو وہ تصویر آدھی کاٹ دی جائے یا اس کا سر کاٹ دیا جائے تو پھر کوئی امتناع نہیں ہے۔
نیز علامہ ابن حجر عسقلانی شافعی لکھتے ہیں :
علامہ ابن عربی (مالکی) نے کہا ہے کہ تصویر بنانے کے حکم میں خلاصہ یہ ہے کہ جسم والی تصویر بنانا تو بالا جماع حرام ہے ‘ اور اگر تصویر مر تسم یا مر قوم ہو ( یا مطبوع ہو) تو اس میں چار قول ہیں ایک قول یہ ہے کہ وہ مطلقاً جائز ہے جیسا کہ امام بخاری نے حضرت ابو طلحہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو تصویر کپڑے پا بنی ہوئی ہو اس کا حکم مستثنیٰ ہے (صحیح بخاری ج ٢ ص ٨٨١) دوسرا قول یہ ہے کہ تصویر بنانا مطلقاً ممنوع ہے حتیٰ کہ قلم سے بنائی ہوئی تصویر بھی ممنوع ہے ‘ تیسرا قول یہ ہے کہ اگر تصویر میں مکمل ہیئت اور شکل ہو تو حرام ہے اور اگر اس کا سر کاٹ دیا جائے یا اس کے اجزاء متفرق ہوں تو پھر جائز ہے ‘ علامہ ابن عربی نے کہا یہ قول زیادہ صحیح ہے ‘ چوتھا یہ ہے کہ اگر تصویر کو نیچے بچھایا جائے اور ذلت کے ساتھ رکھا جائے تو پھر جائز ہے اور اگر تصویر کو لٹکایا جائے تو پھر نرجائز ہے۔ (فتح الباری ج ١٠ ص ٣٩١‘ لاہور ‘ ١٤٠١ ھ)
مصر کے بعض علماء لکھتے ہیں :
ہمارے علماء نے یہ تصریح کی ہے کہ جاندار کا فوٹو گراف اگر بڑا ہو اور اس میں اس کے تمام اعضاء مکمل ہوں تو اس کا بنانا مکروہ تحریمی ہے ‘ اور اگر فوٹو گراف چھوٹا ہو جس میں غور سے دیکھے بغیر اعضاء کی تفصیل معلوم نہ ہو سکے ‘ یا فوٹو تو بڑا ہو لیکن اس میں وہ اعضا نہ ہوں جن کے بغیر
حیات ناگزیر ہے تو اس فوٹو گراف کا بنانا مکروہ نہیں ہے۔ (الفتاویٰ الاسلامیہ ج ٤ ص ١٢٨٠‘ مصر ‘ ١٤٠١ ھ)
علامہ نور اللہ بصیرپوری (فقیہ العصر) لکھتے ہیں :
حج کے لیے عازم حج کے پورے جسم کا فوٹو ضروری نہیں بلکہ چہرے یا قعرے زائد کا فوٹو حکومت نے مصالح انتظامیہ کے لیے ضروری قرار دیا ہے ‘ چناچہ عموماً پاسپورٹوں پر ایسے ہی فوٹو چسپاں کیے جاتے ہیں جو نصف سینہ تک کے ہوتے ہیں حالانکہ انسان نصف سینہ یا سینہ کے نیچے سے کاٹ دیا جائے تو زندہ نہیں رہ سکتا ‘ لہٰذا یہ فوٹو ایسے جسم کا فوٹو ہوگا جو شجر و حجر کی طرح بےجان ہے۔ (الی قولہ) بہر حال ان ارشادات کی روشنی میں حج فرض وغیرہ کے لیے ‘ ایسے فوٹو کی اجازت ہے جو جسم کے ایسے حصہ کا ہو جو صرف اتنا ہی زندہ نہ رہ سکتا ہو ‘ (الی قولہ) ہاں یہ بھی ضروری ہے کہ بلا ضرورت فوٹو یہ کھنچوائے جائیں۔ (الفتاویٰ النوریہ ج ٢ ص ١٧١- ١٦٩‘ لاہور ‘ ١٤٠٨ ھ)
احادیث صحیحہ اور عبارات فقہاء کی روشنی میں یہ امر واضح ہوگیا کہ تمدنی ‘ معاشی ‘ عمرانی اور شرعی ضروریات کے لیے آدھی تصویر کھنچوانا جائز ہے اور بلا ضرورت محض شوقیہ فوٹو گرافی ایک مکروہ عمل ہے اور کسی کی تعظیم اور تکریم کے لیے فوٹو کھینچناناجائز اور حرام ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 27 النمل آیت نمبر 60