أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَمَّنۡ يَّهۡدِيۡكُمۡ فِىۡ ظُلُمٰتِ الۡبَرِّ وَ الۡبَحۡرِ وَمَنۡ يُّرۡسِلُ الرِّيٰحَ بُشۡرًۢا بَيۡنَ يَدَىۡ رَحۡمَتِهٖؕ ءَاِلٰـهٌ مَّعَ اللّٰهِ‌ؕ تَعٰلَى اللّٰهُ عَمَّا يُشۡرِكُوۡنَؕ‏ ۞

ترجمہ:

(بتائو) وہ کون ہے جو تم کو خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں راستہ دکھاتا ہے اور وہ کون ہے جو اپنی رحمت سے پہلے ہی خوشخبری دینے والی ہوائیں بھیجتا ہے ! کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے اللہ ان سے بہت بلند ہے جن کو وہ اللہ کا شریک قرار دیتے ہیں

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (بتائو ! ) وہ کون ہے جو تم کو خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں راستہ دکھاتا ہے اور وہ کون ہے جو اپنی رحمت سے ‘ پہلے ہی خوشخبری دینے والی ہوائیں بھیجتا ہے ! کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے ! اللہ ان سے بہت بلند ہے جن کو وہ اللہ کا شریک قرار دیتے ہیں۔ (بتائو ! ) وہ کون ہے جو ابتداء ‘ مخلوق کو پیدا کرتا ہے ‘ پھر اس کو دوبارہ پیدا کرے گا ‘ اور وہ کون ہے جو تم کو آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے ! کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے ! آپ کہیے اگر تم سچے ہو تو تم اپنی دلیل لائو۔ (النمل : ٦٤- ٦٣ )

حشر و نشر کا ثبوت اور شرک کا ابطال 

خشکی اور سمندروں کے اندھیروں سے مراد یہ ہے کہ جب انسان رات کے اندھیروں میں خشکی یا سمندروں کا سفر کرے تو اس وقت اس کو ستاروں سے رہنمائی حاصل ہوتی ہے ‘ اور بارش ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ ایسی ہوائیں بھیج دیتا ہے جن سے بارش کا پتا چل جاتا ہے ‘ ہرچند کہ اب ایسے آلات اور اسباب ایجاد ہوچکے ہیں جن سے ان ہوائوں کے بغیر بھی علم ہوجاتا ہے کہ بارش کب متوقع ہے اور کب متوقع نہیں ہے لیکن یہ اسباب اور آلات بھی تو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیے ہیں ‘ اور ان آلات اور اسباب سے کام لینے کی عقل بھی تو اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہے ‘ اور یہ مشرکین پتھر کے جن بےجان بتوں کو اللہ تعالیٰ کا شریک قرار دیتے ہیں کیا ان بتوں میں یہ طاقت ہے کہ وہ ان ہوائوں کو بھیج سکیں یا ایسے اسباب اور آلات پیدا کرسکیں۔ 

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 27 النمل آیت نمبر 63