فَاٰمَنَ لَهٗ لُوۡطٌۘ وَقَالَ اِنِّىۡ مُهَاجِرٌ اِلٰى رَبِّىۡ ؕ اِنَّهٗ هُوَ الۡعَزِيۡزُ الۡحَكِيۡمُ ۞- سورۃ نمبر 29 العنكبوت آیت نمبر 26
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
فَاٰمَنَ لَهٗ لُوۡطٌۘ وَقَالَ اِنِّىۡ مُهَاجِرٌ اِلٰى رَبِّىۡ ؕ اِنَّهٗ هُوَ الۡعَزِيۡزُ الۡحَكِيۡمُ ۞
ترجمہ:
سو لوط ان پر ایمان لائے اور ابراہیم نے کہا میں اپنے رب کی طرف ہجرت کرنے والا ہوں بیشک وہی بہت غلبے والا ہے بڑی حکمت والا ہے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : سولوط ان پر ایمان لائے ‘ اور ابراہیم نے کہا میں اپے رب کی طرف ہجرت کرنے والا ہوں ‘ بیشک وہ بہت غلبہ اور بڑی حکمت والا ہے اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق اور یعقوب عطا فرمائے اور ہم نے ابراہیم کی اولاد میں نبوت اور کتاب کو رکھ دیا اور ہم نے ان کو اس دنیا میں ان کا اجر دے دیا اور بیشک وہ آخرت میں نیکوکاروں میں سے ہیں ( العنکبوت : ٢٧۔ ٢٦)
حضرت لوط اور حضرت سارہ کا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر ایمان لانا۔
حضرت لوط (علیہ السلام) کا نام ہے لوط بن ھاران بن آزر (تارخ) ‘ یہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بھتیجے تھے ‘ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر آگ گلزار ہوگئی تو ان کا یہ معجزہ دیکھ کر حضرت لوط ان کی نبوت پر ایمان لے آئے ‘ اور حضرت سارہ ان کی عم زاد بہن تھیں وہ بھی اس معجزہ کو دیکھ کر ان پر ایمان لے آئیں اور انہوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے نکاح بھی کرلیا۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم ج ٩ ص ٣٠٥٠‘ تفسیر ثعلبی ج ٧ ص ٢٧٦)
حضرت لوط (علیہ السلام) اللہ کے نبی تھے اور نبی پیدائشی مومن اور موحد ہوتا ہے ‘ حضرت لوط (علیہ السلام) کا اللہ کی توحید پر تو پہلے ہی ایمان تھا۔ وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا معجزہ دیکھ کر ان کی نبوت اور رسالت پر ایمان لائے تھے۔
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ہجرت کا اہم واقعہ
اللہ تعالیٰ نے فرمایا اور ابراہیم نے کہا میں اپنے رب کی طرف ہجرت کررہا ہوں۔ اس کا معنی ہے میں اپنے رب کے حکم سے ہجرت کررہا ہوں ‘ علامہ ثعالبی اور علامہ قرطبی وغیرہ ہما نے لکھا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے پچھتر سال کی عمر میں ہجرت کی تھی۔
حضرت ابراہیم جب اپنے وطن کے لوگوں کے ایمان لانے سے مایوس ہوگئے تو پھر آپ نے ہجرت فرمائی ‘ آپ کا وطن کوفہ کے مضافات میں تھا اس کا نام کو ثی تھا وہاں سے آپ نے شام کی طرف ہجرت کی تھی۔
امام ابن اسحاق نے بیان کیا کہ حضرت ابراہیم نے جب ہجرت کی تو ان کے ساتھ حضرت لوط بھی تھے اور ان کی عم زاد حضرت سارہ بھی تھیں جس سے انہوں نے نکاح کرلیا تھا ‘ وہ پہلے جران میں گئے پھر وہاں سے ہجرت کر کے مصر میں پہنچے وہاں فراعنہ مصر میں سے ایک فرعون تھا۔ اور حضرت سارہ آپ کی حکم عدولی نہیں کرتی تھیں اسی وجہ سے اللہ نے ان کو عزت دی۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث : ١٧٢٥١ )
