أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اُولٰٓئِكَ يُؤۡتَوۡنَ اَجۡرَهُمۡ مَّرَّتَيۡنِ بِمَا صَبَرُوۡا وَيَدۡرَءُوۡنَ بِالۡحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ وَمِمَّا رَزَقۡنٰهُمۡ يُنۡفِقُوۡنَ‏ ۞

ترجمہ:

یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ان (کے اعمال) کا دگنا اجر دیا جائے گا کیونکہ انہوں نے صبر کیا اور وہ برائی کو اچھائی سے دور کرتے ہیں ‘ اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے وہ اس میں سے (نیکی کے کاموں میں) خرچ کرتے ہیں

جن لوگوں کو ان کے نیک اعمال کا دگنا اَجر دیا جائے گا اس کی وجہ استحقاق 

اس کے بعد فرمایا : یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ان (کے اعمال) کا دگنا اجر دیا جائے گا ‘ کیونکہ انہوں نے صبر کیا اور وہ برائی کو اچھائی سے دور کرتے ہیں ‘ اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے وہ اس میں سے نیکی کے کاموں میں خرچ کرتے تھے۔ (القصص : ۵۴ )

اس آیت کی تائید اور تصدیق میں حسب ذیل احادیث ہیں :

ابوبردہ اپنے والد (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تین آدمیوں کو دگنا اَجر ملے گا ‘ ایک اہل کتاب سے وہ شخص جو اپنے نبی پر بھی ایمان لایا اور سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بھی ایمان لایا اور وہ غلام جو اللہ کا حق بھی ادا کرے اور اپنے مالک کا حق بھی ادا کرے اور وہ شخص جس کے پاس ایک باندی ہو ‘ وہ اس کو ادب سکھائے تو اچھا ادب سکھائے ‘ اور اس کو تعلیم دے تو اچھی تعلیم دے ‘ پھر اس کو آزاد کرکے اس سے شادی کرلے تو اس کو دواجر ملیں گے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٧٩‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٤٥١‘ سنن ابوداؤدرقم الحدیث : ٣٥٠٢‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٦١١١)

علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی متوفی ٨٦٦ ھ فرماتے ہیں جن تین شخصوں کے متعلق حدیث میں ہے کہ ان کو دگنا اَجر ملے گا ‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان دومختلف جہتوں سے عمل کرنے کا حکم دیا گیا اور انہوں نے دونوں کی اطاعت کی ‘ اس لیے وہ دگنے اَجر کے مستحق ہوئے ‘ سو جو شخص اہل کتاب سے تھا اس کو اپنے نبی کی طرف سے حکم دیا گیا تو اس نے اس کے حکم کی اطاعت کی پھر اس کو ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے حکم دیا گیا تو اس نے آپ کے حکم کی اطاعت کی تو اس کو دونوں ملتوں کا اجر ملے گا ‘ اور غلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی حکم دیا گیا اور اس کے مالک کی طرف سے بھی حکم دیا گیا سو اس نے دونوں کی اطاعت کی ‘ اس لیے اس کو بھی دگنا اَجر ملے گا اور جو شخص باندی کا مالک تھا اس نے باندی کی تربیت کرکے اس کی تربیت کے ساتھ زندہ کیا ‘ پھر اس کو آزاد کرکے اس سے نکاح کیا تو اس کو آزادی کے ساتھ زندہ کیا سو ان میں سے ہر ایک دواجروں کا امید وار ہے ‘ اور جس نیکی کا مسلمانوں کو دس گنا اجر ملتا ہے اور مسلمانوں کو جماعت سے نماز پٹرھنے کا ستائیس (٧٢) گنا اجر ملتا ہے ‘ اسی طرح حرم شریف میں نماز پڑھنے کا ایک لاکھ گنا اجر ملتا ہے ‘ سو ان تین شخصوں کو یہ تمام اجور عام مسلمانوں کی بہ نسبت دگنے ملیں گے۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ٣١ ص ٤٦٢‘ دارالکتاب العربی بیروت ‘ ٠٢٤١ ھ ‘ جز ٣١ ص ٣٧٢۔ ٢٧٢‘ دارالفکر بیروت ‘ ٧١٤١ ھ)

علامہ آلوسی متوفی ٠٧٢١ ھ نے لکھا ہے کہ ان کو دگنا اَجر اس لیے ملے گا کہ ایک مرتبہ وہ اپنے کتاب پر ایمان لائے اور ایک مرتبہ وہ قرآن پر ایمان لائے دُگنا اجر اس لیے ملے گا کہ وہ دونوں دینوں پر ثابت قدم رہے یا ان کو دگنا اَجر اس لیے ملے گا کہ وہ قرآن مجید کے نزول سے پہلے اور اس کے نزول کے بعد دو مرتبہ اس پر ایمان لائے یا ان کو دگنا اَجر اس لیے ملے گا کہ انہوں نے دونوں دینوں کے مخالفین کیطرف سے اذیت اور تکلیف کو صبر کے ساتھ باداشت کیا اور مخالفین اور مشرکین کی طرف سے ان پر جو زیادتی ہوئیں اور ان کے ساتھ جو بُرا سلوک کیا گیا اس کا انہوں نے نرمی سے اور نیک سلوک کے ساتھ جواب دیا۔ (روض المعانی جز ٠٢ ص ١٤١‘ دارالفکر بیروت ‘ ٧١٤١ ھ)

حضرت ابو ذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا تم جہاں کہیں بھی ہو اللہ سے ڈرو ‘ اور برائی کے بعد نیکی کرو ‘ نیکی اس برائی کو مٹا دے گی ‘ اور لوگوں کے ساتھ نیک سلوک کرو۔ (مسند احمد ج ٥ ص ٣٥١‘ مسند احمد رقم الحدیث : ١٥٢١٢‘ دارالحدیث قاہرہ ‘ ٥١٤١ ھ ‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٧٨٩١‘ امام ترمذی نے کہا یہ حدیث حسن صحیح ہے ‘ سنن الدارمی رقم الحدیث : ١٩٧٢‘ المستدرک ج ١ ص ٤٥‘ علامہ ذہی نے تصحیح میں حاکم کی موافقت کی ہے)

مومنین اہل کتاب کے لیے دگنے اَجر کی بشارت زمانہ رسالت کے ساتھ مخصوص ہے یا قیامت تک کے لیے عام ہے 

حضرت ابوامامہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص اہل تورات اور اہل انجیل میں سے اسلام لے آیا اس کو اس کا اجر دو بار ملے گا ‘ اس کے وہ حقوق ہیں جو ہمارے حقوق ہیں اور اس پر وہ فرائض ہیں جو ہمارے فرائض ہیں۔ (مسند احمد ج ٥ ص ٩٥٢‘ مسند احمد رقم الحدیث :‘ ٥٣١٢٢‘ دارالحدیث قاہرہ ‘ المعجم الکبیرج ٧ ص ٥٢٢‘ مجمع الزوائد اص ٣٩)

یہ حکم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ کے اہل کتاب کے ساتھ مخصوص ہے یا قیامت تک کے اہل کتاب کے لیے عام ہے۔

قرآن مجید میں چونلہ ” من قبلہ “ کی قید ہے یعنی وہ اہل کتاب جو ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت یا قرآن مجید کے نزول سے پہلے اپنی کتابوں میں ہمارے نبی اور قرآن مجید کی بشارت کا پڑھ کر آپ پر یا قرآن مجید پر ایمان لاچکے تھے اور آپ کے ظہور کے بعد انہوں نے اسلام قبول کرلیا ‘ سودُگنے اجر کی بشارت صرف ان کے لیے ہے قیامت تک کے تمام اہل کتاب میں سے ایمان لانے والوں کے لیے نہیں ہے۔ امام رازی متوفی ٦٠٦ ھ ‘ علامہ قرطبی متوفی ٨٦٦ ھ ‘ علامہ بیضدی متوفی ٥٨٦ ھ ‘ حافظ ابن کثیر مگوفی ٤٧٧ ھ اور علامہ آلوسی متوفی ٠٧٢١ ھ نے ان کو دگنے اَجر دئیے جانے کی یہی وجہ لکھی ہے کہ یہ لوگ بعثت سے پہلے بھی ہمارے نبی پر ایمان لائے اور بعثت کے بعد بھی ہمارے نبی پر ایمان لائے اس وجہ سے ان کو دگنا اَجر ملے گا۔ (تفسیر کبیرج ٨ ص ٧٠٦‘ الجامع لاحکام القرآن جز ٣١ ص ٢٧٢‘ تفسیر البیضدی علی حاشیۃ الخفاجی ج ٧ ص ٨٠٣‘ تفسیر ابن کثیرج ٣ ص ١٣٤‘ روح المعانی جز ٠٢ ص ٠٤١۔ ٩٣١‘ دارالفکر بیروت ‘ ٩١٤١ ھ)

اس کی تحقیق کہ اسلام اور مسلمین کا لفظ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دین اور آپ کے متبعین کے ساتھ مخصوص ہے 

خاتم الحفاظ حافظ جلال الدین السیوطی متوفی ١١٩ ھ لکھتے ہیں :

اس مسئلہ میں علماء کا اختلاف ہے کہ آیا اسلام کا اطلاق ہر دین حق پر ہوتا ہے یا اسلام کا اطلاق صرف شریعت محمدیہ پر ہوتا ہے ‘ اسی طرح مسلمین کا اطلاق صرف نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متبعین پر ہوتا ہے یا ہر نبی کے متبعین پر ہوتا ہے۔ راحج قول یہ ہے کہ اسلام کا لفظ ہمارے نبی کے دین کے ساتھ مخصوص ہے اور مسلمین کا لفظ ہمارے نبی کی متبعین کے ساتھ مخصوص ہے البتہ انبیاء سابقین پر بھی مسلمین کا اطلاق ہوتا ہے اور دوسرا قول جو تعمیم کا ہے ‘ وہ مرجوح ہے۔ اس سلسلہ میں ہم پہلے راحج قول کی تائید میں قرآن مجید کی آیات اور احادیث پیش کریں گے۔ پھر جن آیات سے مرجوح قول پر استدلال کیا گیا ہے ‘ ان کے جوابات اور ان آیات کے صحیح محامل پیش کریں گے۔ فنقول وباللہ التوفیق۔

لفظ اسلام کے ہمارے نبی کی شریعت کے ساتھ مخصوص ہونے کے ثبوت میں آیات 

الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا ط (المائدہ : ٣) میں نے آج تمہارے لیے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت مکمل کردی اور تمہارے لیے اسلام کے دین ہونے پر میں راضی ہوگیا۔

اس آیت میں یہ بالکل واضح ہے کہ اسلام کا لفظ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دین کے ساتھ خاص ہے ‘ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ اس سے اختصاص تو ظاہر نہیں ہوتا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ” لکم “ کو جو ” الاسلام “ پر مقدم کیا ہے اس کا معنی یہ ہے کہ تمہارے لیے ہی اسلام کو پسند کیا ہے کیونکہ تقدیم ماحقہ التاخیر مفید حصر ہوتی ہے جیسا کہوبالاخرۃ ھم یوقنون (البقرہ : ٤) میں ہے اس میں بھی علم کی تقدیم کا معنی ہے وہ متقین ہی آخرت پر یقین رکھتے ہیں اور اس میں اہل کتاب پر تعریض ہے کہ وہ آخرت پر یقین نہیں رکھتے۔ اسی طرح وماہم بخرھین من النار۔ (البقرہ : ٧٦١) میں بھی ” ھم “ کی تقدیم سے یہ معنی مستفاد ہوتا ہے کہ صرف وہی یعنی کافر دوزخ سے نہیں خارج ہوں گے ‘ اور ان کے علاوہ دوزخ سے خارج ہوجائیں گے اور وہ موحدین ہیں۔

ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دین کے ساتھ اسلام کی خصوصیت کی دوسری دلیل یہ ّآیت ہے : یا یھا الذین امنوا ادخلو انی السلم کافۃ۔ (البقرہ : ٨٠٢) اے ایمان والو ! اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ۔

مفسریں نے کہا ہے کہ یہ آیت ان لوگوں کے متعلق نازل ہوئی ہے جو اہل کتاب میں سے مسلمان ہوگئے تھے ‘ اور اپنی شریعت کے بعض احکام پر باقی رہے تھے ‘ وہ ہفتہ کے دن کی تعظیم کرتے تھے اور انہوں نے اونٹ کا گوشت کھانا چھوڑ دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا کہ وہ اسلام کی شریعت میں مکمل داخل ہوجائیں اور تورات کے کسی حکم پر عمل نہ کریں۔ کیونکہ وہ منسوخ ہوچکے ہیں ‘ اور تورات کے بعض احکام پر عمل کرکے شیطان کے قدم بہ قدم نہ چلیں۔ گویا کہ یوں کہ گیا ہے کہ اسلام کے تمام شرعی احکام میں مکمل داخل ہوجاؤ‘ اعتقاداً بھی اور عملاً بھی۔ اور امام ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت اہل کتاب کے ان مومنین کے متعلق نازل ہوئی ہے جو تورات کے بعض شرعی احکام پر عمل کرتے تھے۔ فرمایا کہ تم مکمل طور پر دین محمد میں داخل ہوجاؤ اور اس میں سے کسی چیز کو ترک نہ کرو اور اس میں یہ تصریح ہے کہ تورات کی شریعت کا اسلام نہیں کہا جاتا۔

لفظ مسلمین کے ہمارے نبی کے متبعین کے ساتھ مخصوص ہونے کے ثبوت میں آیات 

وجاھدوافی اللہ حق جھادہ ط ھواجتبکم وماجعل علیکم فی الدین من حرج ط ملۃ ابیکم ابراہیم ط ھو سمکم المسلمین لا من قبل و فی ھذا۔ (الحج : ٨٧) اور اللہ کی راہ میں اس طرح جہاد کرو جس طرح جہاد کرنے کا حق ہے ‘ اسی نے تم کو فضیلت والا بنایا ہے اور اس نے دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی ‘ اپنے باپ ابراہیم کی ملت کو (قائم رکھو) اسی نے تمہارا نام مسلمین رکھا ہے ‘( اللہ ہی نے یا ابراہیم نے) نزول قرآن سے پہلے بھی اور قرآن میں بھی۔

