أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

مَنۡ جَآءَ بِالۡحَسَنَةِ فَلَهٗ خَيۡرٌ مِّنۡهَا‌ۚ وَهُمۡ مِّنۡ فَزَعٍ يَّوۡمَئِذٍ اٰمِنُوۡنَ ۞

ترجمہ:

جو شخص نیکی لے کر آئے گا تو اس کے لیے اس (نیکی) سے اچھی جزا ہے ‘ اور وہ لوگ اس دن کی گھبراہٹ سے مامون ہوں گے

لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا سب سے بڑی نیکی ہونا۔

اس کے بعد فرمایا : اور جو شخص نیکی لے کر آئے گا تو اس کے لیے اس (نیکی) سے اچھی جزا ہے۔ (النمل : ٩٨)

حضرت ابن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ اس نیکی سے مراد لا الٰہ الا اللہ ہے۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث : ٣٤٦٦ ا) حضرت ابوذررضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ کیا لا الٰہ الا اللہ نیکیوں میں سے ہے ‘ آپ نے فرمایا یہ سب سے اچھی نیکیوں میں سے ہے۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث : ٣٤٦٦ ا)

حضرت ابوذررضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم جہان کہیں بھی ہو اللہ سے ڈرتے رہو اور برے کام کے بعد نیک کام کرو وہ اس برے کام کو مٹا دے گا ‘ اور لوگوں کے ساتھ اچھے سلوک کرو۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٧٨٩١‘ مسند احمد ج ٥ ص ٣٥١‘ سنن الدارمی رقم الحدیث : ٤٩٧٢‘ المستدرک ج ١ ص ٤٥‘ حلۃ الاولیئاء ج ٤ ص ٨٧)

قتادہ نے کہا اس سے مراد ہے جس نے اخلاص کے ساتھ کلمہ توحید پڑھا ‘ ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد تمام فرائض کو پورا کرنا ہے۔

صنابحی بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبادہ بن الصامت (رض) کے پاس گیا وہ مرض الموت میں تھے ‘ میں رونے لگا ‘ انہوں نے کہا چپ کرو ‘ تم کیوں ر وتے ہو ؟ اللہ کی قسم اگر مجھ سے شہادت طلب کی گئی تو میں تمہارے حق میں شہادت دوں گا ‘ اور اگر مجھے شفاعت دی گئی تو میں تمہارے حق میں شفاعت کروں گا ‘ اور اگر میں تم کو نفع پہنچا سکا تو میں تم کو ضرور نفع پہنچاؤں گا ‘ پھر انہوں نے کہا اللہ کی قسم ! میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جو بھی ایسی حدیث سنی جس میں تمہارا نفع تھا وہ میں نے تم سے بیان کردی ماسوا ایک حدیث کے ‘ اور میں عنقریب تم سے آج وہ حدیث بیان کر دوں گا ‘ کیونکہ اب میری جان لبوں پر ہے ‘ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جس نے لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت دی اللہ اس پر دوزخ کو حرام کر دے گا۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٩٢‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٨٣٦٢‘ مسند احمد ج ٥ ص ٨١٣‘ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٢٠٢)

امام ترمذی فرماتے ہیں بعض اہل علم کے نزدیک اس حدیث کی یہ توجیہ ہے کہ اہل توحید عنقریب جنت میں داخل ہوں گے خوہ ان کو ان کے گناہوں کی وجہ سے عذاب دیا جائے وہ دو ذخ میں ہمیشہ نہیں رہیں گے۔

حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قیامت کے دن اللہ میری امت کے ایک شخص کو منتخب کرکے الگ کھڑا کر دے گا ‘ پھر اس کے سامنے اس کے گناہوں کے ننانوے رجسٹر کھولے جائیں گے ‘ ہر رجسٹر حد نگاہ تک بڑا ہوگا ‘ پھر اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا کیا تجھ کو ان میں سے کسی چیز کا انکار ہے ؟ کیا میرے لکھنے والے محافظ فرشتوں نے تجھ پر کوئی ظلم کیا ہے ؟ وہ کہے گا نہیں یا رب ! اللہ تعالیٰ فرمائے گا تیرا کوئی عذر ہے ؟ وہ کہے گا نہیں یا رب ! اللہ تعالیٰ فرمائے گا اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمد اعبدہ و رسولہ ‘ اللہ تعالیٰ فرمائے گا اب تم میزان پر حاضر ہو ‘ وہ کہے گا اے میرے رب ! ان رجسٹروں کے سامنے کاغذ کے اس ٹکڑے کی کیا حیثت ہے ؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا تجھ پر ظلم نہیں کیا جائے گا ‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : پھر میزان کے ایک پلڑے میں اس کے گناہوں کے (ننانوے) رجسٹر رکھے جائیں گے اور دوسرے پلڑے میں وہ کاغذ کا ٹکڑا رکھا جائے گا پھر گناہوں کے رجسٹروں والا پلڑا ہلکا ہوجائے گا اور کاغذ کے پرزے والا پلڑا بھاری ہوجائے گا ‘ سو اللہ کے نام کے مقابلہ میں کوئی چیز وزنی نہیں ہوسکتی۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٩٣٦٢‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٠٠٣٤‘ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٥٢٢‘ مسنداحمد ج ٢ ص ١٢٢۔ ٣١٢‘ المعجن الاوسط رقم الحدیث : ٢٢٧٤‘ المستدرک ج ١ ص ٦‘ شرح السنۃ رقم الحدیث : ١٢٣٤“ صحیح الترمذی للالبانی رقم الحدیث : ٧٢١٢‘ السلسلۃ الصححیۃ للالبانی رقم الحدیث : ٥٣١) 

