قَالَ اِنِّىۡۤ اُرِيۡدُ اَنۡ اُنۡكِحَكَ اِحۡدَى ابۡنَتَىَّ هٰتَيۡنِ عَلٰٓى اَنۡ تَاۡجُرَنِىۡ ثَمٰنِىَ حِجَجٍۚ فَاِنۡ اَتۡمَمۡتَ عَشۡرًا فَمِنۡ عِنۡدِكَۚ وَمَاۤ اُرِيۡدُ اَنۡ اَشُقَّ عَلَيۡكَؕ سَتَجِدُنِىۡۤ اِنۡ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰلِحِيۡنَ ۞- سورۃ نمبر 28 القصص آیت نمبر 27
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
قَالَ اِنِّىۡۤ اُرِيۡدُ اَنۡ اُنۡكِحَكَ اِحۡدَى ابۡنَتَىَّ هٰتَيۡنِ عَلٰٓى اَنۡ تَاۡجُرَنِىۡ ثَمٰنِىَ حِجَجٍۚ فَاِنۡ اَتۡمَمۡتَ عَشۡرًا فَمِنۡ عِنۡدِكَۚ وَمَاۤ اُرِيۡدُ اَنۡ اَشُقَّ عَلَيۡكَؕ سَتَجِدُنِىۡۤ اِنۡ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰلِحِيۡنَ ۞
ترجمہ:
انہوں نے کہا میرا ارادہ ہے کہ میں اپنی بیٹیوں میں سے ایک کا آپ کے ساتھ نکاح کردوں اس شرط پر کہ آپ آٹھ سال تک اجرت پر میرا کام کریں اور اگر آپ نے دس سال پورے کر دئیے تو یہ آپ کی طرف سے ( احسان) ہوگا ‘ اور میں آپ کو مشکل میں ڈالنا نہیں چاہتا ‘ آپ انشاء اللہ ! مجھے نیک لوگوں میں سے پائیں گے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : انہوں نے کہا میرا ارادہ ہے کہ میں اپنی بیٹیوں میں سے ایک کا آپ کے ساتھ نکاح کردوں اس شرط پر کہ آپ آٹھ سال تک اجرت پر میرا کام کریں اور اگر آپ نے دس سال پورے کر دئیے تو یہ آپ کی طرف سے ( احسان) ہوگا ‘ اور میں آپ کو مشکل میں ڈالنا نہیں چاہتا ‘ آپ انشاء اللہ ! مجھے نیک لوگوں میں سے پائیں گے۔ موسیٰ نے کہا یہ بات میرے اور آپ کے درمیان ہے ‘ میں نے ان دونوں میں سے جس مدت کو بھی پورا کردیا تو مجھ سے کوئی زیادتی نہیں ہوگی ‘ اور ہمارے اس معاہدہ پر اللہ نگہبان ہے۔ (القصص : ۲۸۔ ۲۷)
لڑکی والوں کی طرف سے لڑکے کو نکاح کی پیش کش کرنے کے جواز اور استحسان
ہمارے معاشرہ میں لڑکی والوں کی طرف سے رشتہ کی پیش کش کو معیوب سمجھا جاتا ہے لیکن قرآن مجید کی اس آیت میں تصریح ہے کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی کسی ایک بیٹی کے ساتھ نکاح کی پیش کش کی ‘ صحابہ کرام (رض) بھی ایسا کرتے تھے۔
حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت حفصہ بنت عمر (رض) ‘ حضرت خنیس بن جذافۃ السبمی رضی اللی عنہ کے نکاح میں تھیں ‘ جب وہ مدینہ میں فوت ہوگئے اور حضرت حفصہ کا رشتہ پیش کیا ‘ حضرت عثمان نے کہا میں اس معاملہ پر غور کروں گا ‘ چند دنوں بعد حضرت عمر نے پھر حضرت عثمان سے تذکرہ کیا تو انہوں نے کہا ‘ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں ابھی نکاح نہ کروں ‘ حضرت عمر نہ کہا پھر میں نے حضرت ابوبکر سے کہا اگر آپ چاہیں تو میں حفصہ کا آپ سے نکاح کردوں ‘ حضرت ابوبکر خاموش رہے اور انہوں نے کوئی جواب نہ دیا ‘ حضرت عمر کہتے ہیں مجھے حضرت عثمان کی بہ نسبت حضرت ابوبکر سے زیادہ رنج پہنچا ‘ پھر چند دنوں بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت حفصہ کے لیے پیغام دیا میں نے آپ سے ان کا نکاح کردیا ‘ بعد میں جب حضرت ابوبکر کی مجھ سے ملاقات ہوئی تواُنہوں نے کہا جب آپ نے حضرت حفصہ کا رشتہ مجھے پیش کیا تھا اور میں نے کوئی جواب نہیں دیا تھا تو آپ کو اس کا رنج پہنچا ہوگا ؟ حضرت عمر نہ کہا ہاں ! حضرت ابوبکر نے کہا مجھے جواب دینے سے اس کے سوا اور کوئی چیز مانع نہیں تھی کہ مجھے معلوم تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت حفصہ کا ذکر کیا تھا ‘ اور میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا راز انشاء کرنا نہیں چاہتا تھا اور اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت حفصہ کو ترک کیا ہوتا تو میں ان کو قبول کرلیتا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٢١٥۔ ٥٠٠٤)
امام بخاری نے اس حدیث کا یہ عنوان قائم کیا ہے کہ کسی شخص کا نیک لوگوں پر اپنی بہن یا بیٹی کا رشتہ پیش کرنا ‘ اس سے معلوم ہوا کہ ہمارے معاشرہ کا یہ رواج انبیاء (علیہم السلام) اور صحابہ کے طریقہ کے خلاف ہے۔
قرآن مجید اور احادیث سے اجارہ (اُجرت پر کوئی کام کرانے) کا ثبوت
اس آیت میں ہے کہ میرا ارادہ ہے کہ میں اپنی ان دو بیٹیوں میں سے ایک کا نکاح آپ کے ساتھ کر دوں اس شرط پر کہ آپ آٹھ سال تک اجرت پر میرا کام کریں۔ (القصص : ٧٢)
ہمارے علماء نے اس آیت سے اجارہ ( اُجرت پر کوئی کام کرانا ‘ یا مزدوری کرانا) کے جواز پر استدلال کیا ہے۔
شمس الائمہ ابوبکر محمد بن ابی سہل حنفی متوفی ٣٨٤ ھ لکھتے ہیں :
کسی معین مال کے عوض ‘ منفعت کے حصول کے عقد کو اجارہ کہتے ہیں۔
منافع کے عقد کی دہ قسمیں ہیں ‘ ایک وہ جو بغیر عوض کے ہو ‘ جیسے کسی چیز کو بطورعاریۃ لینا یا کوئی خدمت کرنے کی وصیت کر دے ‘ اور دوسرا وہ عقد ہے جو کسی عوض کے ساتھ ہو اس کو اجارہ کہتے ہیں اس کا ثبوت کتاب اور سنت سے ہے ‘ کتاب سے ثبوت کی اصل یہ آیت ہے۔
علی ان تا جرنی ثمنی حجح ج فان اتممت عشرا فمن عندک۔ ( القصص : ٧٢) اس شرط پر کہ آپ آٹھ سال تک اجرت پر میرا کام کریں ‘ اور اگر آپ نے دس سال پورے کر دئیے تو یہ آپ کی طرف سے احسان ہوگا۔
اور جو چیز ہم سے پہلے کی شریعت سے ثابت ہو وہ بھی ہم پر لازم ہوتی ہے ‘ بہ شرطی کہ اس کے فسخ یا منسوخ ہونے پر کوئی دلیل قائم نہ ہو ‘ اور حدیث میں بھی اس کے ثبوت پر دلیل ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کی اجرت دے دو ۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٤٤٢) اس حدیث کی سند ضعیف ہے۔ (المبسو ط ج ٥١ ص ٢٨‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٢٤١ ھ)
علامہ سرخسی نے جس حدیث سے استدلال کیا ہے اس کی سند ضعیف ہے حالانکہ اجارہ کے ثبوت میں صحیح سند کے ساتھ بھی حدیث ہے اور وہ یہ ہے :