اس میں اختلاف ہے کہ ھوسماکم کی ضمیر اللہ تعالیٰ کی طرف راجع ہے یا حضرت ابرہیم کی طرف ‘ زیادہ تر مفسرین کی رائے ہے کہ یہ ضمیر اللہ تعالیٰ کی طرف راجع ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید نازل کرنے سے پہلے تورات اور انجیل میں بھی تمہارا نام مدلمان رکھا ہے اور اس قرآن میں بھی تمہیں مسلمین فرمایا ہے ‘ اور ائمہ سلف مفسرین صحابہ ‘ تابعین اور تبع تابعین نے یہ کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لوِ ح محفوظ میں ‘ تورات اور انجیل میں تمام آسمانی کتابوں میں اس امت کو مسلمین فرمایا ہے اور یہ اس کی دلیل ہے کہ صرف ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متبعین ہی مسلمین کے نام کے ساتھ مخصوص ہیں۔

ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متبعین کے مسلمین کے نام کے ساتھ مخصوص ہونے پر دوسری دلیل یہ آیت ہے۔

ربنا واجعلنا مسلمین لک ومن ذریتنا امۃ مسلمۃ لک۔ (البقرہ : ۱۲۸) اے ہمارے رب ! ہم دونوں کو مسلمین ( اپنا اطاعت شعار) رکھ اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک امت کو مسلمہ ( اپنا اطاعت شعار) رکھ۔

اس آیت میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے اور اپنے بیٹے دونوں کے لیے اسلام پر قائم رہنے کی دعا کی ہے اور وہ دونوں نبی ہیں اور پھر اپنی اولاد کی امت کے لیے اسلام پر قائم رہنے اور مسلمان رہنے کی دعا کی ہے اور آپ کی اولاد کی امت ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت ہے کیونکہ اس آیت کے بعد حضرت ابراہیم نے ہمارے نبی کی بعثت کی دعا کی ہے : ربنا وابعث فیھم رسولا منھم 

(البقرہ : ۱۲۹) اے ہمارے رب ! ان میں ان کہ میں سے ایک رسول مبعوث فرما دے۔ 

اور اس پر اجماع ہے کہ اس آیت میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کی دعا کی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دونوں دعاؤں کو قبول فرمایا۔ اہل مکہ میں نبی مبعوث فرمایا اور ان کی امت کو مسلمہ فرمایا ‘ اور اس سے واضح ہوگیا کہ قرآن مجید میں صرف نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متبعین کو مسلم فرمایا ہے۔

اس موقف پر تیسری دلیل یہ آیت ہے : انا انذلنا التوراۃ فیھا ھدی ونور یحکم بھا النبیون الذین اسلموا۔ (المائدہ : ٤٤) بیشک ہم نے تورات کو نازل کیا ہے اس میں ہدایت اور نور ہے ‘ اس کے ساتھ یہودیوں کے لیے وہ انبیاء فیصلے کرتے ہیں جو مسلم ہیں۔

اس آیت میں انبیاء (علیہم السلام) کے ساتھ اسلموا یعنی مسلم کی صفت کا ذکر کیا ہے اور ان کی امتوں کے ساتھ مسلم کا ذکر نہیں کیا بلکہ ان کو ھادوا یعنی یہودی کے عنوان سے ذکر کیا ہے ‘ اس سے معلوم ہوا کہ پچھلی امتوں کو قرآن مجید میں مسلم نہیں کہا گیا۔ اُمتوں میں سے مسلم صرف ہماری امت کو کہا گیا ہے ‘ البتہ انبیاء سابقین کو مسلمین کہا گیا ہے۔

لفظ اسلام کے ہمارے نبی کی شریعت کے ساتھ مخصوص ہونے کے ثبوت میں احادیث 

امام ابو نعیم احمد بن عبداللہ اصبہانی متوفی ٠٣٤ ھ اپنی سند کے ساتھ وہب بن منبہ سے روایت کرتے ہیں :

اللہ تعالیٰ نے حضرت شعیا کو وحی کی کی میں نبی امی کو مبعوث کرنے والا ہوں ‘ اس کی ولادت مکہ میں ہوگی اور اس کی ہجرت طیبہ ہے میں ہوگی ‘ وہ میرے (مکرم) بندے المتوکل المصطفیٰ ہیں ‘ ان کی ملت اسلام ہے اور ان کا نام احمد ہے۔ (دلائل النبوۃ رقم الحدیث : ٣٣‘ ج ١ ص ٣٧‘ دارالنفائس)

اس حدیث میں تصریح ہے کہ اسلام صرف آپ کی ملت ہے اور آپ کے ساتھ مخصوص ہے ‘ اس اثر کو قاضی عیاض نے شفاء میں بھی ذکر کیا ہے اور ان لوگوں پر تعجب ہے جو اس اثر کو پڑھتے ہیں اور سنتے ہیں اور اس کو سمجھتے نہیں ہیں۔

امام ابن ابی حاتم نے ابوالعالیہ سے روایت کیا ہے کہ سید نا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اسلام کے ساتھ مبعوث کیا گیا اور یہی ملت ابراہیم ہے اور ملت نصاریٰ یہودیت اور نصرانیت ہے۔

اس موقف پر دوسری دلیل یہ حدیث ہے :

حضرت عبداللہ بن ثابت (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا : یا رسول اللہ ! میں اپنے قریظہ کے ایک بھائی کے پاس سے گزرا اس نے میرے لیے تورات کے چند ابواب لکھ دئیے کیا میں ان کو آپ کے سامنے پیش نہ کروں ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا چہرہ متغیر ہوگیا۔ پس حضرت عمر نے کہا ہم اللہ کو رب مان کر راضی ہیں اور اسلام کو دین مان کر راضی ہیں اور سید نا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رسول مان کر راضی ہیں ‘ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرے سے غصہ کے آثار دور ہوگئے اور آپ نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں سید نا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے اگر تم میں صبح کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) آئیں پھر تم ان کی پیروی کرو تو تم گمراہ ہوجاؤ گے ‘ تم امتوں میں سے میرا حصہ ہو اور میں نبیوں میں سے تمہارا حصہ ہوں۔ (مسند احمد ج ٤ ص ٦٦٢‘ طبع قدیم ‘ حافظ زین نے لکھا اس حدیث کی سند صحیح ہے ‘ حاشیہ مسند احمد رقم الحدیث : ١٥٢٨١‘ دارالحدیث قاہرہ ‘ ٥١٤١ ھ ‘ مسند احمد رقم الحدیث : ٥٢٥٨١‘ عالم الکتب بیروت ‘ ٩١٤١ ھ ‘ مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : ٤٦١٠١‘ مکتب اسلامی : ٠٩٣١ ھ ‘ رقم الحدیث : ٠٠٢٠١‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٢٤١ ھ ‘ مجمع الزوائد ج ١ ص ٣٧١)

