أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَلَقَدۡ وَصَّلۡنَا لَهُمُ الۡقَوۡلَ لَعَلَّهُمۡ يَتَذَكَّرُوۡنَؕ ۞

ترجمہ:

اور ہم لگا تار (اپنا) کلام لوگوں کے لیے بھیجتے رہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور ہم لگا تار (اپنا) کلام لوگوں کے لیے بھیجتے رہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔ جن کو ہم نے اس سے پہلے کتاب دی تھی وہ اس (قرآن) پر بھی ایمان رکھتے ہیں۔ اور جب ان پر اس (کتاب) کی تلاوت کی جاتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لا چکے ہیں ‘ بیشک یہ ہمارے رب کی طرف سے برحق ہے ‘ ہم اس سے پہلے ہی مسلمین اور اطاعت شعار ہوچکے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ان (کے اعمال) کا دوگنا اجر دیا جائے گا کیونکہ انہوں نے صبر کیا اور وہ برائی کو اچھائی سے دور کرتے ہیں ‘ اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے وہ اس میں سے (نیکی کے کاموں میں) خرچ کرتے ہیں۔ (القصص : ۵۴۔ ۵۱)

ایک بار پورا قرآن نازل کرنے کے بجائے لگاتار آیتیں نازل کرنے کی حکمت 

اس آیت میں وصلناکا لفظ ہے اس کا مصدر ” توصیل “ ہے ‘ اس کا معنی ہے ہم نے لگاتار اور پے درپے بھیجا ‘” تواصل “ کا معنی ہے کسی کام کا مسلسل ہوتے رہنا۔

امام ابن جریر متوفی ٠١٣ ھ نے کہا اس آیت کا معنی ہے : اے محمد ! (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ‘ ہم آپ کی قوم قریش اور بنی اسرائیل کے یہودیوں کے لیے ‘ مسلسل ماضی کی خبریں بھیجتے رہے ‘ اور جن قوموں نے ہمارے رسولوں کی تکذیب کی تھی اور اس کی پاداش میں ہم نے ان پر عذاب نازل کیا تھا ان کو خبریں سناتے رہے ‘ تاکہ یہ لوگ ان کی طرح اللہ کا کفر نہ کریں اور اس کے رسولوں کی تکذیب نہ کریں اور ان کے واقعات سے عبرت حاصل کریں۔ اگر ایک ہی بار پورا قرآن نازل کردیا جاتا اور ان پر بار بار آیات نازل نہ ہوتیں تو ان کو نصیحت حاصل کرنے کے اتنے مواقع میسر نہ ہوتے۔

ابن زید نے اس آیت کی تفسیر میں کہا ہم ان کو دنیا میں آخرت کی خبریں پہنچاتے رہے ‘ ہم انہیں دنیا میں اس طرح آخرت کی خبریں پہنچاتے تھے اور اپنی نشانیاں دکھاتے تھے گویا کہ انہوں نے دنیا میں آخرت کا معائنہ اور مشاہدہ کرلیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

ان فی ذلک لا یۃ لمن خاف عذاب الاخرۃ ط (ھود : ٣٠١) بیشک اس میں ان لوگوں کے لیے ضرور نشانی ہے جو آخرت کے عذاب سے ڈرتے ہیں۔

اور بتایا کہ ہم عنقریب ان سے کیے ہوئے آخرت کے وعدہ کو پورا کریں گے جیسا کہ ہم نے انبیاء سے کیے ہوئے وعدہ کو پورا کیا اور ہم انبیاء اور ان کی قوموں کے درمیان فیصلہ کردیں گے۔ (جامع البیان جز ٠٢ ص ٨٠١۔ ٧٠١“ دارالفکر بیروت ‘ ٥١٤١ ھ)

علامہ قرطبی متوفی ٨٦٦ ھ نے کہا ہم نے قرآن مجید کی آیتوں کو مسلسل اور لگاتار نازل کیا ہے ‘ اور ان آیتوں میں وعد اور وعید ہے ‘ اور قصص اور عبر ہیں اور مواعظ اور نصائح ہیں تاکہ لوگ ان سے نصیحت حاصل کریں اور فلاح پائیں۔ ایک قول یہ ہے کہ ” لھم “ کی ضمیر قریش کی طرف راجع ہے اور ایک قول یہ ہے کہ یہ ضمیر یہود کی طرف راجع ہے ‘ اور ایک قول یہ ہے کہ یہ ضمیر دونوں کی طرف راجع ہے۔ اس آیت میں ان کا رد ہے جنہوں جے کہا تھا کہ آپ پر قرآن ایک بار کیوں نازل نہیں کیا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہم مسلسل اور لگاتار قرآن نازل کرتے رہے تاکہ ان کے دل پر بار بار ضرب لگے اور یہ نصیحت حاصل کریں۔ (الجامع لاحکام القرآنجز ٣١ ص ٢٦٢‘ دارالکتاب العربی بیروت ‘ ٠٢٤١ ھ ‘ جز ٣١ ص ١٧٢‘ دارالفکر بیروت ‘ ٥١٤١ ھ)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 28 القصص آیت نمبر 51