وَمَا كُنۡتَ تَـتۡلُوۡا مِنۡ قَبۡلِهٖ مِنۡ كِتٰبٍ وَّلَا تَخُطُّهٗ بِيَمِيۡنِكَ اِذًا لَّارۡتَابَ الۡمُبۡطِلُوۡنَ ۞- سورۃ نمبر 29 العنكبوت آیت نمبر 48
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَمَا كُنۡتَ تَـتۡلُوۡا مِنۡ قَبۡلِهٖ مِنۡ كِتٰبٍ وَّلَا تَخُطُّهٗ بِيَمِيۡنِكَ اِذًا لَّارۡتَابَ الۡمُبۡطِلُوۡنَ ۞
ترجمہ:
اور آپ نزول قرآن سے پہلے کوئی کتاب نہیں پڑھتے تھے اور نہ ہی اس سے پہلے اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے ورنہ باطل پرست شک میں پڑجاتے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور آپ نزول قرآن سے پہلے کوئی کتاب نہیں پڑھتے تھے اور نہ ہی اس سے پہلے آپ اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے ورنہ باطل پرست شک میں پڑجاتے بلکہ یہ ان لوگوں کے سینہ میں واضح آیتیں ہیں جن کو علم دیا گیا ہے ‘ اور ظالموں کے سوا کوئی ہماری آیتوں کا انکار نہیں کرتا (العنکبوت : ٤٩۔ ٨ ٤)
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لکھنے اور پڑھنے کا ثبوت اور یہ آپ کے امی ہونے کے منافی نہیں ہے۔
یعنی اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ نزول قرآن سے پہلے نہ پڑھتے تھے نہ لکھتے تھے اور نہ علماء اہل کتاب کی مجلس میں بیٹھتے تھے جس سے آپ پہلی امتوں کی خبریں سن لیتے ‘ بلکہ آپ نے جو قرآن مجید لوگوں کے سامنے پش کیا یہ اللہ کا کلام ہے جو آپ پر نازل کیا گیا ہے ‘ اور اگر آپ پہلے سے لکھتے پڑھتے ہوتے تو باطل پرست ثبہ میں پڑجاتے ‘ مشرکین کہتے کہ انہوں نے انبیاء سابقین کی جو خبریں بیان کی ہیں وہ انہوں نے تورات میں پژھ لی ہیں غیب کی خبریں نہیں ہیں اور ان پر اللہ کا کلام نازل نہیں ہوا ‘ اور اہل کتاب یہ کہتے کہ ہماری کتاب میں جس آخری نبی کی پیش گوئی کی ہے وہ امی ہے اور یہ تو پڑھے لکھے ہیں۔ تاہم محققین نے یہ کہا ہے کہ اس آیت میں یہ قید ہے کہ آپ نزول قرآن سے پہلے پڑھتے اور لکھتے نہیں تھے اور نزول قرآن کے بعد جو آپ نے لکھا یا پڑھا وہ اس آیت کے خلاف نہیں ہے بلکہ کسی مخلوق سے پڑھنا لکھنا سیکھے بغیر آپ کا لکھنا اور پر ھنا ایک الگ معجزہ ہے۔
ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لکھنے اور پڑھنے کے ثبوت میں متعدد احادیث ہیں ان میں سے ایک صریح اور واضح حدیث یہ ہے :۔
حضرت براء بن عازب (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حدیبیہ میں حضرت علی (رض) کو صلح کی شرائط لکھنے کا حکم دیا اور یہ لکھوایا بسم اللہ الرحمن الرحیم یہ وہ شرائط ہیں جن پر محمد رسول اللہ نے صلح کی ‘ مشرکین نے اعتراض کیا کہ اگر ہمیں یقین ہوتا کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو ہم آپ کی پیروی کرتے لیکن آپ محمد بن عبداللہ لکھیں ‘ آپ نے حضرت علی کو حکم دیا کہ آپ اس کو مٹا دیں ‘ حضرت علی نے کہا نہیں ‘ اللہ کی قسم ! میں اس کو نہیں مٹائوں گا ‘ تب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھے دکھائو یہ کہاں ہے ‘ حضرت علی نے وہ جگہ دکھائی تو آپ نے اس کو مٹا دیا اور ابن عبداللہ لکھ دیا۔(صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٧٨٣‘ صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٦٩٨‘ سنن ابو دائود رقم الحدیث : ١٨٣٢)
قاضی عیاض بن موسیٰ اندلسی متوفی ٥٤٤ ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :۔
ان الفاظ سے بعض علماء نے یہ استدلال کیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ہاتھ سے لکھا تھا کیونکہ امام بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ آپ اچھی طرح نہیں لکھتے تھے پس آپ نے لکھ دیا۔ ( صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٤٥١) اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے ہاتھوں پر اس لکھنے کو جاری کردیا ‘ آپ کو علم نہیں تھا کہ کیا لکھنا ہے اور قلم نے لکھ دیا یا اس وقت اللہ سبحانہ نے آپ کو لکھنا سکھا دیا حتیٰ کہ آپ نے لکھ دیا اور یہ آپ کا زائد معجزہ ہے کہ آپ نے امی ہونے کے باوجود لکھ دیا ‘ سو جس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان چیزوں کا علم عطا کیا جن کو آپ نہیں جانتے تھے اور آپ سے اس چیز کو پڑھوایا جس کو آپ نے نہیں پڑھا تھا ‘ اور ان چیزوں کی تلاوت کرائی جن کی آپ نے تلاوت نہیں کی تھی اسی طرح آپ کو لکھنا سکھایا جب کہ پہلے آپ نے نہیں لکھا تھا ‘ اور اعلان نبوت کے بعد لکھنے کو آپ کے ہاتھوں پر جاری کردیا اور یہ آپ کے امی ہونے کے خلاف نہیں ہے ‘ اور انہوں نے شعبی اور بعض متقد میں کے اقوال سے استدلال کیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب تک لکھا نہیں آپ فوت نہیں ہوئے ‘ علامہ باجی کا یہی مذہب ہے اور اس کو انہوں نے شیبانی اور ابوذر وغیرہ ھما سے نقل کیا ہے۔
