وَمِنْہُمۡ مَّنۡ یَّقُوۡلُ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الۡاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ﴿۲۰۱﴾اُولٰٓئِکَ لَہُمْ نَصِیۡبٌ مِّمَّا کَسَبُوۡاؕ وَاللہُ سَرِیۡعُ الْحِسَابِ﴿۲۰۲﴾

ترجمۂ کنزالایمان: اور کوئی یوں کہتا ہے کہ اے رب ہمارے ہمیں دنیا میں بھلائی دے اور ہمیں آخرت میں بھلائی دے اور ہمیں عذاب دوزخ سے بچا۔ایسوں کو ان کی کمائی سے بھاگ ہے اور اللہ جلد حساب کرنے والا ہے۔

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور کوئی یوں کہتا ہے کہ اے ہمارے رب!ہمیں دنیا میں بھلائی عطا فرما اور ہمیں آخرت میں (بھی) بھلائی عطا فرما اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا۔ ان لوگوں کے لئے ان کے کمائے ہوئے اعمال سے حصہ ہے اور اللہ جلد حساب کرنے والا ہے۔ 

{وَمِنْہُمۡ مَّنۡ یَّقُوۡلُ: اور کوئی یوں کہتا ہے۔}اس آیت میں مذکور مسلمان کی دعا بہت جامع دعا ہے اورتھوڑے الفاظ میں دین و دنیا کی تمام بھلائیاں اس میں مانگی گئی ہیں۔حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اکثر یہ دعا مانگا کرتے تھے:۔ 

’’اَللّٰہُمَّ رَبَّنَآ ٰاٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ‘‘
(بخاری، کتاب الدعوات، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم ربنا آتنا فی الدنیا حسنۃ۔۔۔ الخ، ۴/۲۱۴، الحدیث: ۶۳۸۹)
دنیا کی بھلائی میں ہر اچھی اور مفیدشے داخل ہے خواہ وہ کفایت کرنے والا رزق ہو یا اچھا گھر یا اچھی بیوی یا اچھی سواری یا اچھا پڑوس وغیرہا۔