أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَاَوۡحَيۡنَاۤ اِلٰٓى اُمِّ مُوۡسٰٓى اَنۡ اَرۡضِعِيۡهِ‌ۚ فَاِذَا خِفۡتِ عَلَيۡهِ فَاَ لۡقِيۡهِ فِى الۡيَمِّ وَلَا تَخَافِىۡ وَلَا تَحۡزَنِىۡۚ اِنَّا رَآدُّوۡهُ اِلَيۡكِ وَجٰعِلُوۡهُ مِنَ الۡمُرۡسَلِيۡنَ‏ ۞

ترجمہ:

اور ہم نے موسیٰ کی ماں کو الہام کیا کہ تم اس کو دودھ پلاؤ‘ اور جب تم کو اس پر خطرہ ہو تو اس کو دریا میں ڈال دینا اور کسی قسم کا خوف اور غم نہ کرنا ‘ بیشک ہم اس کو تمہارے پاس واپس لائیں گے اور (ہم) اس کو رسول بنانے والے ہیں

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور ہم نے موسیٰ کی ماں کو الہام کیا کہ تم اس کو دودھ پلاؤ‘ اور جب تم کو اس پر خطرہ ہو تو اس کو دریا میں ڈال دینا اور کسی قسم کا خوف اور غم نہ کرنا ‘ بیشک ہم اس کو تمہارے پاس لائیں گے اور (ہم) اس کو رسول بنانے والے ہیں۔ سو فرعون کے گھر والوں نے اس کو اٹھالیا تاکہ انجام کا روہ ان کا دشمن اور باعث غم ہوجائے ‘ بیشک فرعون ‘ اور ہامان اور ان کے لشکر جرم کرنے والے تھے۔ اور فرعون کی بیوی نے کہا یہ (بچہ) میری اور تمہاری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے ‘ اس کو قتل نہ کرنا ‘ شاید یہ ہمیں نفع پہنچائے یا ہم اس کو بیٹا بنالیں اور یہ لوگ (مستقبل کا) شعور نہیں رکھتے تھے۔ (القصص : ٩۔ ٧)

حضرت موسیٰ کی ماں کی طرف وحی کا معنی اور اس وحی کا بیان

امام ابو جعفر محمد بن جریر متوفی ٠١٣ ھ اپنے سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :

اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ہم نے موسیٰ کی ماں کی طرف وحی کی کہ اس کو دودھ پلاؤاور جب تم کو اس پر خطرہ ہو تو اس کو دریا میں ڈال دینا۔

قتادہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ حضرت موسیٰ کی ماں کی طرف وحی کرنے کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ بات ان کے دل میں ڈال دی ‘ اور وحی نبوت نہیں تھی۔

امام ابن جریر فرماتے ہیں اس میں مفسرین کا اختلاف ہے کہ حضرت موسیٰ کی ماں کو کس وقت یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ حضرت موسیٰ کو دریا میں ڈال دیں آیا حضرت موسیٰ کے پیدا ہونے اور ان کو دودھ پلانے کے فوراً بعد یا حضرت موسیٰ کے پیدا ہونے کے چار ماہ بعد ان کو دریا میں ڈالنے کا حکم دیا گیا تھا۔

ابن جریج نے بیان کیا ہے کہ ان کے پیدا ہونے کے بعد چار ماہ تک وہ ان کو دودھ پلاتی رہیں ‘ ابوبکر بن عبداللہ نے کہا ان کو یہ حکم نہیں دیا تھا کہ حضرت موسیٰ کے پیدا ہوتے ہی ان کو دریا میں ڈال دینا بلکہ یہ فرمایا تھا کہ تم ان کو دودھ پلاؤ اور جب تم کو ان پر خطرہ ہو تو پھر تم ان کو دریا میں ڈال دینا۔ ان کی ماں نے ان کو ایک باغ میں رکھا ہوا تھا اور وہ ہر روز وہاں جا کر ان کو دودھ پلاتی تھی ‘ اور سدی نے کہا ہے کہ جب حضرت موسیٰ پیدا ہوئے تو ان کی ماں نے ان کو دودھ پلایا ‘ پھر ایک بڑھئی کو بلایا اور اس کو تابوت بنانے کا حکم دیا پھر وہ تابوت دریائے نیل میں ڈال دیا۔