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے میں قیامت کے دن تین آدمیوں سے مخاصمت کروں گا ‘ ایک وہ آدمی جس نے میری قسم کھا کر کوئی عہد کیا پھر اس عہد کو توڑ دیا ‘ دوسرا وہ آدمی جو کسی شخص کو بیچ کر اس کی قیمت کھا گیا ‘ تیسرا وہ آدمی جس نے کسی مزدور کو اجرت پر طلب کیا اس سے کام پورا لیا اور اس کو اجرت نہیں دی۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٧٢٢٢‘ ٠٧٢٢‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٤٤٢‘ مسند ٓحمد ج ٢ ص ٨٥٣‘ المثقی رقم الحدیث : ٩٧٥‘ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٩٣٣٧‘ مسند ابو یعلی رقم الحدیث : ١٧٥٦‘ سنن کبریٰ للبیہقی ج ٦ ص ٤١‘ ١٢١ )
اجارہ کے ثبوت میں قرآن مجید کی اس آیت سے بھی استدلال کیا گیا ہے :
فان ارضعن لکم فا تو ھن اجورھن ج (الطلاق : ٦) پھر اکر (مطلقہ عورتیں) تمہارے کہنے سے دودھ پلائیں تو انہیں ان کی (مقررہ) اُجرت دے دو ۔
اس سوال کا جواب کہ منکوحہ کے تعین کے بغیر نکاح صحیح نہیں ہوتا اور حضرت شعیب نے کسی ایک بیٹی کا تعین نہیں کیا تھا
اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے یہ معین نہیں کیا تھا کہ وہ اپنی کس بیٹی کا نکاح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کر رہے ہیں اور نہ یہ معین کیا تھا کہ انہیں کتنی مدت تک ان کا کام کرنا ہوگا اور جب تک منکوحہ کا تعین نہ ہو نکاح صحیح نہیں ہوتا اور جب ایک مدت کا تعین نہ ہو اجارہ صحیح نہیں ہوتا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے ابتداء میں اجمالی طور پر پیش کش کی تھی اور بعد میں اس کو معین کردیا۔ انہوں نے اپنے چھوٹی بیٹی ڈفوریا کا حضرت موسیٰ کے ساتھ نکاح کیا تھا اور مدت انہوں نے آٹھ سال مقرر کی تھی اور بعد میں دہ سال کے اضافہ کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر چھوڑ دیا تھا۔ حدیث میں ہے :
حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا گیا حضرت موسیٰ نے دو مدتوں میں کون سی مدت پوری کی تھی ؟ آپ نے فرمایا جو مدت زیادہ تھی ‘ اور پوچھا گیا کہ حضرت موسیٰ نے دو عورتوں میں سے کون سی عورت کے ساتھ نکاح کیا تھا ؟ آپ نے فرمایا جو ان میں چھوٹی تھی۔
بالغ لڑکی کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہیں ہے۔
حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اپنی بیٹی سے مشورہ کیے بغیر اس کا نکاح حضرت موسیٰ سے کردیا اس سے معلوم ہوا کیہ ولی کو اختیار ہے کہ وہ اپنی بیٹی کا جہاں چاہے نکاح کر دے اور عورت کا اس میں کوئی اختیار نہیں ہے۔
علامہ ابو عبداللہ قرطبی مالکی متوفی ٨٦٦ ھ لکھتے ہیں :
یہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ باپ کو اختیار ہے کہ وہ اپنی کنواری بالغہ بیٹی کا اس کے مشورہ کے بغیر جہاں چاہے نکاح کردے۔ امام مالک نے اس آیت سے استدلال کیا ہے اور یہ اس باب میں بہت قوی دلیل ہے۔ امام شافعی اور دوسرے علماء نے بھی اس مسئلہ میں امام مالک کی موافقت کی ہے اور امام ابوحنیفہ نے یہ کہا ہے کہ جب لڑکی بالغہ ہوجائے تو اس کی مرضی کے بغیر اس کا کوئی نکاح نہیں کرسکتا البتہ جب لڑکی نابالغ ہو تو اس کا باپ یا دادا اس کی مرضی کے بغیر اس کا نکاح کرسکتا ہے اور وہ نکاح لازم ہوگا۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ٣١ ص ٠٥٢‘ دارالفکر ٦١٤١ ھ ‘ جز ٣١ ص ٢٤٢۔ ١٤٢‘ دارالکتاب العربی ‘ ٠٢٤١ ھ)