یہ حدیث اس پر دلالت کرتی ہے کہ تورات کی شریعت کو اسلام نہیں کہا جایا ‘ کیونکہ جب حضرت عمر نے یہ دیکھا کہ نبی سید نا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے ہاتھ میں تورات کے چند اجزاء دیکھ کر غضب ناک ہوئے ہیں تو انہوں نے فوراً کہا ہم اسلام کو دین مان کر راضی ہیں تاکہ وہ تورات کی شریعت کی اتباع سے بری ہوجائیں اور جب انہوں نے یہ کہا تو سید نا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا غصہ دور ہوگیا اور آپ کو معلوم ہوگیا کہ حضرت عمر شریعتِ اسلام کے متبع ہیں اور شریعت تورات سے اعراض کرنے والے ہیں۔

مسلمین کے لقب سے صرف ہمارے نبی کے متبعین کے مخصوص ہونے کے ثبوت میں احادیث 

امام ابن ابی شیبہ نے مکحول سے روایت کیا ہے کہ حضرت عمر (رض) کا کسی شخص پر کوئی حق تھا ‘ حضرت عمر نے کہا اس ذات کی قسم جس نے سید نا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بشر پر فضیلت دی ہے میں تم سے جدا نہیں ہوں گا۔ یہودی نے کہا اللہ کی قسم ! اللہ نے سید نا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بشر پر فضیلت نہیں دی۔ حضرت عمر نے اس یہودی کے ایک تھپڑ مار دیا اس یہودی نے جا کرسید نا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شکایت کی ‘ سید نا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بلکہ اے یہودی ! آدم صفی اللہ ہیں ‘ اور ابراہیم خلیل اللہ ہیں ‘ اور موسیٰ نجی اللہ (اللہ سے ہم کلام ہونے والے) ہیں اور عیسیٰ روح اللہ ہیں اور میں حبیب اللہ ہوں ‘ بلکہ اے یہودی ! اللہ کے دو نام ایسے ہیں جو اس نے میری امت کے رکھے ہیں ‘ اللہ کا نام السلام ہے اور اس نے میری امت کا نام مسلمین رکھا ہے اور اللہ کا نام المومن ہے اور میری امت کا نام مومنین رکھا ہے ‘ بلکہ اے یہودی تم نے اس دن کو تلاش کیا جس کو ہمارے لیے ذخیرہ کیا گیا تھا (یعنی جمعہ) تمہارے لیے اس سے اگلا دن ہوا ( ہفتہ) اور نصاریٰ کے لیے اس سے اگلا دن ہوا (اتوار) بلکہ اے یہودی تم اوّلین ہو اور ہم آخرین ہیں ‘(دنیا میں) اور سابقین ہیں قیامت کے دن ‘ بلکہ تم نبیوں کے لیے اس وقت تک جنت میں دخول حرام ہے جس تک کہ میں داخل نہ ہوں اور تمام امتوں پر اس میں دخول حرام ہے جب تک کہ میری امت اس میں داخل نہ ہو۔ (مصنف ابن ابی شیبہ رقم الحدیث : ٣٩٧١٣‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ٦١٤١ ھ ‘ مصنف ابن ابی شیبہ ج ١١ ص ١١٥‘ ادارۃ القرآن کراچی ‘ ٦٠٤١ ھ)

اس حدیث میں یہ تصریح ہے کہ آپ کی امت اسلام کے وصف کے ساتھ مخصوس ہے ‘ اگر باقی امتیں بھی اس وصف میں شامل ہوتیں تو آپ کا اس وصف کو تفصیل کے موقع پر پیش کرنا درست نہ ہوتا۔

اس موقف پر دوسری دلیل یہ حدیث ہے :

الحارث اشعری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص نے زمانہ جاہلیت کی طرح چیخ و پکار کی وہ جہنم کے بیٹھنے والوں میں سے ہے۔ ایک شخص نے پوچھا یا رسول اللہ خواہ وہ روزے رکھے اور نماز پڑھے ؟ آپ نے فرمایا ہاں ! تم اللہ کی اس پکار کے ساتھ پکارو جس کی وجہ سے اس نے تمہارا نام مسلمین رکھا ہے اور مومنین عباد اللہ ہیں۔

ان علماء کے دلائل جو اسلام اور مسلمین کے وصف کو تمام شرائح اور تمام امتوں کے لیے عام قرار دیتے ہیں اور ان کے جوابات 

ان علماء کا استدلال قرآن مجید کی اس آیت میں ہے : فاخرجنا من کان فیھا من المومنین۔ فما وجد نا فیھا غیر بیت من المسلمین۔ (الذریت : ٦٣۔ ٥٣) پس ہم نے تمام مومنوں کو اس بستی سے نکال لیا ‘ سو ہم نے مسلمین کا وہاں پر صرف ایک ہی گھرپایا۔

وہ کہتے ہیں کہ اس آیت میں حضرت لوط (علیہ السلام) کے متبعین پر بھی مسلمین کا اطلاق کیا گیا ہے۔

اس کا جواب یہ ہے کہ ہم پہلے بیان کر ش کے ہیں کہ انبیاء سابقین (علیہم السلام) پر بھی مسلمین کا اطلاق کیا جاتا ہے ‘ اور اس گھر میں حضرت لوط (علیہ السلام) تھے ‘ اور ان کی صاحبزادیاں تھیں اور حضرت لوط (علیہ السلام) پر مسلم کا اطلاق اصالۃ اور بالذات تھا اور ان کی صاحبزادیوں پر بالتیع تھا ‘ جیسا کہ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر صلوٰۃ استقلالاً اور بالذات بھیجی جاتی ہے اور آپ کی آل ‘ اصحاب اور ازواج پر بالتبع بھیجی جاتی ہے۔

ان کا دوسرا اعتراض یہ ہے کہ حضرت بعقوب (علیہ السلام) نے جب اپنے بیٹوں سے پوچھا تم میرے بعد کس کی عبادت کرو گے تو انہوں نے کہا : نعبد الھک والہ ابائک ابراھم و اسمعیل و اسحاق الھا واحدا ج و نحن لہ مسلومون۔ 

(البقرۃ : ٣٣١) آپ کے معبود کی عبادت کریں گے اور آپ کے آباء و اجداد ‘ ابرہیم ‘ اسماعیل اور اسحاق کے معبود کی عبادت کریں گے جو واحد معبود ہے اور ہم اسی کے لیے مسلمین ہیں۔

اس آیت میں حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے بیتوں کو بھی مسلمین فرمایا ہے اس سے معلوم ہوا کہ قرآن مجید میں دوسرے انبیاء (علیہم السلام) کے امتیوں پر بھی مسلم کا اطلاق ہے ‘ اس کا جواب یہ ہے کہ ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ انبیاء سابقین (علیہم السلام) پر بھی مسلم کا اطلاق ہوتا ہے ‘ اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے بیٹوں کے متعلق ایک قول یہ ہے کہ وہ سب نبی تھے ورنہ حضرت یوسف (علیہ السلام) تو اتفاقاً نبی تھے ان پر مسلم کا اطلاق اصالۃ ہے اور ان کے بھائیوں پر مسلم کا اطلاق بالتبع ہے۔

لفظ اسلام کو ہمارے نبی کی شریعت کے ساتھ مخصوس کرنے کی وجوہات 

اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت کو اسلام کے ساتھ مخصوص کرنے کی کیا وجہ ہے تو اس کی حسب ذیل وجوہات ہیں :