امام ابن جریر فرماتے ہیں ان اقوال میں اولیٰ قول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کی ماں کو دودھ پلانے کا حکم دیا تھا اور فرمایا تھا کہ جب ان فرعون اور اس کے لشکر سے خطرہ محسوس ہو تو ان کو دریا میں ڈال دیں اور یہ ہوسکتا ہے کہ انہوں نے حضرت موسیٰ کے پیدا ہونے کے چند ماہ بعد تک ان کو دودھ پلایا ہو پھر جب ان کو حضرت موسیٰ کی جان پر خطرہ محسوس ہوا تو انہوں نے ان کو دریا میں ڈال دیا۔ (جامع البیان ج ٠٢ ض ٨٣۔ ٧٣‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ٥١٤١ ھ)

نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا : تم ان پر خوف اور غم نہ کرنا ‘ خوف اس پریشانی کو کہتے ہیں جس کے لاحق ہونے کا مستقبل میں خطرہ ہو اور غم اس حزن اور ملال کو کہتے ہیں جو ماضی کی کسی مصیبت اور نقصان کی وجہ سے ہو ‘ گویا کہ فرمایا تم مستقبل میں فرعون کے ہاتھوں ان کی ہلاکت کا خطرہ محسوس نہ کرنا اور نہ اس وجہ سے پریشان ہونا ‘ اور نہ ان کی جدائی میں غمگین ہونا ‘ کیونکہ بیشک ہم ان کو تمہارے پاس لائیں گے ‘ تاکہ تم ہی ان کو دودھ پلاؤ اور ہم ان کو اس سرکش قوم کی طرف رسول بنا کر مبعوث کرین گے اور ان کے سبب سے فرعون اور اس کی قوم کو ہلاک کردیں گے ‘ اور بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے نجات عطا کریں گے۔

حضرت موسیٰ کی ولادت کے سلسلہ میں ارھاصات (اعلاِن نبوت سے پہلے کے خلافِ عادت واقعات)

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت کے واقعہ میں کئی خلافِ عادت واقعات ہوئے ان کو آگ نے نہیں جلایا ‘ ان کے خلاف جاسوسی کرنے والا گونگا اور اندھا ہوگیا ‘ ان کی والدہ کی عام عورتوں کی طرح حمل نہیں ہوا۔

امام ابو محمد الحسین بن مسعود الفراء البغوی الشافعی المتوفی ٦١٥ ھ لکھتے ہیں :

