وَلَمَّا جَآءَتۡ رُسُلُنَاۤ اِبۡرٰهِيۡمَ بِالۡبُشۡرٰىۙ قَالُـوۡۤا اِنَّا مُهۡلِكُوۡۤا اَهۡلِ هٰذِهِ الۡقَرۡيَةِ ۚ اِنَّ اَهۡلَهَا كَانُوۡا ظٰلِمِيۡنَ ۞- سورۃ نمبر 29 العنكبوت آیت نمبر 31
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَلَمَّا جَآءَتۡ رُسُلُنَاۤ اِبۡرٰهِيۡمَ بِالۡبُشۡرٰىۙ قَالُـوۡۤا اِنَّا مُهۡلِكُوۡۤا اَهۡلِ هٰذِهِ الۡقَرۡيَةِ ۚ اِنَّ اَهۡلَهَا كَانُوۡا ظٰلِمِيۡنَ ۞
ترجمہ:
اور جب ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس بشارت لے آئے ‘ تو انہوں نے کہا ہم بیشک اس بستی والوں کو ہلاک کرنے والے ہیں ‘ یقینا اس بستی والے ظلم کرنے والے ہیں
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور جب ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس بشارت لے کر آئے تو انہوں نے کہا ہم بیشک اس بستی والوں کو ہلاک کرنے والے ہیں یقیناً اس بستی والے ظلم کرنے والے ہیں ابراہیم نے کہا بیشک اس بستی میں لوط ( بھی) ہیں ‘ فرشتوں نے کہا ہم ان کو خوب جانتے ہیں جو اس بستی میں ہیں ‘ ہم لوط کو اور ان کے گھر والوں کو ضرور بچالیں گے سوا ان کی بیوی کے وہ (عذاب میں) باقی رہنے والوں میں سے ہے اور جب ہمارے فرشتے لوط کے پاس پہنچے تو ان کو فرشتوں کا آنا ناگوار گزرا ‘ اور ان کی وجہ سے ان کا دل تنگ ہوا ‘ فرشتوں نے کہا آپ نہ خوف کریں اور نہ غمگین ہوں ‘ یقیناً ہم آپ کو اور آپ کے گھر والوں کو (عذاب سے) بچانے والے ہیں سوا آپ کی بیوی کے وہ (عذاب میں) باقی رہنے والوں میں سے ہے بیشک ہم اس بستی والوں پر آسمان سے عذاب نازل کرنے والے ہیں کیونکہ وہ اللہ کی نافرمانی کرتے تھے بیشک ہم نے اس بستی کے بعض آثار کو عقل والوں کے لئے عبرت کی واضح نشانی بنا کر چھوڑ دیا (العنکبوت : ٣٥۔ ٣١)
قوم لوط پر نزول عذاب کا پس منظر و پیش منظر
وہ فرشتے حضرت ابراہیم کے پاس حضرت سارہ کے بطن سے بیٹا پیدا ہونے کی بشارت لے کر آئے تھے ‘ اثناء گفتگو میں انہوں نے حضرت ابراہیم سے کہا ہم اس بستی والوں کو ہلاک کرنے والے ہیں ‘ اس بستی کا نام سدوم تھا ‘ اور یہ قوم لوط کی بستیوں میں سب سے بڑی بستی تھی اور مردم پرستی اور مردوں کے ساتھ بےحیائی کا سب سے پہلے اسی بستی میں ظہور ہوا تھا ‘ فرشتوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے اس بستی کی طرف اشارہ کر کے کہا تھا کہ ہم ابس بستی کو ہلاک کرنے والے ہیں اس میں یہ اشارہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بستی اس بستی کے نزدیک تھی۔
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا بیشک اس بستی میں لوط (بھی) ہیں ‘ یہ ان کی حضرت لوط پر کمال شفقت تھی ‘ وہ یہ جاننا چاہتے تھے کہ نز ول عذاب کے وقت حضرت لوط اسی بستی میں ہوں گے یا پہلے ان کو اس بستی سے نکال لیا جائے گا پھر اس بستی پر عذاب نازل کیا جائے گا۔
اس بستی والوں سے مراد وہ لوگ تھے جو اس بستی میں پیدا ہوئے تھے اور حضرت لوط اور ان کے گھر والے دوسرے علاقہ سے آکر اس بستی میں رہائش پذیر ہوئے تھے اور جو لوگ حضرت لوط (علیہ السلام) پر ایمان لے آئے تھے وہ بھی ان کے اہل اور گھر والوں میں شامل تھے۔