نیکی کا اجر نیک کام سے کیوں افضل ہے۔

فرمایا تو اس کے لیے اس (نیکی) سے اچھی جزا ہے۔ یعنی بندہ کے عمل سے اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا اجر وثواب بہتر ہے ‘ ایک قول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا راضی ہونا بندہ کے فعل سے بہتر ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ بندہ ایک نیک عمل کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کا دس گنا زیادہ اجر دیتا ہے ‘ اور کبھی سات گنا اجر عطا فرماتا ہے ‘ اور کبھی اس کو بھی دگنا کردیتا ہے ‘ اور کبھی بےحساب اجر عطا فرماتا ہے ‘ بندہ ایک ساعت میں ایمان لاتا ہے ‘ اور اللہ تعالیٰ اس کو دائمی اور ابدی اجر عطا فرماتا ہے۔

اس آیت پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ بندہ کی سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ اس کو اللہ کی معرفت ہو ‘ اور آخرت میں جو اس کا اجر ملے گا وہ جنت میں کھانے پینے کی چیزیں ہوں گی ‘ تو اللہ کی معرفت سے کھانے پینے کی چیزیں کیسے بہتر ہوسکتی ہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ دنیا میں بندہ نے جو اللہ کی معرفت حاصل کی اس کے صلہ میں اسے جنت میں اللہ تعالیٰ کی ذات کا دیدار حاصل ہوگا اور بلاشبہ یہ سب سے بڑی نعمت ہے ‘ نیز بندہ نے جو نیک کام کیے وہ بندہ کا فعل ہے اور اس کا آخرت میں جو اجر ملے گا وہ اللہ کا فعل ہے اور اللہ کا فعل بندہ کے فعل سے بڑھ کر ہے ‘ اور بندہ نے جو نیک عمل کیا وہ فانی ہے او اس کے عوض میں اس کو جنت ملے گی جو غیر فانی ہے ‘ نیز جنت کے متعلق حدیث میں ہے :

حضرت سہل بن سعد ساعدی (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ کی راہ میں صبح کرنا دنیا ومافیہا سے بہتر ہے اور جنت میں ایک چابک جتنی جگہ دینا ومافیہا سے بہتر ہے۔(سنن الترمذی رقم الحدیث : ٨٤٦١‘ صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٩٨٢“ صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٨٨١‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ٨١١٣‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٠٣٣٤‘ سنن کبریٰ للبیہقی ج ٩ ص ٨٥١ )

قیامت کے دن عام مسلمان کیسے بےخوف ہوں گے جب کہ انبیاء (علیہم السلام) بھی خوف زدہ ہوں گے۔ 

اس کے بعد فرمایا اور وہ لوگ اس دن کی گھبراہٹ سے مامون ہوں گے۔ اس دن سے مراد ہے قیامت کا دن۔

اس پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ قیامت کے دن تو انبیاء (علیہم السلام) بھی خوف زدہ ہوں گے ‘ جب لوگ ان کے پاس جائیں گے تو وہ کہیں گے کسی اور کے پاس جاؤ‘ میں اپنے متعلق فکرمند ہوں ؎‘ جب قیامت کے دن انبیاء (علیہم السلام) اس قدر پریشان ہوں گے تو عام مسلمان اس دن کیسے بےخوف ہوں گے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) کو اپنے اوپر معاذ اللہ عذاب کا خوف نہیں ہوگا ‘ وہ اللہ تعالیٰ کی جلال ذات اور اس کی بےنیازی سے خوف زدہ ہوں گے اور جس کا جتنا بڑا مرتبہ ہوتا ہے اس کو اللہ تعالیٰ کا اتنا زیادہ خوف ہوتا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرتا ہوں اور مجھے تم سب سے زیادہ اللہ کا علم ہے۔ ( صحیح البخاری رقم الحدیث : ٠٢‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ٦١٢٣ )

اس آیت میں مسلمانوں کے لیے یہ بشارت ہے کہ قیامت کے دن وہ دائمی عذاب سے مامون ہوں گے ‘ رہا یہ کہ قیامت کے دن کی شدت اور اس کی ہولناکیوں کے مشاہدہ سے انسان کے دل پر جو ہیبت اور دہشت طاری ہوگی تو اس سے کوئی شخص مستثنیٰ نہیں ہوگا۔ عام مسلمانوں پر زیادہ ہیبت اور دہشت طاری ہوگی اور خواص پر کم ہوگی اور اللہ تعالیٰ کی باز پُرس اور گرفت کے خوف سے کوئی نفس بےفکر نہیں ہوگا۔

افامنوامکر اللہ فلایا من مکر اللہ الا القوم الخسرون۔ (الاعراف : ٩٩) کیا یہ لوگ اللہ کی گرفت سے بےفکر ہوگئے ہیں سو اللہ کی گرفت سے صرف نقصان اٹھانے والے بےفکر ہوتے ہیں۔

القرآن – سورۃ نمبر 27 النمل آیت نمبر 89