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی ماں کے وضع حمل کا زمانہ قریب آگیا ‘ فرعون نے دائیوں کو بنی اسرائیل کی حاملہ عورتوں کی نگرانی کے لیے مقرر کیا ہوا تھا ‘ ان میں سے ایک دائی حضرت موسیٰ کی ماں کی سہیلی اور مخلص دوست تھی جب ان کو دردزہ کی سخت تکلیف ہوئی تو انہوں نے اپنے اس سہیلی کو بلوایا اور کہا تم دیکھ رہی ہو کہ مجھے کتنی تکلیف ہے ‘ تمہاری محبت آج میرے کام آنی چاہیے ‘ اس نے اپنی کاروائی کی حتیٰ کہ حضرت موسیٰ پیدا ہوگئے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی آنکھوں میں جو نور تھا اس سے وہ دائی دہشت زدہ ہوگئی اور اس کا جوڑ جوڑ دہشت سے کا نپنے لگا ‘ اور اس کے دل میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی محبت سما گئی ‘ پھر اس نے حضرت موسیٰ کی ماں سے کہا جب تم نے مجھے بلایا تھا تو میرا ارادہ تھا کہ میں اس بچہ کو مار ڈالوں گی ‘ لیکن تمہارے اس بیٹے سے مجھے اتنی شدید محبت ہوگئی کہ اتنی محبت مجھے کسی سے نہیں ہوئی تھی ‘ تم اپنے بیٹے کی حفاظت کرنا کیونکہ اس کے بہت دشمن ہیں ‘ جب دائی ان کے گھر سے نکلی تو فرعون کے بعض جاسوسوں نے س کو دیکھ لیا ‘ وہ حضرت موسیٰ کی ماں سے ملنے کے لیے ان کے گھر آئے ‘ حضرت موسیٰ کی بہن نے کہا اے اماں ! دروازہ پر سپاہی کھڑے ہوئے ہیں اور اس نے حضرت موسیٰ کو کپڑے میں لپیٹ کر جلتے ہوئے تنور میں رکھ دیا ‘ اس وقت شدت خوف سے اس کی عقل خبط ہوچکی تھی ‘ اور اس کو کچھ ہوش نہیں تھا کہ وہ کیا کر رہی ہے۔ جب سپاہی گھر میں داخل ہوئے تو تنور جل رہا تھا ‘ انہوں نے دیکھا حضرت موسیٰ کی ماں اطمینان نے بیٹھی ہوئی تھی ‘ انہوں نے پوچھا یہ دائی تمہارے گھر کیوں آئی تھی ؟ اس نے کہا وہ میری محب اور دوست ہے وہ مجھ سے ملنے کے لیے آئی تھی ‘ سپاہی چلے گئے ‘ پھر اس نے حضرت موسیٰ کی بہن سے پوچھا بچہ کہاں ہے ؟ اس نے کہا مجھے پتہ نہیں ! پھر تنور سے بچے کے رونے کی آواز آئی ‘ وہ دوڑ کر تنور کے طرف گئی ‘ اللہ تعالیٰ نے اس تنور کی حضرت موسیٰ پر ٹھنڈا اور سلامتی والا بنادیا تھا ‘ انہوں نے بچے ہو اٹھالیا ‘ پھر جب حضرت موسیٰ کی ماں نے دیکھا کہ فرعون بچوں کی تلاشی لینے میں بہت سختی کر رہا ہے تو ان کو اپنے بیٹے کا خطرہ ہوا ‘ تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں یہ ڈالا کہ وہ بچے لو ایک تابوت میں رکھ کر دریائے نیل میں بہا دیں ‘ وہ قوم ِفرعون کے ایک بڑھئی کے پاس گئیں اور اس سے ایک چھوٹا تابوت خریدا۔ بڑھئی نے پوچھا تم اس تابوت کا کیا کرو گی ؟ انہوں نے کہا میں اس تابوت میں اپنے بیٹے کو چھپاؤں گی اور انہوں نے جھوٹ بولنے کو ناپسند کیا ‘ جب وہ تابوت لے کر چلی گئیں ‘ تو وہ بڑھئی فرعون کے ذبح کرنے والوں کے پاس گیا اور ارادہ کیا کہ ان کو حضرت موسیٰ کی ماں کی کاروائی کی خبر دے ‘ جب ان نے بولنے کا ارادہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان اس کی گویائی سلب کرلی ‘ اور وہ کوئی بات نہ کرسکا ‘ اور ہاتھوں سے اشارے کرکے بتانے لگا ‘ ان لوگوں کو کچھ سمجھ نہ آیا انہوں نے اسے پاگل سمجھ کر مار پیٹ کر نکال دیا ‘ جب وہ بڑھئی اپنے ٹھکانے پر پہنچا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی گویائی واپس کردی ‘ وہ بولنے لگا ‘ وہ پھر دوبارہ ذبح کرنے والوں کے پاس گیا وہاں جا کر پھر اس کو گویائی سلب ہوگئی۔ اس نے پھر اشاروں سے بات کرنی چاہی انہوں نے پھر مار پیٹ کر نکال دیا ‘ جب وہ دوسری بار مار کھا کر اپنے گھر پہنچا تو پھر اس کی گویائی واپس آگئی ‘ وہ پھر ذبح کرنے والوں کے پاس گیا تاکہ ان کو خبر دے ‘ اس بار اس کی گویائی بھی جاتی رہی اور اس کی بینائی بھی جاتی رہی ‘ اس کو نہ کچھ دکھائی دیا نہ بات کرسکا ‘ وہ پھر تیسری بار مار کھا کر پلٹا ‘ اس بار اس نے صدق دل سے عہد کیا کہ اگر اس بار اللہ نے اس کی گویائی اور بینائی واپس کردی تو وہ یہ بات کسی کو نہیں بتائے گا ‘ اور جب تک زندہ رہے گا اس کو راز رکھے گا ‘ اللہ تعالیٰ نے اس کے صدق نیت کو جان لیا اور اس کی گویائی اور بینائی واپس کردی وہ اللہ کے لیے سجدہ شکر میں گرپڑا اور اس نے جان لیا کہ یہ واقعہ اللہ کی طرف سے تھا۔

