وَقَالَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا لِلَّذِيۡنَ اٰمَنُوا اتَّبِعُوۡا سَبِيۡلَـنَا وَلۡـنَحۡمِلۡ خَطٰيٰكُمۡ ؕ وَمَا هُمۡ بِحٰمِلِيۡنَ مِنۡ خَطٰيٰهُمۡ مِّنۡ شَىۡءٍؕ اِنَّهُمۡ لَـكٰذِبُوۡنَ ۞- سورۃ نمبر 29 العنكبوت آیت نمبر 12
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَقَالَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا لِلَّذِيۡنَ اٰمَنُوا اتَّبِعُوۡا سَبِيۡلَـنَا وَلۡـنَحۡمِلۡ خَطٰيٰكُمۡ ؕ وَمَا هُمۡ بِحٰمِلِيۡنَ مِنۡ خَطٰيٰهُمۡ مِّنۡ شَىۡءٍؕ اِنَّهُمۡ لَـكٰذِبُوۡنَ ۞
ترجمہ:
اور کافروں نے ایمان والوں سے کہا تم ہمارے طریقہ کی پیروی کرو ہم تمہارے گناہوں کو اٹھا لیں گے ‘ حالانکہ وہ ان کے گناہوں میں سے کسی بھی چیز کو نہیں اٹھا سکیں گے ‘ بیشک وہ ضرور جھوٹے ہیں
دوسرے لوگوں کے حقوق ضائع کرنے یا ان پر ظلم کرنے کی وجہ سے ان کے گناہوں کا بوجھ اٹھانا۔
اور کافروں نے ایمان والوں سے کہا تم ہمارے طریقہ کی پیروی کرو ہم تمہارے گناہوں کو اٹھا لیں گے ‘ حالانکہ وہ ان کے گناہوں میں سے کسی بھی چیز کو نہیں اٹھا سکیں گے۔ الآیۃ (العنکبوت : ١٣۔ ١٢)
کفار کے اس قول کا معنیٰ یہ ہے اگر تم نے ہمارے عقائد کو اپنا لیا تو ہم تمہارے گناہوں کے بوجھ کو اٹھا لیں گے۔
مجاہد کہتے ہیں کہ مشرکین قریش نے مسلمانوں سے کہا ہم اور تم دونوں مرنے کے بعد زندہ نہیں کئے جائیں گے ‘ اگر تمہارے گناہ ہوئے تو وہ ہمارے ذمہ ہیں اور جو کام تمہارے اوپر واجب ہیں ان کے نہ کرنے کا بوجھ بھی ہمارے ذمہ ہوگا ‘ ایک روایت ہے کہ یہ کہنے والا ولید بن مغیرہ تھا۔
اللہ تعالیٰ نے ان کا رد کرتے ہوئے فرمایا : اور وہ ضرور اپنے بوجھ اٹھائیں گے اور اپنے بوجھوں کے ساتھ اور کئی بوجھ۔ اس آیت کی ایک تفسیر یہ ہے کہ جو شخص کسی کے گناہ کا سبب بنے گا۔ اس پر اس کے گناہ کا بوجھ ڈال دیا جائے گا۔
امام عبدالرحمان بن محمد بن ادریس ابن ابی حاتم متوفی ٣٢٧ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت ابو امامہ باھلی (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ کا پیغام پہنچایا پھر فرمایا تم ظلم کرنے سے بچو ‘ کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ قیامت کے دن قسم کھا کر فرمائے گا : مجھے اپنی عزت کی قسم ! آج کوئی شخص ظلم کی سزا پائے بغیر نہیں رہے گا ‘ پھر ایک منادی ندا کرے گا فلاں بن فلاں کہاں ہے ؟ وہ اپنی نیکیوں سمیت آئے گا اس کی نیکیاں پہاڑوں کی طرح ہوں گی لوگ نظریں اونچی کر کے اس کی طرف دیکھیں گے ‘ حتیٰ کہ وہ اللہ کے سامنے کھڑا ہوجائے گا ‘ پھر منادی یہ اعلان کرے گا جس شخص کے حقوق اس کے ذمہ ہوں یا اس شخص نے جس پر ظلم کیا ہو وہ بدلہ لینے کے لئے آجائے پھر لوگو رحمن کے سامنے آکر کھڑے ہوجائیں گے ‘ پھر رحمان فرمائے گا میرے اس بندہ سے اپنے حقوق لے لو ‘ لوگ کہیں گے ہم اس سے کس طرح حقوق لیں ‘ اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا اس کی نیکیاں لے لو ‘ لوگ اس کی نیکیاں لینا شروع کردیں گے، حتیٰ کہ اس کی ایک نیکی بھی نہیں رہے گی ‘ اور ابھی بدلہ لینے والے باقی ہوں گے ‘ اللہ تعالیٰ فرمائے گا اس سے اپنا حق لے لو ‘ لوگ کہیں گے اس کی تو اب ایک نیکی بھی نہیں رہی ہے ‘ اللہ تعالیٰ فرمائے گا اپنے اپنے گناہ اس کے اوپر لاد دو ‘ پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت سے استدلال کیا : اور وہ ضرور اپنے بوجھ اٹھائیں گے اور اپنے بوجھوں کے ساتھ اور کئی بوجھ۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث : ٧١٨٧ ١‘ مکہ مکرمہ ‘ ١٤١ ھ ‘ تفسیر ابن کثیر ج ٣ ص ٤٤٦۔ ٤٤٥‘ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٩ ھ)
جو شخص کسی گناہ کا سبب بنے گا اس پر لوگوں کے اس گناہ کا بوجھ ڈال دیا جائے گا۔
قتادہ نے اس آیت کی تفسیر میں کہا : جس نے کسی قوم کو گمراہی کی طرف بلایا اس کے اوپر اس قوم کے گناہ لاد دیئے جائیں گے اور اس قوم کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث : ١٧١٨٩‘ الکثف والبیان لثعلبی ج ٧ ص ٢٧٤‘ بیروت ‘ ١٤٢٢ ھ)
حضرت معاذ بن جبل (رض) بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بیشک مومن سے قیامت کے دن اس کی تمام باتوں کے متعلق سوال کیا جائے گا ‘ حتی کہ اس کی آنکھوں کے سرمہ کے متعلق بھی سوال کیا جائے گا اور اس نے انگلی سے کسی کی مٹی جو کھرچی ہوگی اس کے متعلق بھی سوال کیا جائے گا ‘ سوائے معاذ ! میں قیامت کے دن تمہیں اس حال میں نہ پائوں کہ کوئی شخص تم سے ان نیک اعمال کے لینے میں کامیاب نہ ہوجائے جو تم کو اللہ نے عطا کئے ہیں۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث : ١٧٩٠‘ مکتبہ نزار مصطفیٰ مکہ مکرمہ ‘ تفسیر ابن کثیرج ٣ ص ٤٤٦‘ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٩ ھ)
ان احادیث کی تصدیق اس حدیث صحیح میں ہے :
حضرت جریر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم دن کے ابتدائی حصہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے ‘ اچانک آپ کے پاس چند لوگ آئے ‘ جن کے پیر ننگے ‘ بدن ننگے ‘ گلے میں چمڑے کی کفنیاں یا عبائیں تھیں اور وہ تلواریں لٹکائے ہوئے تھے ‘ ان میں سے اکثر بلکہ سب کا تعلق قبیلہ مضر سے تھا ‘ ان کا فقر و فاقہ دیکھ کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا چہرہ مبارک متغیر ہوگیا ‘ آپ اندر گئے ‘ پھر باہر آئے ‘ پھر آپ نے بلال کو اذان اور اقامت کا حکم دیا ‘ آپ نے نماز پڑھائی ‘ پھر خطبہ دیا اور یہ آیت پڑھی :
اے لوگو ! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا ‘ اور اسی سے اس کی بیوی پیدا کی ‘ اور ان سے بہت مردوں اور عورتوں کو پھیلا دیا ‘ اور اللہ سے ڈرو جس سے تم سوال کرتے ہو ‘ اور رشتوں کو توڑنے سے بچو ‘ بیشک اللہ تم پر نگہبان ہے۔ (النساء : ١)
پھر آپ نے یہ آیت پڑھی ہے :
اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور غور کرو کہ تم نے کل (قیامت کے دن) کے لئے کیا (نیک عمل) بھیجا ہے۔الحشر ۱۸
