أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اِنَّمَا تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ اَوۡثَانًا وَّتَخۡلُقُوۡنَ اِفۡكًا‌ ؕ اِنَّ الَّذِيۡنَ تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ لَا يَمۡلِكُوۡنَ لَـكُمۡ رِزۡقًا فَابۡتَغُوۡا عِنۡدَ اللّٰهِ الرِّزۡقَ وَاعۡبُدُوۡهُ وَاشۡكُرُوۡا لَهٗ ؕ اِلَيۡهِ تُرۡجَعُوۡنَ ۞

ترجمہ:

تم لوگ اللہ کو چھوڑ کر صرف بتوں کی عبادت کرتے ہو اور محض جھوٹ گھڑتے ہو ‘ بیشک تم لوگ اللہ کو چھوڑ کر جن کی عبادت کرتے ہو ‘ وہ تمہارے لئے رزق کے مالک نہیں ہیں ‘ سو تم اللہ سے رزق طلب کرو اور اس کی عبادت کرو اور اس کا شکر ادا کرو ‘ تم اسی کی طرف لوٹائے جائو گے

مشرکین کا رد فرمانا :۔

اس کے بعد فرمایا تم لوگ اللہ کو چھوڑ کر صرف بتوں کی عبادت کرتے ہو اور محض جھوٹ گھڑتے ہو۔

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے مشرکین کی بت پرستی کا رد فرمایا کیونکہ انسان کسی کی عبادت کسی نفع کی توقع پر کرے گا یا کسی خوف کی وجہ سے ‘ اور پتھر کے بےجان بت کسی کو نفع پہنچا سکتے ہیں نہ کسی کو کوئی نقصان پہنچاسکتے ہیں۔ اور ان کو نفع اور نقصان کا مالک سمجھنا صریح جھوٹ ہے۔ اور فرمایا وہ تمہارے لئے رزق کے مالک نہیں ہیں تو پھر ان کی عبادت کا تمہیں کیا فائدہ ہوگا ! اس کے بعد فرمایا : سو تم اللہ سے رزق طلب کرو اور اس کا شکر ادا کرو۔ یعنی ہر قسم کا رزق اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اس لئے اس سے رزق طلب کرو اور اس کا شکر ادا کرو۔ اس کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا اگر تم تکذیب کرو ( تو کوئی نئی بات نہیں) تم سے پہلے کتنی ہی امتیں تکذیب کرچکی ہیں۔ اس پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم سے پہلے تو صرف حضرت نوح (علیہ السلام) کی امت گزری ہے پھر حضرت ابراہیم کا یہ فرمانا کس طرح درست ہوگا کہ تم سے پہلے کتنی ہی امتیں تکذیب کرچکی ہیں ‘ اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت نوح سے پہلے حضرت ادریس کی امت گزر چکی ہے ‘ اور حضرت شیث کی قوم گزر چکی ہے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ اس سے پہلے کئی بنی اور کئی ان کی امتیں گزر چکی ہوں گی کیونکہ ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی گزرے ہیں اور قرآن و حدیث میں ہم سے صرف چند نبیوں کا تفصیلاً ذکر کیا گیا ہے ‘ قرآن مجید میں ہے :۔

بیشک ہم آپ سے پہلے بہت رسول بھیج چکے ہیں ‘ جن میں سے بعض کے واقعات ہم آپ سے بیان کرچکے ہیں اور بعض کے واقعات آپ سے بیان نہیں کئے (المئومن : ٧٨)

قرآن مجید میں صرف پچیس انبیاء اور رسل کا ذکر ہے اور جن کا ذکر نہیں فرمایا ان کی تعداد بہت زیادہ ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 29 العنكبوت آیت نمبر 17