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے صرف تین (ظاہری) جھوٹ بولے تھے دو ان میں سے اللہ کے لئے تھے ایک ان کا یہ قول ہے انی سقیم (الصفت : ٨٩) (میں بیمار ہوں) دوسرا ان کا یہ قول ہے : (الانبیاء : ٦٣) (بلکہ یہ کام ان کے اس بڑے نے کیا ہے) ایک دن وہ اور سارہ سفر کررہے تھے ‘ وہ ایک ظالم بادشاہ کے ملک میں گئے اس بادشاہ کو بتایا گیا کہ یہاں ایک شخص آیا ہے اس کی بیوی تمام لوگوں سے زیادہ حسین ہے ‘ اس بادشاہ نے حضرت ابراہیم کو بلوا کر پوچھا یہ عورت کون ہے ‘ حضرت ابراہیم نے کہا یہ میری بہن ہے ‘ پھر حضرت سارہ کے پاس گئے اور ان سے کہا اے سارہ اس وقت روئے زمین پر میرے اور تمہارے سوا اور کوئی مومن نہیں ہے اور اس بادشاہ نے مجھ سے تمہارے متعلق سوال کیا تھا تو میں نے اس کو بتادیا تھا کہ تم میری بہن ہو سو تم میرے بیان کی تکذیب نہ کرنا۔ الحدیث (یعنی تم میری دینی بہن ہو)
بہ ظاہر یہ حدیث قرآن مجید کے خلاف ہے کیونکہ قرآن مجید میں ہے ک کہ اس وقت حضرت لوط بھی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر ایمان لا چکے تھے اور دیگر احادیث میں ہے کہ وہ بھی ان کے ساتھ سفر کررہے تھے ‘ اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی مراد یہ تھی کہ اس وقت روئے زمین پر میرے اور تمہارے سوا شوہر اور بیوی کا اور کوئی جوڑا مومن نہیں ہے ‘ اس لئے اس وقت حضرت لوط (علیہ السلام) کا بھی مومن ہونا اس حدیث کے خلاف نہیں ہے ‘ اس کا دوسرا جواب یہ ہے کہ اس خاص علاقہ میں ان کے ساتھ حضرت لوط نہیں تھے اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی مراد یہ تھی کہ اس علاقہ میں میرے اور تمہارے سوا اور کوئی مومن نہیں ہے۔ بقیہ حدیث اس طرح ہے : اس بادشاہ نے حضرت سارہ کو بلوایا ‘ جب اس نے بری نیت سے حضرت سارہ پر ہاتھ ڈالنا چاہتا تو اس کا ہاتھ مفلوج ہوگیا ‘ اس نے حضرت سارہ سے کہا تم اللہ سے میرے لئے دعا کرو میں تم کو نقصان نہیں پہنچائوں گا ‘ حضرت سارہ نے دعا کی تو اس کا ہاتھ ٹھیک ہوگیا اس نے دوسری بار بری نیت سے ہاتھ بڑھایاتو پھر اس کا ہاتھ مفلوج ہوگیا ‘ اس نے کہا تم اللہ سے دعا کرو میں تم کو نقصان نہیں پہنچائوں گا ‘ حضرت سارہ نے دعا کی تو اس کا ہاتھ ٹھیک ہوگیا ‘ پھر اس نے اپنے بعض پہرے داروں کو بلایا اور ان سے کہا تم میرے پاس کسی انسان کو نہیں لائے بلکہ جنیہ عورت کو لے آئے ہو ‘ پھر اس نے حضرت سارہ کو حضرت ھاجربہ طور خادمہ دے دی وہ حضرت ابراہیم کے پاس آئیں وہ اس وقت کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے ‘ انہوں نے اشارے سے کہا کیا ہوا ؟ حضرت سارہ نے بتایا اللہ تعالیٰ نے کافر کی سازش کو خود اس پر الٹ دیا اور اس نے ھاجربہ طور خادمہ ہدیہ کردی حضرت ابوہریرہ نے کہا اے زمزم کے بیٹو وہ تمہاری ماں ہیں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٣٥٨‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٧١ ٢٣‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣١٦٦ )
حضرت ابراہیم کی طرف جھوٹ کی نسبت کی توجیہ اور دیگر مسائل
علامہ بدرالدین محمود بن احمد عینی حنفی متوفی ٨٥٥ ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
اس حدیث میں جن اقوال پر جھوٹ کا اطلاق فرمایا ہے وہ محض صوری اور ظاہری ہے ‘ حقیقت میں ان میں سے کوئی قول جھوٹ نہیں ہے۔ حضرت ابراہیم نے جو فرمایا تھا میں بیمار ہوں اس کا محمل یہ ہے کہ میں عنقریب بیمار ہوں گا کیونکہ ہر انسان پر کبھی نہ کبھی بیماری آتی ہے ‘ اور انہوں نے بتوں کو توڑ نے کی نسبت بڑے بت کی طرف کی تھی تو یہ سبب کی طرف نسبت ہے کیونکہ انہوں نے اس کی خدائی کو باطل کرنے کے سبب سے چھوٹے بتوں کو توڑا تھا تاکہ یہ ظاہر ہو کر اس کے سامنے ان تمام بتوں کو توڑ دیا گیا اور یہ ان کا دفاع نہیں کرسکا ‘ اور انہوں نے اپنی بیوی سارہ کو جو فرمایا تھا یہ میری بہن ہے اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ یہ میری دینی بہن ہے۔ اور فقہاء کا اتفاق ہے کہ اگر ظلم سے بچنا جھوٹ بولنے پر موقوف ہو تو جھوٹ بولنا جائز ہے بلکہ بعض صورتوں میں واجب ہے ‘ مثلاً کسی کے پاس کسی شخص کی امانت رکھی ہو اور ظالم اس امانت کو غصب کرنے کے لئے اس سے طلب کرے تو اس پر واجب ہے کہ وہ جھوٹ بول کر کہے مجھے پتا نہیں وہ کہاں رکھی ہے بلکہ وہ اس پر حلف بھی اٹھا لے۔ اس حدیث میں یہ دلیل بھی ہے کہ بیوی کو بہن کہنے سے نکاح پر اثر نہیں پڑتا اور طلاق واقع نہیں ہوتی لیکن بلا ضرورت بیو کو بہن کہنا یا بلا تاویل اس کو بہن کہنا جھوٹ ہے اور گناہ ہے۔ یہ ظالم بادشاہ مصر کے فراعنہ میں سے پہلا فرعون تھا اور بہت عرصہ تک زندہ رہا ‘ بعض احادیث میں ہے کہ جب اس نے بری نیت سے حضرت سارہ کی طرف ہاتھ بڑھایا تو وہ زمین میں دھنس گیا اور بعض روایات میں ہے کہ اس کا پورا ہاتھ سینہ تک سوکھ گیا تھا۔
ھاجَرَ سریانی لفظ ہے یہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی ماں ہیں ایک قول یہ ہے کہ ان کے والد قبط کے بادشاہوں میں سے تھے ان کا وطن مصر کا ایک علاقہ تھا جس کو حفن کہا جاتا ہے۔ اس ظالم نے حضرت سارہ کو ہدیہ میں حضرت ھاجربہ طور خادمہ دی اور انہوں نے قبول کیا اس سے معلوم ہا کہ مشرک سے ہدیہ قبول کرنا جائز ہے۔ بعض احادیث میں ہے کہ حضرت سارہ نے اس کے خلاف دعا کرنے سے پہلے وضو کر کے نماز پڑھی ‘ اس سے معلوم ہوا کہ پہلی امتوں میں بھی وضو کرنا مشروع تھا اور یہ کہ جب انسان پر کوئی ناگہانی آفت یا مصیبت آئے تو وہ نماز کی پناہ میں آئے ‘ اور یہ کہ جب انسان اخلاص کے ساتھ دعا کرے تو اللہ تعالیٰ قبول فرماتا ہے اور ظالم سے نجات دیتا ہے۔ اس حدیث میں حضرت سارہ کی کرامت کا ثبوت ہے۔ (عمدۃ القاری ج ٥ ١ ص ٣٤٥۔ ٣٤٢‘ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤٢٢ ھ)
حضرت لوط علیہ السلام کی ہجرت کے متعلق احادیث
حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت عثمان (رض) نے حضرت رقیہ بنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ حبشہ کی سرزمین کی طرف ہجرت کی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک ان کی خبر پہنچنے میں دیر ہوگئی ‘ پس قریش کی ایک عورت نے آپ کے پاس آکر کہا یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں نے آپ کے داماد کو ایک خاتون کے ساتھ دیکھا ہے ‘ آپ نے پوچھا کس حال میں دیکھا ؟ اس نے کہا میں نے ان کو ایک دراز گوش پر دیکھا جو سست رروی سے جارہا تھا تب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ ان کی رفاقت کو قائم رکھے بیشک حضرت لوط کے بعد حضرت عثمان پہلے شخص ہیں جنہوں نے اپنی اہلیہ کے ساتھ ہجرت کی۔ (دلائل النبوۃ ج ٢ ص ٢٩٧‘ المعجم الکبیر للطبر انی رقم الحدیث : ١٤٣‘ مجمع الزوائد ج ٩ ص ٨١۔ ٨٠)
حضرت زید بن ثابت (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عثمان ‘ رقیہ اور حضرت لوط کے درمیان کوئی مہاجر نہیں تھا ‘ یعنی حضرت عثمان اور رقیہ حبشہ کی طرف سب سے پہلے ہجرت کرنے والے تھے۔ (المعجم الکبیر للطبر انی رقم الحدیث : ٤٨٨١)
حافظ الہیثمی نے کہا اس کی سند میں ایک راوی عثمان بن خالد العثمانی متروک ہے ۔ مجمع الزواءد
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 29 العنكبوت آیت نمبر 26