(١) اسلام اس شریعت کو کہا جاتا ہے جو آسان اور سہل ہو اور آسان اور سہل ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت ہے کیونکہ اسلام اللہ کا پسندیدہ دین ہے ارضیت لکم الاسلام دینا۔ اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ دین وہ ہے آسان اور سہل ہو اور حضرت ابوہریرہ (رض) نے کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : دین آسان ہے۔ (صحیح البخاری باب ٠٣) قرآن مجید میں ہے : وما جعل علیکم فی الدین من حرج ط۔ (الحج : ٨٧) اور اللہ نے دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی۔

اس آیت کی تفسیر میں حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے اسلام میں وسعت رکھی ہے اور بنی اسرائیل اور یہود اور نصاریٰ کی شریعت میں جو مشکل احکام رکھے تھے اسلام میں ان کو اٹھا لیا بلکہ سابقہ شرائع میں بہت دشوار اور سخت احکام تھے جیسا کہ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے : ربنا ولا تحمل علینا اصراکما حملتہ علی الذین من قبلنا ج۔ (البقرہ : ٦٨٧٢) اے ہمارے رب ! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جو ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا۔

اور سابقہ شرائع کے مشکل احکام کا بوجھ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اتارا ہے : ویضع عنھم اصر ھم والاغلل التی کا نت علیھم ط (الاعراف : ٧٥١) اور ان لوگوں پر جو مشکل احکام کے بوجھ اور طوق تھے ان کو (بنی اُمی) اُتارتے ہیں۔

حضرت محجن بن الادرع بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ کو اس امت کے لیے آسانی پسند ہے اور مشکل ناپسند ہے۔ (المطالب العالیہ رقم الحدیث : ٣٤٥‘ الاحادیث الصحیحۃ رقم الحدیث : ٥٣٦١‘ کنزالعمال رقم الحدیث : ١٣٣٥‘ جمع الجوامع رقم الحدیث : ٧٤٨٤)

اس وجہ سے ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت کے علاوہ اور کسی شریعت پر اسلام کا اطلاق نہیں کیا جاتا۔

(٢) اسلام اس شریعت کا نام ہے جو بہت فضیلت والی عبادات پر مشتمل ہے جیسے حج ‘ وضو ‘ غسل جنابت اور جہاد ‘ وغیرہ ‘ اور یہ عبادات اس امت کے ساتھ مخصوص ہیں دوسری امتوں پر مشروع نہیں کی گئیں۔ البتہ دوسرے انبیاء پر یہ عبادات مشروع کی گئیں ہیں ‘ جیسا کہ اس اثر میں ہے :

امام ابوبکر احمد بن حسین بیہقی متوفی ٨٥٤ ھ نے اپنی سند کے ساتھ روایت کیا ہے ‘ بیشک اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد کی طرف زبور میں یہ وحی کی کہ اے داؤد ! بیشک تمہارے بعد ایک نبی آئے گا ‘ اس کی امت اُمتِ مرحومہ ہوگی اس کو میں ایسے ایسے نوافل عطا کروں گا ‘ جیسے نوافل میں نے انبیاء ( علیہم السلام) کو عطا کیے ہیں اور اس پر میں ایسی عبادات فرض کروں گا جیسی عبادات میں نے انبیاء پر فرض کی ہیں ‘ حتیٰ کہ وہ لوگ قیامت کے دن میرے پاس آئیں گے اور ان کا نور انبیاء کے نور کی مثل ہوگا ‘ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے ان پر فرض کیا ہے کہ وہ ہر نماز کے لیے اس طرح طہارت حاصل کریں جس طرح میں نے انبیاء (علیہم السلام) پر طہارت کو فرض کیا ہے اور میں نے ان پر غسل جنابت کو اس طرح فرض کیا ہے جس طرح میں نے ان سے پہلے انبیاء پر غسل جنابت کو فرض کیا ہے اور میں نے ان کو حج کرنے کا اس طرح حکم دیا ہے جس طرح میں نے ان سے پہلے انبیاء پر حج کو فرض کیا تھا اور میں نے ان کو جہاد کرنے کا حکم دیا ہے جس طرح میں نے ان سے پہلے رسولوں کو جہاد کرنے کا حکم دیا تھا۔ (دلائل النبوۃ ص ٠٨٣‘ مطبویہ دارالکتب العلمیہ بیروت)

اسی وجہ سے اس امت کا نام مسلمین رکھا گیا ہے ‘ جیسے انبیاء اور رسل کا نام مسلمین رکھا گیا ہے ‘ اور اس کے علاوہ اور کسی امت کا نام مسلمین نہیں رکھا گیا ‘ اس کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے :

امام ابویعلیٰ احمدبن علی متوفی ٧٠٣ ھ اپنی سند کے ساتھ حضرت علی (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اسلام کے آٹھ (٨) حصے ہیں ‘ ایک حصہ اسلام ہے ‘ دوسرا حصہ نماز ہے ‘ تیسرا حصہ زکوٰۃ ہے ‘ جو تھا حصہ حج ہے ‘ پانچواں حصہ جہاد ہے ‘ چھٹا حصہ رمضان کے روزے ہیں ‘ ساتواں حصہ نیکی کا حکم دینا ہے ‘ آٹھواں حصہ برائی سے روکنا ہے اور وہ آدمی ناکام اور نامراد ہوگیا جس کا کوئی حصہ نہ ہو۔ (مسند ابو یعلیٰ ج ١ ص ٠٠٤‘ رقم الحدیث : ٣٢٥‘ مطبوعہ دارالمامون التراث ‘ ٤٠٤١ ھ)

امام ابو عبد اللہ محمد بن عبداللہ حاکم نیشاپوری متوفی ٥٠٤ ھ اپنی سند کے ساتھ حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ اسلام کے تیس حصے ہیں ‘ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے سوا ان کو کسی نے مکمل نہیں کیا۔

امام حاکم اور ذہبی دونوں نے کہا یہ حدیث صحیح ہے۔ (المستدرک ج ٢ ص ٠٧٤‘ طبع قدیم ‘ المستدرک رقم الحدیث : ٣٥٧٣‘ طبع جدید ‘ المتبۃ العصریہ : ٠٢٤١ ھ)

اور امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری متوفی ٠١٣ ھ نے اپنی سند کے ساتھ حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ اس دین کے ساتھ جس کو بھی مکلف کیا گیا حضرت ابراہیم کے سوا کسی نے اس کو کامل طریقہ سے پورا نہیں کیا ‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وابراھیم الذی وفی۔ ( النجم : ٧٣) اور ابراہیم کے صحیفوں میں تھا جو پوری طرح احکام بجالائے۔

ان میں سے دس احکام التوبۃ : ٢١١ میں ہیں اور دس احکام المومنون : ١٠۔ ١ میں اور دس احکام الاحزاب : ٣٧ میں ہیں۔ (جامع البیان ج ١ ص ٠٣٧‘ رقم الحدیث : ٨٧٥١‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ٥١٤١ ھ)