قوم لوط نے حضرت لوط (علیہ السلام) کو منع کیا تھا کہ وہ کسی مہمان کو اپنے گھر میں نہ ٹھہرائیں اور جب فرشتے خوب صورت لڑکوں کی شکل میں ان کے ہاں بہ طور مہمان آگئے تو حضرت لوط (علیہ السلام) پریشان ہوگئے ‘ ادھر ان کی قوم کے لوگوں کو پتا چل گیا کہ حضرت لوط (علیہ السلام) کے گھر خوب صورت بےریش لڑکے آئے ہیں انہوں نے حضرت لوط (علیہ السلام) کے گھر دھاوا بول دیا۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نے کہا یہ میری قوم کی بیٹیاں ہیں تم ان سے نکاح کر کے اپنی خواہش پوری کرلو مگر ان کی قوم اپنے مطالبہ پر بضد رہی ‘ تب فرشتوں نے حضرت لوط سے کہا : ہم اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں آپ ہمارے متعلق پریشان نہ ہوں یہ لوگ ہم تک نہیں پہنچ سکتے ‘ فرشتوں نے حضرت لوط سے کہا آپ رات کے کسی حضہ میں اپنے گھر والوں کو لے کر اس بستی سے نکل جائیں ‘ ماسوا آپ کی بیوی کے کیونکہ وہ کافرہ ہے۔ ادھر وہ لوگ دروازہ توڑ کر گھر کے اندر داخل ہوگئے فرشتوں نے ان پر اپنے پر مارے تو وہ ادھے ہوگئے اور چیختے چلاتے ہوئے دروازے سے باہر نکل گئے اور جیسے ہی صبح ہوئی تو ان کو عذاب نے آلیا۔
اللہ تعالیٰ نے جبریل کو حکم دیا انہوں نے اپنا پر اس بستی کے نیچے داخل کیا اور اس زمین کو اکھاڑ کر بلند کیا حتیٰ کہ آسمان والوں نے کتوں اور مرغوں کی چیخ و پکار کو سنا پھر انہوں نے بلندی سے اس زمین کو پلٹ دیا اور ان پر پھروں اور کنکریوں کو برسایا۔ زمین کو ان کے اوپر اس لئے پلٹ دیا کیونکہ یہ بھی شہوت رانی کے وقت لڑکوں کو پلٹ دیتے تھے اور ان پر کنکریاں اس لئے برسائیں کیونکہ یہ بھی لوگوں کو کنکر ماتے تھے ‘ اور فرمایا بیشک ہم نے اس بستی کے بعض آثار کو عقل والوں کے لئے (عبرت کی) واضح نشانی بنا کر چھوڑ دیا۔ حضرت ابن عباس (رض) نے کہا اس سے مراد ان کے ویران اور اوندھے گرے ہوئے مکانوں کے کھنڈرات ہیں ‘ مجاہد نے کہا اس سے مراد سیاہ پانی ہے جو زمین میں نکل آیا تھا ‘ قتادہ نے کہا اس سے مراد ان پر برسائے ہوئے پتھر ہیں اور اس امت کے بعض متقد میں کو وہ پتھر ملے بھی تھے ‘ ابو سلیمان الدمشقی نے کہا اب بھی ان کے گھروں کی بنیادیں اوپر ہیں اور چھتیں نیچے ہیں۔
آیا جنت میں عمل قوم لوط ہوگا یا نہیں ؟
ان آیات میں عمل قوم لوط کی قباحت اور مذمت ہے اور اس پر اجماع ہے کہ یہ گناہ کبیرہ ہے ‘ اور اس کی بھی تصریح ہے کہ اس کی حرمت زنا سے زیادہ ہے ‘ شرح المشارق میں مذکور ہے کہ یہ عمل عقلاً شرعاً اور طبعاً حرام ہے ‘ امام ابوحنیفہ کے نزدیک اس پر حد اس لئے واجب نہیں ہے کہ ان کو اس پر دلیل نہیں ملی ‘ یہ وجہ نہیں ہے کہ ان کے نزدیک یہ زنا سے کم گناہ ہے اور بعض علماء نے کہا کہ اس پر تغلیظاً حد نہیں ہے کیونکہ حد گناہوں سے پاکر دیتی ہے۔
اس میں اختلاف ہے کہ جنت میں یہ فعل ہوگا یا نہیں ؟ علامہ ابن عمام متوفی ٨٦١ ھ نے کہا اگر اس کی حرمت عقلاً اور شرعاً ہے تو یہ فعل جنت میں نہیں ہوگا اور اگر اس کی حرمت فقط شرعاً ہو تو پھر یہ فعل جنت میں ہوسکتا ہے ‘ اور صحیح یہ ہے کہ یہ فعل جنت میں نہیں ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو مستبعد اور قبیح قرار دیا ہے اور قرآن مجید میں ہے :
بے شک تم بےحیائی کا کام کرتے ہو جو تم سے پہلے جہان والوں میں سے کسی نہیں کیا۔ (العنکبوت : ٢٨)
