وَنُرِيۡدُ اَنۡ نَّمُنَّ عَلَى الَّذِيۡنَ اسۡتُضۡعِفُوۡا فِى الۡاَرۡضِ وَنَجۡعَلَهُمۡ اَئِمَّةً وَّنَجۡعَلَهُمُ الۡوٰرِثِيۡنَۙ ۞- سورۃ نمبر 28 القصص آیت نمبر 5
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَنُرِيۡدُ اَنۡ نَّمُنَّ عَلَى الَّذِيۡنَ اسۡتُضۡعِفُوۡا فِى الۡاَرۡضِ وَنَجۡعَلَهُمۡ اَئِمَّةً وَّنَجۡعَلَهُمُ الۡوٰرِثِيۡنَۙ ۞
ترجمہ:
اور ہم ان لوگوں پر احسان فرمانا چاہتے تھے جن کو ( اس کے) ملک میں کمزور قرار دیا گیا تھا ‘ اور ہم ان کو امام بنانا چاہتے تھے اور ( ان کے ملک کا) وارث بنانا چاہتے تھے
بنی اسرائیل کو امامت اور بادشاہت سے نوازنا
نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اور ہم ان لوگوں پر احسان فرمانا چاہتے تھے جن کو (اس کے) ملک میں کمزور قرار دیا گیا تھا۔ (القصص : ٥) یعنی فرعون بنی اسرائیل کو نچلے درجہ کی رعایا قرار دیتا تھا ‘ جیسے بھارت میں برہمنوں کے مقابلہ میں اچھوتوں اور شودروں کو نچلی ذات کی مخلوق قرار دیا جاتا ہے اور پنجاب میں زمینداروں کے مقابلہ میں کسانوں کو اور سندھ میں وڈیروں کے مقابلہ میں ہاریوں کو نیچ اور کمی قرار دیا جاتا ہے اسی طرح مصر میں قبطیوں کے مقابلہ میں بنی اسرائیل کو کم تر مخلوق قرار دیا جاتا تھا ‘ اسی طرح اب بھی بعض لوگ سادات کے مقابلہ میں غیر سادات کو کم تر قرار دیتے ہیں ‘ وہ غیر سادات کی بیٹیوں کو رشتہ میں لینا تو کو جائزکہتے ہیں اور ان کو اپنی بیٹیوں کا رشتہ دینا ناجائز اور حرام کہتے ہیں۔
اور فرمایا : اور ہم ان کو امام بنانا چاہتے تھے اور ( ان کے) ملک کا وارث بنانا چاہتے تھے۔ (القصص : ٥) حضرت ابن عباس نے فرمایا یعنی ان کو نیک کاموں میں پیشوا بنانا چاہتے تھے۔ مجاہد نے کہا ان کو نیکی اور خیر کا داعی اور ہادی بنانا چاہتے تھے اور قتادہ نے کہا ان کو حکمران اور بادشاہ بنانا چاہتے تھے۔ اور یہ تفسیر زیادہ عام اور شامل ہے ‘ کیونکہ بادشاہ بھی امام ہوتا ہے اور اس کی اقتداء کی جاتی ہے ‘ اور ہم ان کو وارث بنانا چاہتے تھے یعنی وہ فرعون کے ملک اور اس کی سلطنت کے وارث ہوں اور قبطیوں کے مکانوں میں رہائش پذیر ہوں ‘ جیسا کہ اس آیت میں فرمایا ہے :
واورثناالقوم الذین کانو ایستضعفون مشارق الارض و مغاربھا التی برکنافیھا ط وتمت کلمت ربک الحسنیٰ علیٰ بنی اسراء یل لابما صبرواط ودمرنا ما کان بصنع فرعون و قومہ وما کانوا یعرشون۔ (الاعرف : ٧٣١) اور جس قوم کو کمزور سمجھا جاتا تھا اس کو ہم نے اس سرزمین کے مشارق اور مغارب کا وارث بنا دیاجس میں ہم نے برکتیں رکھی تھیں ‘ اور بنی اسرائیل پر آپ کے رب کا بھلائی پہنچانے کا وعدہ پورا ہوگیا کیونکہ انہوں نے صبر کیا تھا ‘ اور ہم نے فرعون اور اس کی قوم کی بنائی ہوئی عمارتوں اور ان کی چڑھائی ہوئی بیلوں کو تباہ و برباد کردیا۔
القرآن – سورۃ نمبر 28 القصص آیت نمبر 5