اس سے معلوم ہوا گیا کہ اسلام ان احکام کے مجموعہ کا نام ہے اور یہ احکام صرف ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ملت میں اور ملت ابراہیم میں ہیں اسی لیے آپ کو ملت ابراہیم کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے۔

(٣) اسلام کے معنی کا مدار ماننے اور اطاعت کرنے پر ہے اور کسی امت نے اپنے نبی کو اس طرح نہیں مانا جس طرح ہماری امت نے اپنے نبی کو مانا ہے ‘ اسی وجہ سے ان کا نام مسلمین رکھا گیا ہے ‘ باقی امتیں اپنے نبیوں کی بہت نافرمانی کرتی تھیں جیسا کہ احادیث اور آثار سے معلوم ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے ت ام سے پہلی امتیں اس لیے ہلاک ہوگئیں کہ وہ اپنے نبیوں سے بہ کثرت سوالات کرتی تھیں اور اپنے نبیوں سے بہت اختلاف کرتی تھیں۔ حضرت مقداد بضی اللہ عنہ نے جنگ ِ بدر کے دن کہا تھا ہم اس طرح نہیں کہیں گے جس طرح بنواسرائیل نے حضرت موسیٰ سے کہا تھا ” جائیں آپ اور آپ کا رب قتال کریں ‘ ہم یہاں بیٹھنے والے ہیں “ اللہ کی قسم اگر آپ ہم کو برک الغماد تک بھی لے جائیں تو ہم آپکے ساتھ جائیں گے ‘ اور ایک روایت میں ہے کہ اگر آپ سمندر میں جائیں تو ہم آپ کے ساتھ سمندر میں جائیں گے۔ اسی وجہ سے دوسری امت کا نام مسلمین رکھا گیا ہے۔

اس اعتراض کا جواب کہ قرآن مجید میں بعض اہل کتاب کو بھی مسلمین کہا گیا ہے۔

حافظ جلال الدین سیوطی لکھتے ہیں جب میں اس مقالہ کو لکھ کر فارغ ہوگیا تو میں بستر پر سو گیا اور نیند میں مجھ پر اس آیت کے ساتھ اعتراض کیا گیا : الذین اتینہم الکتب من قبلہ ھم بہ یومنون۔ واذایتلی علیہم قالوا امنابہ انہ الحق من ربنا انا کنا من قبلہ مسلمین۔ (القصص : ۵۳۔ ۵۲)

جن کو ہم نے اس سے پہلے کتاب دی تھی اور وہ اس (قرآن) پر بھی ایمان رکھتے ہیں۔ اور جب ان پر اس (کتاب) کی تلاوت کی جاتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لا چکے ہیں ‘ بیشک یہ ہمارے رب کی طرف سے برحق ہے ‘ ہم اس سے پہلے ہی مسلمین تھے۔

اس آیت میں بہ ظاہر اہل کتاب کو مسلمین فرمایا ہے ‘ میں اس آیت پر غور کرتا رہا مجھے کوئی جواب نہ سوجھا ‘ پھر میں نے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع اور مجھے امید تھی کہ اللہ تعالیٰ میرے دل میں اس آیت کا جواب القا فرما دے گا ‘ سو جب میں بیدار ہوا تو اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں اس کے تین جواب ڈال دئیے ‘ اور وہ درج ذیل ہیں :

(١) اس آیت میں مسلمین کا لفظ ہے اور یہ اسم فاعل کا صیغہ ہے جو مستقبل کے معنی میں ہے گویا کہ انہوں نے کہا ہمارا عزم ہے کہ ہم اسلام قبول کریں گے یہ معنی نہیں ہے کہ وہ ماضی میں مسلمین تھے۔

(٢) ان کی مراد یہ تھی کہ ہم قرآن کی وجہ سے اسلام لانے والے ہیں نہ کہ تورات اور انجیل کی وجہ سے اور اس میں ’ یہ “ محذوف ہے۔

(٣) اس آیت کا معنی یہ ہے کہ وہ اللہ کے نزدیک مسلمین تھے ‘ کیونکہ اللہ کو علم تھا کہ وہ اسلام قبول کرنے والے ہیں تو ہرچند کہ وہ اس وقت یہودی یا عیسائی تھے لیکن اللہ تعالیٰ کے علم میں وہ مسلمین تھے۔ (الھاوی للفتاویٰ ج ٢ ص ٩٢١۔ ٥١١‘ ملخصا و موضحاو مخرجا ‘ مطبویہ لائل پور پاکستان)

حافظ سیوطی نے اسلام کے لفظ کو ہمارے نبی کے دین اور مسلمین کے لفظ کو ہمارے نبی کے متبعین کے ساتھ مخصوص قرار دینے پر ایک رسالہ لکھا ہے ‘ جس کا نام انہوں نے اتکام النعمۃ فی اختصاص الاسلام بھذہ الامۃ رکھا ہے اور اس کو الحوی للفتاویٰ میں شامل کیا ‘ اس رسالہ کے آخر میں القصص : ٣٥ پر وارد ہونے والے اعتراض کا جواب دیا ہے ‘ میں چونکہ اس آیت کی تفسیر لکھ رہا تھا اس لیے میں نے یہاں اس مبحث کا ذکر کیا ہے۔

سید مودودی نے علامہ سیوطی کے جوابات کے بےوزن کہا ہے اس لیے اب ہم سید مودودی کی عبارت اور اس پر اپنا تبصرہ پیش کررہے ہیں۔

سید مودودی کا علامہ سیوطی کے موقف کا رد کرنا اور اس پر مصنف کا تبصرہ 

سید مودودی کے نزدیک اسلام کا لفظ تمام ادیان سابقہ کے لیے عام ہے اور مسلمین کا لفظ بھی تمام امتوں کو عام ہے اور القصص : ۵۳ اس موقف پر صریح دلیل ہے اور علامہ سیوطی نے جو القصص : ۵۳ کے جواب دئیے ہیں ‘ ان کو رد کرتے ہوئے سید مودودی لکھتے ہیں :

یہ قول اس بات کی صاف صراحت کردیتا ہے کہ اسلام صرف اس دین کا نام نہیں ہے جسے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لے کر آئے ہیں اور ” مسلم “ کی اصطلاح کا اطلاق محض حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیرؤوں تک محدود نہیں ہے ‘ بلکہ ہمیشہ سے تمام انبیاء کا دین یہی اسلام تھا اور ہر زمانہ میں ان سب کے پیرہ مسلمان ہی تھے۔ یہ مسلمان اگر کبھی کافر ہوئے تو صرف اس وقت جب کہ کسی بعد کے آنے والے نبی صادق کو ماننے سے انہوں نے انکار کیا۔ لیکن جو لوگ پہلے نبی کو مانتے تھے اور بعد کے آنے والے نبی پر بھی ایمان لے آئے ان کو اسلام میں کوئی انقطاع واقع نہیں ہوا۔ وہ جیسے مسلمان پہلے تھے ویسے بعد میں رہے۔