اور اللہ تعالیٰ نے اس فعل کو خبیث فرمایا : (الانبیاء : ٧٤)
اس بستی کے لوگ خبیث کام کرتے تھے اور جنت خبیث کاموں سے منزہ ہے۔ (فتح القدیر ج ٥ ص ٢٥٠‘ مطبوعہ دار الفکر بیروت ‘ ١٤١٥ ھ)
علامہ حموی نے اس دلیل پر اعتراض کیا ہے کہ کسی چیز کا بیث ہونا اس کو مستلزم نہیں ہے کہ جنت میں اس کا وجود نہ ہو ‘ کیا تم نہیں دیکھتے کہ خمر (انگور کی شراب) دنیا میں ام الخبائث ہے اس کے باوجود خمر جنت میں ملے گی ‘ اور اس میں بحث ہے کیونکہ خمر کا خبث دنیا میں اس وجہ سے ہے کہ وہ عقل کو زائل کردیتی ہے اور عقل ہی ہر برے کام سے روکتی ہے اور جنت کی خمر میں یہ وصف نہیں ہوگا اور قوم لوط کا یہ فعل اس طرح نہیں ہے۔
جنت میں اس فعل کے عدم وقوع یر علامہ آلوسی کے دلائل
الفتوحات المکیہ میں یہ لکھا ہوا کہا ہل جنت کی صفت یہ ہے کہ ان کی دُبُر (سرین) نہیں ہوگی کیونکہ دُبُر پاخانہ نکلنے کا راستہ ہے اور جنت نجس چیزوں کا محل نہیں ہے ‘ اس بناء پر جنت میں اس فعل کا نہ ہونا بالکل ظاہر ہے ‘ اور میرا گمان نہیں ہے کہ کوئی سچا اور غیور آدمی جنت میں یہ فعل چھپ کر یا ظاہراً کروائے گا ‘ اور اگر اس فعل کے وقوع کو ممکن مانا جائے تو یہ اس کو مستلزم ہے کہ کوئی غیور شخص خوشی سے تو یہ فعل کرائے گا نہیں اور جنت میں کسی پر جبر ہو نہیں سکتا ‘ ہرچند کہ یہ جنت میں اس فعل کے عدم وقوع پر قطعی دلیل نہیں ہے مگر اس سے عدم وقوع کا قول مستحکم ہوتا ہے۔ (روح المعانی جز ٢٠ ص ٢٣٤ ‘۔ ٢٣٣‘ مطبوعہ دار الفکر بیروت ‘ ١٤١٧ ھ)
جنت میں اس فعل کے عدم وقوع پر مصنف کے دلائل
میں کہتا ہوں کہ جنت میں اس فعل کے عدم وقوع کی قطعی دلیل یہ ہے کہ یہ فعل ناجائز اور حرام ہے اور تمام ناجائز اور حرام کاموں کی تحریک اور ترغیب شیطان کی طرف سے ہوتی ہے اور وہ لعین اس وقت دوزخ میں ہوگا ‘ اور اگر یہ کہا جائے کہ قرآن مجید میں ہے : اور جنت میں تم کو ہر وہ چیز ملے گی جس کی تم خواہش کرو گے اور جس کو تم طلب کرو گے (حم السجدۃ : ٣١)
اس کا جواب یہ ہے کہ اس قبیح اور غیر فطری فعل کی خواہش فساق اور فجار کرتے ہیں اور جنت میں فساق اور فجار نہیں ہوں گے بلکہ پاک صاف اور نیک لوگ ہوں گے ‘ اور دوسرا جواب یہ ہے کہ یہ آیت اپنے عموم پر نہیں ہے بلکہ اس کا معنیٰ یہ ہے کہ ان کی ہر جائز خواہش اور ہر جائز طلب پوری کی جائے گی ‘ اور اگر اس کو عموم پر محمول کیا جائے کہ ان کی ہر خواہش پوری ہوگی خواہ جائز ہو یا ناجائز تو اگر بالفرض کوئی شخص یہ خواہش کرے کہ جنت میں اس کا مقام نبی کے مقام سے بڑھ کر ہو یا یہ خواہش کرے کہ اولیاء اور انبیاء کی ازواج مطہرات اس کو مہیا کی جائیں (العیاذ باللہ) تو کیا اس کی ناپاک خواہشیں پوری کی جائیں گی ‘ اس ماننا پڑے گا کہ جنت میں صرف جائز خواہش پوری کی جائے اور یہ فعل جائز نہیں ہے بلکہ ناجائز اور حرام ہے اس لئے اولاً تو یہ ناجائز خواہش کسی کے دل میں پیدا نہیں ہوگی اور ثانیاً بالفرض اگر کسی کے دل میں یہ خواہش پیدا ہو بھی تو اس کو پورا نہیں کیا جائے گا اور یہ جنت میں اس فعل کے عدم وقوع کی قطعی دلیل ہے۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 29 العنكبوت آیت نمبر 31
[…] تفسیر […]
[…] تفسیر […]
[…] تفسیر […]
[…] تفسیر […]