اور وہب بن منبہ نے بیان کیا ہے کہ جب حضرت موسیٰ کی ماں کو حمل ہوگیا تو انہوں نے اس کو لوگوں سے چھپایا ‘ اور ان کے حاملہ ہونے کا کسی کو پتا نہیں چلا ‘ اور چونکہ اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل پر احسان کرنا چاہتا تھا تو اللہ تعالیٰ نے بھی اس کو مستور رکھا اور جس سال حضر موسیٰ پیدا ہوئے تھے اس سال مرعون نے بنی اسرائیل کی عورتوں کی تفتیش کے لیے دائیوں کو بھیجا اور بہت سختی سے عورتوں کی تلاشی لی گئی ‘ جتنی اس سے پہلے کبھی تلاشی نہیں لی گئی تھی ‘ اور جب حضرت موسیٰ کی ماں کو حمل ہوا تو ان کا پیٹ پھولا اور نہ ان کا رنگ بدلا ‘ تو دائیوں نے ان سے کچھ سروکار نہیں رکھا ‘ اور جس رات حضرت موسیٰ پیدا ہوئے تو اس رات ان کے پاس کوئی دائی تھی نہ کوئی مددگار تھا ‘ اور ان کی پیدائش پر ان کی بہن مریم کے سوا اور کوئی مطلع نہیں ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو الہام کیا کہ وہ ان کو دودھ پلاتی رہیں اور جب ان کو خطرہ محسوس کریں تو ان کو ایک تابوت میں رکھ کر دریائے نیل میں ڈال دیں ‘ ان کی ماں ان کو گود میں تین ماہ تک دودھ پلاتی رہیں ‘ وہ گود میں روتے تھے نہ کوئی حرکت کرتے تھے ‘ اور جب ان کو حضرت موسیٰ پر خطرہ ہوا تو انہوں نے ان کو تابوت میں رکھ کر دریائے نیل میں ڈال دیا۔ (معلم التنزیل ج ٣ ص ٣٢٥۔ ٢٢٥‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ٠٢٤١ ھ)