تعجب ہے کہ بعض بڑے بڑے اہل علم بھی اس حقیقت کے ادراک سے عاجز رہ گئے ہیں حتیٰ کہ اس صریح آیت کو دیکھ کر بھی ان کا اطمینان نہ ہوا۔ علامہ سیوطی نے ایک مفسل ارالہ اس موضوع پر لکھا کہ مسلم کی اصطلاح صرف امت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے مختص ہے۔ پھر جب یہ آیت سامنے آئی تو خود فرماتے ہیں کہ میرے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ لیکن کہتے ہیں کہ میں نے پھر خدا سے دعا کی کہ اس معاملہ میں مجھے شرح صدر عطا کردے۔ آخر کار اپنی رائے سے رجوع کرنے کے بجائے انہوں نے س پر اصرار کیا اور اس آیت کی متعدد تاویلیں کر ڈالیں جو ایک سے ایک بڑھ کر بےوزن ہیں۔ مثلاً ان کی ایک تاویل یہ ہے کہ اناکنامن قبلہ مسلمین کے معنی ہیں ہم قرآن کے آنے سے پہلے ہی مسلم بن جانے کا عزم رکھتے تھے کیونکہ ہمیں اپنی کتابوں سے اس کے آنے کی خبر مل چکی تھی اور ہمارا ارادہ یہ تھا کہ جب وہ آئے گا تو ہم اسلام قبول کرلیں گے۔ دوسری تاویل یہ ہے کہ اس فقرے میں مسلمین کے بعد لفظ بہ محذوف ہے ‘ یعنی پہلے ہی سے ہم قرآن کو مانتے تھے کیونکہ اس کے آنے کی ہم توقع رکھتے تھے اور اس پر پیشگی ایمان لائے ہوئے تھے ‘ اس لیے تورات و انجیل کو ماننے کی بناء پر نہیں بلکہ قرآن کو اس کے نزول سے پہلے برحق مان لینے کی بناء پر ہم مسلم تھے۔ تیسری تاویل یہ ہے کہ تقدیر الٰہی میں ہمارے لیے پہلے ہی مقدر ہوچکا تھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کی آمد پر ہم اسلام قبول کرلیں گے اس لیے درحقیقت ہم پہلے ہی سے مسلم تھے۔ ان تاویلوں میں سے کسی کو دیکھ کر بھی یہ محسوس نہیں ہوتا کہ اللہ کے عطا کردہ شرح صدر کا اس میں کوئی اثر موجود ہے۔ (تفہیم القرآن ج ٣ ص ٦٤٦‘ مطبوعہ لاہور ‘ مارچ ٣٨٩١ ئ) 

تعجب ہے کہ سید مودودی نے علامہ سیوطی کے ذکر کردہ تینوں جوابات کو بےوزن کہا ہے ‘ لیکن کسی ایک کے بےوزن ہونے پر کوئی دلیل قائم نہیں کی ‘ اور ظاہر ہے بغیر دلیل کے جو دعویٰ کیا جائے اس کا کوئی وزن نہیں ہوتا۔ اس لیے دراصل سید مودودی کا علامہ سیوطی کے جوابات کو بےوزن کہنا بجائے خود بےوزن ہے۔

اور اس سے بھی زیادہ تعجب اس بات پر ہے کہ علامہ سیوطی نے اپنے موقف پر قرآن مجید کی متعدد آیات اور احادیث صحیحہ سے دلائل پیش کیے ہیں اور یہ ثابت کیا ہے کہ اسلام کا لفظ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لائے ہوئے دین کے ساتھ خاص ہے اور مسلمین کا لفظ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متبعین کے ساتھ خاص ہے۔ البتہ قرآن مجید میں انبیاء سابقین پر بھی مسلمین کا اطلاق کیا گیا ہے ‘ سید مودودی نے ان آیات اور احادیث پر کوئی کلام نہیں کیا اور نہ ان آیات اور احادیث کا کوئی محمل بتایا۔

اور القصص : ۵۳ میں جو اہل کتاب پر مسلمین کا اطلاق ہے اور یہ بظاہر علامہ سیوطی کے موقف کے خلاف ہے ‘ پھر علامہ سیوطی نے اس کے جو تین جواب دئیے ہیں ان کے متعلق سید مودودی نے صرف اتنا کہہ دیا کہ یہ جوابات بےوزن ہیں ‘ اور ان کے بےوزن ہونے پر کوئی دلیل نہیں دی ‘ اور علمی اور تحقیقی موضوعات میں بغیر دلیل کے کسی بات کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔

اس کے بعد سید مودودی نے اس موقف پر دلائل قائم کیے ہیں کہ اسلام صرف نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت کے ساتھ خاص نہیں ہے اور نہ ہی مسلمین کا لفظ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متبعین کے ساتھ مخصوص ہے۔

سیدابوالاعلی مودودی متوفی ٩٩٣١ ھ لکھتے ہیں :

واقعہ یہ ہے کہ قرآن مجید صرف اسی ایک مقام پر نہیں بلکہ بیسیوں مقامات پر اس اصولی حقیقت کو بیان کرتا ہے کہ اصل دین صرف ” اسلام “ (اللی کی فرمانبرداری) ہے ‘ اور خدا کی کائنات میں خدا کی مخلوق کے لیے اس کے سوا کوئی دوسرا دین ہو نہیں سکتا ‘ اور آغاز آفرینش سے جو نبی بھی انسانوں کی ہدایت کے لیے آیا ہے وہ یہی دین لے کر آیا ہے ‘ اور یہ کہ انبیاء (علیہم السلام) ہمیشہ خود مسلم رہے ہیں ‘ اپنے پیرؤوں کو انہوں نے مسلم لی بن کر رہنے کی تاکید کی ہے ‘ اور ان کے وہ سب متبعین جنہوں نے نبوت کے ذریعہ سے آئے ہوئے فرمانِ خداوندی کے آگے سر تسلیم خم کیا ‘ ہر زمانے میں مسلم ہی تھے۔ اس سلسلہ میں مثال کے طور پر صرف چند آیات ملاخط ہوں : ان الذین عنداللہ الاسلام 

(آل عمران : ۱۹) درحقیقت اللہ کے نزدیک تو دین صرف اسلام ہے 

ومن یبتغ غیر الاسلام دینافلن یقبل منہ (آل عمران : ۸۵) اور جو کوئی اسلام کے سوا کوئی اور دین اختیار کرے وہ ہرگز قبول نہ کیا جائے گا۔

حضرت نوح (علیہ السلام) فرماتے ہیں :

اناجری الاعلی اللہ لا وامرت ان اکون من المسلمین۔ (یونس : ۷۲) میرا اجر تو اللہ کے ذمہ ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں مسلموں میں شامل ہو کر رہوں۔

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کی اولاد کے متعلق ارشاد ہوتا ہے :