امام مالک اور امام شافعی کے استدلال کا جواب یہ ہے کہ یہ شریعت سابقہ ہے ہم پر حجت نہیں ہے ‘ کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد اس کے خلاف ہے ‘ حدیث میں ہے :
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بےنکاح عورت کا نکاح اس کے مشورہ کے بغیر نہیں کیا جائے گا ‘ اور کنواری لڑکی کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہیں کیا جائے گا ‘ مسلمانوں نے پوچھا وہ اجازے کیسے دے گی ؟ آپ نے فرمایا وہ خاموش رہے گی۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٣١٥‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٩١٤١‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ٧٢٢٣١)
اس باب میں اور بھی بہت احادیث ہیں :
خدمت اور کسی کام کو مہر قرار دینے پر امام مالک اور امام شافعی کا ستدلال
اس آیت میں یہ تصریح ہے کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اس شرط پر اپنی ایک بیٹی کا حضرت موسیٰ سے نکاح کردیا کہ وہ آٹھ سال حضرت شعیب (علیہ السلام) کے خدمت کریں اس سے معلوم ہوا کہ کوئی کام اور کسی چیز کی منفعت مہر بننے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی متوفی ٨٦٦ ھ لکھتے ہیں :
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اجارہ کے عوض نکاح کرنا صحیح ہے ‘ اس چیز کو ہماری شریعت نے بھی مقررر کھا ہے۔ مثلاً کوئی شخص کسی عورت کو قرآن مجید کی تعلیم دے اور اس کو عوض میں اس سے نکاح کرے تو صحیح ہے۔ امام مالک نے اس کو مکروہ کہا ہے اور امام شافعی اور ان کے اصحاب کے نزدیک یہ جائز ہے اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک یہ نکاح جائز نہیں ہے۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ٣١ ص ٢٥٢‘ دارالفکر بیروت ‘ ٥١٤١ ھ ‘ جز ٣١ ص ٤٤٢‘ دارالکتاب العربی بیروت ٠٢٤١ ھ)
امام مالک اور امام شافعی کی دلیل یہ حدیث ہے
حضرت سہل بن سعد الساعدی (رض) بیان کرتے ہیں میں لوگوں میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ ایک عوت نے آ کر کہا یا رسول اللہ ! میں نے اپنا نفس آپ کو ہبہ کردیا ہے ‘ سو آپ کی میرے متعلق کیا رائے ہے ؟ آپ نے اس کو کوئی جواب نہیں دیا اس نے دوبارہ کھڑی ہو کر کہا کہ اس نے آپ کو اپنا نفس ہبہ کردیا ہے ‘ تو آپ کی اس کے متعلق کیا رائے ہے ؟ آپ نے پھر کوئی جواب نہیں دیا ‘ اس نے پھر تیسری بار کھڑی ہو کر کہا کہ ان نے آپ کو اپنا نفس ہبہ کردیا ہے سو آپ کی اس کے بارے میں کیا رائے ہے ؟ ایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا یا رسول اللہ ! آپ اس کا میرے ساتھ نکاح کردیجیے۔ آپ نے اس سے پوچھا کیا تمہارے پاس کوئی چیز ہے ؟ اس نے کہا نہیں۔ آپ نے فرمایا جاؤ جا کر تلاش کرو ‘ خواہ وہ لوہے کا ایک چھلا ہو ‘ وہ گیا اور تلاش کرکے واپس آگیا اور کہا مجھے کوئی چیز نہیں ملی ‘ نہ لوہے کا چھلا ملا۔ آپ نے پوچھا تمہیں کچھ قرآن یاد ہے ؟ اس نے کہا مجھے فلاں فلاں سورت یاد ہے ! آپ نے فرمایا جاؤ میں نے تمہارا نکاح اس عورت کے ساتھ کردیا بمامعک من القرآن ‘ کیونکہ تمہیں قرآن یاد ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٩٤٥١‘ سنن النسائیرقم الحدیث : ٩٣٣٣‘ سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ١١١٢‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٤١١‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٩١٨١‘ مسند احمد رقم الحدیث : ٨٣٢٣٢‘ عا لم الکتب ‘ مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : ٤٧٢٢١‘ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٣٩٤)
امام مالک اور امام شافعی کے نزدیک بمامعک من القرآن میں ” با “ عوض کی ہے یعنی تم کو جو قرآن یاد ہے اس کے عوض میں ‘ میں نے تمہارا نکاح اس کے ساتھ کردیا ‘ اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک یہ ” با “ سبب کے لیے ہے یعنی تم کو قرآن یا ہے اس سبب سے میں نے تمہارا نکاح اس سے کردیا اور یہ نکاح بغیر مہر کے ہوا اور ایسی صورت میں مہر مثل لازم ہوتا ہے۔
امام مالک اور امام شافعی کے استدلال کے مفسرین احناف کی طرف سے جوابات
قرآن مجید کی اس آیت سے جو امام مالک اور امام شافعی نے استدلال کیا ہے اس کے جواب میں علامہ ابوبکر احمد بن علیجصاض رازی حنفی متوفی ٠٧٣ ھ لکھتے ہیں :
بعض لوگوں نے اس آیت سے منافع اور اجارہ کے عوض نکاح کے جواز پر استدلال کیا ہے اور اس آیت میں ان کے مدعا پر کوئی دلیل نہیں ہے کیونکہ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اپنے خدمت کی شرط لگائی تھی نہ کہ اپنی بیٹی کی خدمت کے لیے تو منفعت حضرت شعیب کو حاصل ہوئی نہ کہ ان کی بیٹی کو ‘ اور ان کو مقصود یہ ہے کہ عورت کو جو منافع حاصل ہو ‘ وہ اس کا مہر ہوسکتا ہے۔ مثلاً کوئی شخص اس عورت کو قرآن کی تعلیم دے یا اس کی خدمت کرے اور یہاں ایسا نہیں ہے کیونکہ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اپنے لیے منافع کے حصول کی شرط لگائی تھی انہوں نے کہا تھا علی ان تاجرنی ثمانی حجج کی تم میری بیٹی کے لیے آٹھ سال اجرت پر کام کرو ‘ سو یہ نکاح بغیر مہر کے ہوا تھا ‘ اور عورت کے ولی کے لیے ایک مدت معینہ تک منافع کے حصول کی شرط لگائی گئی تھی ‘ اور یہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ مہر کے ذکر کے بغیر نکاح صحیح ہے۔ ( کیونکہ ان کہ بیٹی کے مہر کا ذکر نہیں ہوا تھا) اور عورت کے ولی کے لیے منافع کے حصول کی شرط لگائی گئی تھی اور ایسی شرائط سے نکاح فاسد نہیں ہوتا ‘ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) کی شریعت میں عورت کے مہر کے بغیر نکاح جائز ہس اور ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بغیر مہر کے نکاح کو منسوخ کردیا ہے۔ (احکام القرآن ج ٣ ص ٨٤٣‘ مطبوعہ سہیل اکیڈمی لاہور ‘ ٠٠٤١ ھ)
حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اپنی بیٹی کے نکاح کے لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر آٹھ سال خدمت کرنے کی شرط لگائی تھی اس کی منفعت ان کے لیے تھی ان کی بیٹی کے لیے نہیں تھی ‘ کیونکہ انہوں نے تاجرنی کہا تھا نہ کی تاجرھا ‘ اور ہوسکتا ہے کہ اس طرح کا نکاح ان کی شریعت میں جائز ہو کہ اس میں ایک مدت مقررہ تک لڑکی کے ولی کے لیے منفعت کی شرط لگائی جائے۔ جس طرح ہماری شریعت میں یہ جائز ہے کہ ایک مدت مقررہ تک لڑکی کی بکریاں چرانے کی شرط لگائی جائے ‘ اور عین المعانی میں لکھا ہے کہ پہلی شریعتوں میں یہ جائز تھا کہ لڑکی کے سرپرست کو مہر دیا جائے اور ہماری شریعت میں یہ حکم اس آیت سے منسوخ ہوگیا ہے :
واتوا النساء صد قتھن نحلہ ط (النسائ : ٤) اور عورتوں کو ان کے مہر خوشی سے ادا کرو۔
نیز امام مالک اور امام شافعی نے جو یہ کہا ہے کہ کوئی کام اور خدمت بھی مہر ہوسکتی ہے یہ اس لیے صحیح نہیں ہے کہ ہماری شریعت میں مہر کا مال متقوم ہونا ضروری ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : واحل لکم ماوراء ذلکم ان تبتغو ابا موالکم (النسائ : ٤٢) اور محرکات کیھ سوا باقی عورتوں سے تمہارے لیے نکاح کرنا حلال کردیا گیا ہے کہ تم اپنے مال کو بطور مہر دے کر ان سے نکاح کرو۔
نیز یہ بھی ضروری ہے کہ وہ مہر ان عورتوں کو ادا کیا جائے نہ کہ ان کے سرپرستوں کو جیسا کہ فرمایا ہے : واتوا النساء صد قتھن نحلہ ط (النسائ : ٤) اور عورتوں کو ان کے مہر خوشی سے ادا کرو۔ (روحالبیان ج ٦ ص ٩٠٥‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٢٤ ھ)
اور علامہ سید محمود آلوسی حنفی متوفی ٠٧٢١ ھ اس استدلال کے جو ابت میں لکھتے ہیں :
اس آیت میں عقد نکاھح اور عقد اجارہ کا اجمالاً ذکر کیا گیا ہے اور ان دونوں نے اس کو واقع کرنے کا عزم کیا ہے اور ان کی شریعت میں عقد نکاح اور عقد اجارہ کے کیا ارکان اور شرائط تھے ‘ ان کو ذکر نہیں کیا گیا اور اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے سامنے اپنے کسی ایک بیٹی سے نکاح کی پیش کش کی نہ یہ کہ با نفعل ان کے ساتھ اپنی کسی پیتی کا نکاح کردیا ‘ اور اس نکاح کو واقع کردیا ‘ اور جو لوگ اس کے قائل ہیں کہ حضرت شعیب نے اپنی کسی بیٹی کا حضرت موسیٰ کے ساتھ نکاح کردیا تھا انہوں نھے بھی یقین کے ساتھ اس نکاح کو ان کی شریعت کے مطابق منعقد کرنے کی کیفیت نہیں بیان کی۔ ایک قول یہ ہے کہ کسی معین لڑکی (صفورا) کے ساتھ ایک معین مہر کے عوض یہ نکاح کردیا گیا اور وہ مہر اس مذکورہ آٹھ سال اجرت پر ‘ کام کرنے کے علاوہ تھا ‘ اور اس اجرت کا ذکر باہمی معاہدہ کے طور پر کیا گیا ہے نہ کہ اس نکاح کو منعقد کرنے کے طریقہ پر گویا کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے یوں کہا کہ میرا ارادہ ہے کہ میں اپنی دو بیٹیوں میں سے ایک کا مہر معین کے عوض تمہارے ساتھ نکاح کردوں جب کہ تم اجرت مقررہ کے عوض آٹھ سال میرے پاس کام کرو ‘ اب بتاؤ تمہاری اس بارے میں کیا رائے ہے ؟ حضرت موسیٰ راضی ہوگئے اور پھر حضرت شعیب (علیہ السلام) نے ایک معین لڑکی کے ساتھ ان کا نکاح کردیا۔ لہٰذا اب یہ اعتراض نہیں ہوگا کہ لڑکی ‘ کی تعیین کے بغیر اس کا نکاح صحیح نہیں ہے اور نہ یہ اعتراض ہوگا کہ اجرت معین کیے بغیر اجارہ کا انعقاد صحیح نہیں ہے اور نہ یہ اعتراض ہوگا کہ اس آیت میں تو لڑکی کے باپ کے لیے خدمت کرنے کا ذکر ہے نہ کہ لڑکی کے لیے تو اس کو مہر قرار دینا صحیح نہیں ہے ‘ اور ایک قول یہ ہے کہ شریعتیں مختلف ہوتی ہیں ہوسکتا ہے کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) کی شریعت میں غیر معین لڑکی کے ساتھ نکاح کرنا صحیح ہو اور تعیین کا حق لڑکی کے ولی یا شوہر کو حاصل ہو ‘ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کی شریعت میں لڑکی کے ولی کی خدمت کرنے کو لڑکی کا مہر قرار دینا درست ہو اور یہ دونوں چیزیں ہماری شریعت میں جائز نہیں ہیں۔ (روح المعانی جز ٠٢ ص ٣٠١ ملخصاً مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ٧١٤١ ھ)
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو عصا دیا جانا
اس آیت میں یہ ذکر ہے کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ وہ آٹھ سال اجرت پر ان کے پاس کام کریں ‘ یہ ذکر نہیں ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کیا کام لیں گے اور ان کو کیا اجرت دیں گے ‘ اسی طرح یہ بھی ذکر نہیں ہے کہ وہ کس بیٹی کا کتنے مہر کے عوض حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ نکاح کریں گے۔
علامہ ابوالسعود محمد بن محمد مصطفیٰ العمادی الحنفی المتوفی ٢٨٩ ھ لکھتے ہیں :
حضرت شعیب (علیہ السلام) اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا اجارہ اور عقد کے متعلق جو کلام ذکر کیا گیا اس میں اس چیز کا اجمالی بیان ہے جس کا ان دونوں نے عزم اور ارادہ کرلیا تھا اور اس میں یہ ذکر نہیں ہے کہ ان کی شریعت میں عقد اجارہ اور عقد نکاح کے کیا ارکان اور شرائط تھیں۔
روایت ہے کہ جب یہ عقد منعقد ہوگیا تو حضرت شعیب (علیہ السلام) نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ آپ گھر میں جائیں وہاں پر جو لاٹھیاں رکھی ہیں آپ ان سے کوئی لاٹھی لے لیں۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) کے پاس انبیاء (علیہم السلام) کی لاٹھیاں تھیں ‘ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے وہ لاٹھی اٹھالی جو حضرت آدم (علیہ السلام) کی لاٹھی تھی ‘ جس کو جنت سے لائے تھے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نابینا ہوچکے تھے ‘ اُنہوں نے اس لاٹھی کو چھو کر دیکھا تو پہچان لیا کہ یہ حضرت آدم (علیہ السلام) کی لاٹھی ہے ‘ انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا آپ کوئی اور لاٹھی لے لیں لیکن ہر بار حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھ میں یہی لاٹھی آئی تو حضرت شعیب (علیہ السلام) نے جان لیا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کوئی عام شخص نہیں ہیں۔ (تفسیر ابو السعودج ٥ ص ١٢١‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ٩١٤١ ھ)
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 28 القصص آیت نمبر 27
[…] تفسیر […]