امام ابن عساکر متوفی ١٧٥ ھ نے بھی اس روایت کو بیان کیا ہے ‘ ان کے علاوہ علامہ علی بن احمد واحدی نیشاپوری متوفی ٨٦٤ ھ ‘ علامہ محمود بن عمر زمخشری خوارزمی متوفی ٨٣٥ ھ ‘ امام محمد بن عمر رازی متوفی ٦٠٦ ھ ‘ علامہ عبداللہ بن عمر بیضادی متوفی ٥٨٦ ھ ‘ علامہ نظام الدین الحسن بن محمد قمی نیشاپوری متوفی ٨٢٧ ھ ‘ علامہ اسماعیل حقی حنفی متوفی ٧٣١١ ھ علامہ سلیمان جمل متوفی ٤٠٢١ ھ ‘ علا مہ احمد بن محمد صاوی مالکی متوفی ١٤٢١ ھ ‘ علامہ سید محمود آلوسی متوفی ٠٧٢١ ھ وغیر ہم مفسرین نے بھی حضرت ابن عباس (رض) کی اس روایت کا اس آیت کی تفسیر میں ذکر کیا ہے ‘ ان کی کتب میں ذکر کیا ہے ‘ ان کی کتب کے حوالہ جات حسب ذیل ہیں : (تاریخ دمشق الکبیرج ٤٦ ص ٦١۔ ٣١‘ مطبوعہ داراحیای التراث العربی بیروت ‘ الوسیط ج ٣ ص ٠٩٣‘ الکشاف ج ٣ ص ٨٩٣‘ تفسیر کبیرج ٨ ص ٠٨٥۔ ٩٧٥‘ تفسیر البیضاوی علی حاشیۃ عنایۃ القاضی ج ٧ ص ٠٨٢‘ غرائب القرآن ورغائب الفرقان ج ٥ ص ٨٢٣‘ روح الیبان ج ٦ ص ١٩٤‘ حاشیۃ الجمل علی الجلالین ج ٣ ص ٥٣٣‘ حاشیۃ الصاوی علی الجلالین ج ٤ ص ٨١٥١‘ روح المعانی جز ٠٢ ص ٩٦)

حضرت موسیٰ کی ماں کا نام

علامہ قرطبی متوفی ٨٦٦ ھ نے لکھا ہے کہ امام سہیلی نے کہا کہ حضرت موسیٰ کی ماں کا نام ایارخا تھا اور ایک قول ایارخت ہے ‘ اور علامہ ثعلبی نے کہا ان کا نام لوحا بنت ھاندبن لاوی بن یعقوب تھا۔ (الجامع لا حکام القرآن جز ٣١ ص ٢٣٢‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ٥١٤١ ھ)

امام بغوی متوفی ٦١٥ ھ نے لکھا ہے ‘ ان کا نام یوحانذ بنت لاوی بن یعقوب تھا۔ (معالم التنزیل ج ٣ ص ٤٢٥‘ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ٠٢٤١ ھ)

امام ابو جعفرمحمد بن جریر طبری متوفی ٠١٣ ھ نے لکھا ہے کہ حضرت موسیٰ کی ماں کا نام اناحید تھا (تاریخ طبری ج ١ ص ١٧٣‘ مطبوعہ مؤسسۃ الاعلمی اللمطبوعات بیروت ‘ ٩٠٤١ ھ)

امام ابوالکرم محمد بن محمد ابن الاثیر الجزری المتوفی ٠٣٦ ھ نے لکھا ہے حضرت موسیٰ کی ماں کا نام یوخابذ تھا۔ (الکامل جاص ٥٩‘ دارالکتاب العربی بیروت ‘ ٠٠٤١ ح)

امام عبدالرحمان بن علی الجوزی المتوفی ٧٩٥ ھ نے لکھا ہے کہ ان ماں کا نام یوخابذ تھا۔ (المنتظم جاص ٥١٢‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ٥١٤١ ھ)

علامہ سید محمود آلوسی متوفی ٠٧٢١ ھ لکھتے ہیں :

ایک قول ہے کہ ان کا نام محیانۃ بنت یصھر بن لاوی ہے ‘ ایک قوک ہے ان کا نام یوخابذ ہے ایک قول یارخا ہے ایک قول یارخت ہے ‘ اور ان کے علاوہ بھی اقوال ہیں۔ (روح المعانی جز ٠٢ ص ٨٦‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ٧١٤١ ھ)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 28 القصص آیت نمبر 7