أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَاِبۡرٰهِيۡمَ اِذۡ قَالَ لِقَوۡمِهِ اعۡبُدُوا اللّٰهَ وَاتَّقُوۡهُ‌ ؕ ذٰ لِكُمۡ خَيۡرٌ لَّـكُمۡ اِنۡ كُنۡـتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ۞

ترجمہ:

اور ابراہیم کو بھیجا جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا اللہ کی عبادت کرو اور اس سے ڈرتے رہو اور یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور ابراہیم کو بھیجا جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا اللہ کی عبادت کرو اور اس سے ڈرتے رہو یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو تم لوگ اللہ کو چھوڑ کر صرف بتوں کی عبادت کرتے ہو اور محض جھوٹ گھڑتے ہو ‘ بیشک تم لوگ اللہ کو چھوڑ کر جن کی عبادت کرتے ہو ‘ وہ تمہارے لئے رزق کے مالک نہیں ہیں ‘ سو تم اللہ سے رزق طلب کرو اور اس کا شکر ادا کرو ‘ تم اسی کی طرف لوٹائے جائو گے اور اگر تم تکذیب کرو تو تم سے پہلے کتنی ہی امتیں تکذیب کرچکی ہیں ‘ اور رسول کے ذمہ صرف صاف پیغام پہنچانے کے سوا اور کچھ نہیں ہے (العنکبوت : ١٨۔ ١٦)

اللہ تعالیٰ کے فرائض پر عمل کرنے اور اس کو سجدہ کرنے سے اس کا قرب حاصل ہونا۔

اس سے پہلی دو آیتوں میں حضرت نوح (علیہ السلام) کا اجمالی ذکر فرمایا تھا ‘ انہوں نے اپنی قوم کو تبلیغ کی اور اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچایا وہ مسلسل ساڑھے نوسو سال تک ان کو تبلیغ کرتے رہے اور جب اس کے بعد بھی ان کی قوم کے سرکش ظالموں نے اثر قبول نہیں کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر ایک عالم گیر طوفان کا عذاب بھیجا ‘ اس سے فراغت کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے قصہ کا اجمالی ذکر فرمایا : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو دو حکم دیئے ایک یہ کہ اللہ کی عبادت کرو ‘ دوسرا یہ کہ اس سے ڈرتے رہو ‘” اللہ کی عبادت کرو “ اس حکم میں اللہ تعالیٰ کی توحید کا اثبات ہے اور ” ڈرتے رہو “ میں اس کا شریک بنانے کی ممانعت ہے ‘ یا یہ کہ پہلے حکم میں فرائض اور واجبات پر عمل کرنے کا حکم ہے اور دوسرے حکم میں محرمات اور مکروہات کے ارتکاب کی ممانعت ہے۔

اور فرمایا یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے سے اس کا قرب حاصل ہوتا ہے قرآن مجید میں ہے واسجد واقترب (العلق : ١٩) اور ” سجدہ کر اور (اللہ کے) قریب ہوجا “ اور اللہ کے قریب ہونے سے بڑھ کر کون سا نفع ہے ! حدیث میں ہے :

ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : میرا بندہ کسی چیز سے میرا اتنا قرب حاصل نہیں کرتا جتنا زیادہ قرب میری فرض کی ہوئی چیزوں پر عمل کر کے حاصل کرتا ہے۔ (الحدیث) (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٥٠٢‘ مسند احمد ج ٦ ص ٢٥٦‘ مسند احمد رقم الحدیث ‘ ٢٦٠٧١‘ دارالحدیث ‘ قاہرہ ‘ مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ٨٧ ٢٠)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتا ہے جب وہ سجدہ میں ہوتا ہے ‘ سو تم بہ کثرت دعا کرو (یعنی سجدہ میں) (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٤٨٢‘ سنن ابودائو درقم الحدیث : ٨٧٥‘ سنن نسائی رقم الحدیث : ٧ ١١٣)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 29 العنكبوت آیت نمبر 16