کوئی شخص دینار اور درہم اور کپڑا اور ایک صاع (چارکلو گرام) گندم اور ایک صاع کھجوروں کا صدقہ کرے خواہ وہ کھجور کا ایک ٹکڑاہی ہو ‘ پھر انصار میں سے ایک شخص وزنی تھیلی اٹھا کر لایا جس کو اس نے بہ مشکل اٹھایا ہوا تھا ‘ پھر لگاتا رلوگ آکر صدقہ کرنے لگے ‘ حتی کہ میں نے کپڑے اور طعام کے دو ڈھیر دیکھے ‘ حتی کہ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا چہرہ ( خوشی سے) سونے کی طرح چمک رہا تھا تب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے اسلام میں کوئی نیک طریقہ ایجاد کیا اس کے لئے اس کا اجر ہوگا ‘ اور جو لوگ اس کے بعد اس پر عمل کریں گے ‘ ان کا بھی اجر ہوگا بغیر اس کے کہ ان کے اجور میں کوئی کمی ہو ‘ اور جو اسلام میں کوئی برا طریقہ ایجاد کرے گا ‘ اس کا گناہ اس پر بھی ہوگا اور جو لوگ اس کے بعد اس پر عمل کریں گے ‘ ان کا گناہ بھی اس پر ہوگا ‘ بغیر اس کے کہ ان کے گناہوں میں کوئی کمی ہو۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٠١٧‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٠٧٥‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ٢٥٥٤‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٠٣‘ مسند احمد ج ٤ ص ٣٥٧)
اور اس کی تصدیق اس حدیث میں بھی ہے :
حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص کو بھی ظلما قتل کیا جائے گا اس کے گناہ کے بوجھ کا ایک حصہ حضرت آدم کے پہلے بیٹے پر بھی ہوگا کیونکہ یہ پہلا شخص تھا جس نے گناہ کا طریقہ ایجاد کیا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٣٣٥‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٦١٧‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٦٧٣‘ سنن نسائی رقم الحدیث : ٣٩٨٥)
علامہ بدر الدین محمود بن احمد عینی متوفی ٨٥٥ ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
حضرت آدم کا پہلا بیٹا قابیل تھا جس نے ان کے دوسرے بیٹے ہابیل کو اس حسد سے قتل کردیا تھا کہ ھا بیل کی قربانی قبول ہوگئی تھی اور اس کی قربانی قبول نہیں ہوئی تھی ‘ اس نے پہلا قتل کیا تھا اور بعد کے لوگوں کو قتل کرنے کے طریقہ کی رہ نمائی کی تھی اس لئے بعد کے لوگوں کے قتل کرنے کا وہ سبب بنا ‘ اور جب کوئی شخص کسی شخص کے گناہ کا سبب بنے تو وہ بھی ان کے گناہوں میں حصہ دار ہوتا ہے۔ یہ حدیث قواعد اسلام کے مطابق ہے کہ جو شخص اسلام میں کوئی برا طریقہ ایجاد کرے گا۔ الحدیث۔ (عمدۃ القاری ج ٨ ص ١٠٤‘ ج ١٥ ص ٢٩٥‘ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ ‘ بیروت ١٤٢١ ھ)
پس العنکبوت : ١٣ میں جو فرمایا ہے کہ اور وہ ضرور اپنے بوجھ اٹھائیں گے اور اپنے بوجھوں کے ساتھ اور کئی بوجھ۔ اس کا محمل یہ ہے کہ مشرکین پر اپنے شرک اور گناہوں کا بھی بوجھ ہوگا اور ان کے سبب سے جن لوگوں نے شرک کیا اور دیگر گناہ کئے ان کے گناہوں کا بھی بوجھ ہوگا۔
القرآن – سورۃ نمبر 29 العنكبوت آیت نمبر 12
[…] تفسیر […]