اذقال لہ ربہ اسلم لا قال اسلمت لرب العلمین۔ ووصی بھا ابرھم بنیہ و یعقوب ط یبنی ان اللہ اصطفی لکم الذین فلاتموتن الا وانتم مسلمون۔ ام کنتم شھداء اذحضر یعقوب الموت لا اذقال لبنیہ ما تعبدون من بعدی ط قا لو انعبد الھک و الہ ابا بک ابرھم و اسمعیل واسحق الھا واحدا ونحن لہ مسلمون۔ (البقرہ : ١٣١۔ ۱۳۳) جبکہ اس کے رب نے اس سے کہا کہ مسلم (تابع فرمان) ہوجا ‘ تو اس نے کہا میں مسلم ہوگیا رب العالمین کے لیے۔ اور اسی چیز کی وصیت کی ابراہیم نے اپنی اولاد کو اور یعقوب نے بھی کہا اے میرے بچو ! اللہ نے تمہارے لیے اس دین کو پسند کیا ہے لٰہذا تم کو موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو۔ کیا تم اس وقت موجود تھے جب یعقوب کی وفات کا وقت آیا ؟ جبکہ ان نے اپنی اولاد سے پوچھا کس کی بندگی کرو گے تم میرے بعد ؟ انہوں نے جواب دیا ہم بندگی کریں گے آپ کے معبود اور آپ کے باپ دادا ابراہیم اور اسمعیل اور اسحاق کے معبود کی ‘ اس کو اکیلا معبود مان کر ‘ اور ہم اسی کے مسلم ہیں۔

ماکان ابراہیم یھود یا ولانصرانیا ولکن کان حنیفا مسلما ط (آل عمران : ۲۷) ابراہیم نہ یہودی تھا نہ نصرانی بلکہ وہ یکسو مسلم تھا۔

حضرت ابراہیم اور اسمعیل کود دعا مانگتے ہیں :

ربنا واجعلنا مسلمین لک ومن ذریتنا امۃ مسلمۃ لک (البقرہ : ۱۲۸) اے ہمارے رب ! ہم کو اپنا مسلم بنا اور ہماری نسل سے ایک امت پیدا کر جو تیری مسلم ہو۔

حضرت لوط کے قصے میں ارشاد ہوتا ہے : جما وجدنا فیھا گیر بیت من المسلمین۔ (الذاریات : ۲۳) ہم نے قوم لوط کی بستی میں ایک گھر کے سوا مسلمانوں کا کوئی گھر نہ پایا۔

حضرت یوسف بارگہِ رب العزت میں عرض کرتے ہیں : توفنی کسلما والحقنی با لصلحین۔ (یوسف : ١٠١) مجھ کو مسلم ہونے کی حالت میں موت دے اور صالحوں کے ساتھ ملا۔

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم سے کہتے ہیں : یقوم ان کنتم امنتم باللہ فعلیہ توکلوا ان کنتم مسلمین۔ 

(یونس : ۸۳-۸۴) اے میری قوم کے لوگو ! اگر تم اللہ پر ایمان لائے ہو تو اسی پر بھروسہ کرو اگر تم مسلم ہو۔

بنی اسرائیل کا اصل مذہب یہودیب نہیں بلکہ اسلام تھا ‘ اس بات کو دوست اور دشمن سے جانتے تھے۔ چناچہ فرعون سمندر میں ڈوبتے وقت آخری کلمہ جو کہتا ہے وہ یہ ہے : امنت انہ لا الہ الا الذی امنت بہ بنوا اسراء یل وانا من المسلمین۔ (یونس : ۹۰) میں مان گیا کہ کوئی معبود اس کے سوا نہیں ہے جس پر سب اسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں مسلموں میں سے ہوں۔

تمام انبیاء بنی اسرائیل کا دین بھی یہی اسلام تھا : انا انذلنا التورۃ فیھا ھدی و نور ج یحکم بھا النبیون الذین اسلمو اللذین ھادوا (المائدہ : ٤٤ )ٌ ہم نے تورات نازل کی جس میں ہدایت اور روشنی تھی ‘ اسی کے مطابق وہ نبی جو مسلم تھے ان لوگوں کے معاملات کے فیصلے کرتے تھے جو یہودی ہوگئے تھے۔

یہی حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا دین تھا ‘ چناچہ ملکہ سبا ان پر ایمان لاتے ہوئے کہتی ہے : اسلمت مع سلیمنللہ رب العلمین۔ (النمل : ٤٤) میں سلیمان کے ساتھ رب العالمین کی مسلم ہوگئی۔

اور یہی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے حواریوں کا دین تھا : واذا وحیت الی الحوادین ان امنو ابی وبرسولی ج قالوا امنا واشھد با ننا مسلمون۔ (المائدہ : ١١١) اور جب کہ میں نے حواریوں پر وحی کی کہ ایمان لاؤ مجھ پر اور میرے رسول پر توا نہوں نے کہا ہم ایمان لائے اور گواہ رہ کہ ہم مسلم ہیں۔(تفہیم القرآن ج ٣ ص ٨٤٦۔ ٦٤٦‘ مطبوعہ لاہو ‘ ٣٨٩١ ئ)

سید مودودی نے اپنے موقف پر جو متعدد آیات پیش کی ہیں یہ وہی آیات ہیں جن میں انبیاء سابقین کو مسلمین کہا گیا ہے اور اس کی علامہ سیوطی نے خود اپنے مضمون میں تصریح کی ہے کہ انبیاء سابقین کو بھی قرآن مجید میں مسلمین کہا گیا ہے لٰہذا ان کا پیش کرنا بےسود ہے اور سید مودودی نے انالذین عنداللہ الاسلام۔ (آل عمران : ٩١) اور ومن یبتغ غیر الا سلام دینا فلن یقبل منہ ( آل عمران : ٥٨) کو جو پیش کیا ہے ‘ تو ان آیتوں میں یہ نہیں بیان فرمایا کہ کس نبی کے دین کو اسلام فرمایا ہے ؟ اور ہم یہ کہتے ہیں کہ ان آیتوں میں ہمارے نبی کے دین کو ہی اسلام فرمایا ہے کیونکہ قرآن مجید ہمارے نبی کے لائے ہوئے دین ہی کے متعلق نازل ہوا ہے۔ اس لیے یہ آیات علامہ سیوطی کے موقف کے خلاف نہیں ہیں۔ باقی رہا آیت یونس : ٤٨ میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا اپنی قوم سے فرمانا ان کنتم مسلمین تو اس میں آپ نے اپنی قوم بنی اسرائیل کو امت مسلمہ نام سے یاد نہیں کیا ‘ بلکہ اس آیت میں مسلمین کا لغوی معنی اطاعت کرنے والے مراد ہے ‘ اسی طرح فرعون جو کہا : وانا من المسلمین (یونس : ٠٩) اس میں بھی لغوی معنی مراد ہے یعنی میں اطاعت کرنے والوں میں سے ہوں ‘ اور ملکہ سبا نے جو کہا : اسلمت مع سلیمن (النمل : ٤٤) اس میں بھی لغوی معنی مراد ہے یعنی میں نے سلیمان کے ساتھ اطاعت کی ‘ اسی طرح المائدہ : ١١ میں مسلمون کا لغوی معنی اطاعت کرنے والے دراد ہے۔ علامہ سیوطی کی تفسیر اور حدیث میں بہت خدمات ہیں انہوں نے پچھتر (٥٧) مرتبہ بیداری میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زیارت کی ہے۔ سید مودودی نے جس جارحانہ انداز میں علامہ سیوطی پر تبصرہ کیا ہے ‘ اس سے ہمیں بہت تکلیف پہنچی ہے۔

اس کے بعد اب ہم سورة القصص کی باقی آیتوں کی تفسیر کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔

القرآن – سورۃ نمبر 28 القصص آیت نمبر 54