اکثر علماء نے اس تقریر پر اس آیت سے اعتراض کیا ہے اور آپ نزول قرآن سے پہلے کوئی کتاب نہیں پڑھتے تھے اور نہ ہی اس سے پہلے آپ لکھتے تھے ‘ ورنہ باطل پرست شک میں پڑجاتے (العنکبوت : ٤٨) اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے ہم امی امت ہیں نہ لکھتے ہیں اور نہ حساب کرتے ہیں (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٩١٣‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٠٨٠) انہوں نے یہ زعم کیا کہ اگر آپ کے لکھنے کو مان لیا جائے تو آپ کے امی ہونے کا معجزہ باطل ہوجائے گا۔ اور علامہ باجی اور ان کے موافقین نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ آپ نے اللہ تعالیٰ کی تعلیم سے پہلے لکھا ہے نہ تلاوت کی ہے ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :“ نزول قرآن سے پہلے “ پھر جس طرح نزول قرآن کے بعد آپ کا تلاوت کرنا جائز ہے اسی طرح نزول قرآن کے بعد آپ کا لکھنا بھی جائز ہے اور یہ آپ کے امی ہونے کے خلاف نہیں ہے کیونکہ آپ کا صرف امی ہونا معجزہ نہیں ہے بلکہ معجزہ یہ ہے کہ پہلے آپ امی تھے پھر آپ نے علوم کثیرہ بیان فرمائے جن کو امی لوگ نہیں جانتے ‘ پس جس طرح آپ کا ان علوم کو بیان کرنا آپ کے امی ہونے کے منافی نہیں ہے اسی طرح آپ کا لکھنا بھی آپ کے امی ہونے کے مناقض نہیں ہے ‘ بلکہ یہ ایک زائد معجزہ ہے اور بخاری کی حدیث میں آپ کی طرف لکھنے کا اسناد ہے اور اس کو مجاز پر محمول کرنا اور یہ کہنا کہ آپ نے لکھنے کا حکم دیا تھا بلا ضرورت ظاہر سے عدول کرنا ہے۔ صاکمال المعلم بفوائد مسلم ج ٦ ص ١٥٢۔ ١٥١ مطبوعہ دارالوفاء بیروت ‘ ١٤١٩ ھ)
علامہ یحییٰ بن شرف نووی شافعی متوفی ٦٧٦ ھ نے قاضی عیاض مالکی کی اس پوری عبارت کو نقل کر کے برقرار رکھا ہے۔ صحیح مسلم بشرح النوادی ج ٨ ص ٤٩٦٦۔ ٤٩٦٥‘ مکتبہ نزار مصطفیٰ مکہ مکرمہ ‘ ١٤١٧ ھ)
ہم نے یہاں پر اختصاراً لکھا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نزول قرآن کے بعد لکھنا پڑھنا ثابت ہے اور یہ آپ کے امی ہونے کے منافی نہیں ہے اور شرح صحیح مسلم ج ٥ ص ٤٤٦۔ ٤٣٣ میں اس کی زیادہ تفصیل اور تحقیق کی ہے اسی طرح ہم نے الاعراف : ١٥٧کی تفسیر میں بھی اس کی بہت زیادہ تحقیق کی ہے ‘ دیکھئے (تبیان القرآن ج ٤ ص ٦٨ ٣۔ ٣٥٧)
ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کی متعدد آیات کے مصداق ہیں۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا : بلکہ یہ ان لوگوں کے سینہ میں واضح آیتیں ہیں جن کو علم دیا گیا ہے ‘ اور ظالموں کے سوا کوئی ہماری آیتوں کا نکار نہیں کرتا۔ (العنکبوت : ٤٩ )
حسن بصری نے کہا اس امت کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے حفظ کرنے کی نعمت عطا کی ہے ‘ اس سے پہلی امتیں اپنی کتاب کو دیکھ کر پڑھتی تھیں ‘ اس وقت دنیا میں تورات ‘ انجیل اور زبور آسمانی کتابیں مختلف زبانوں میں موجود ہیں ‘ ہندئو وں کی وید بھی ہے لیکن کسی کتاب کا دنیا میں ایک بھی حافظ نہیں ہے یہ صرف قرآن مجید کی خصوصیت ہے کہ دنیا میں اس کے لاکھوں بلکہ کروڑوں حافظ موجود ہیں۔
یہ قرآن ان کے سینوں میں ہے جن کو علم دیا گیا ہے وہ حکماء اور علماء اور تفقہ میں انبیاء کی مثل ہیں ‘ جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے علماء انبیاء کے وارث ہیں ( کتاب العلم باب : ١٠) کافروں کے قول کے موافق یہ قرآن سحر یا شعر نہیں ہے بلکہ اس میں ایسی آیات ہیں جن سے اللہ کے دین اور اس کے احکام کی معرفت حاصل ہوتی ہے ‘ اور یہ قرآن اسی طرح اہل علم کے سینوں میں ہے جو سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب ہیں اور مومنین ہیں جو قرآن مجید کو حفظ کرتے ہیں اور اس کی قرأت کرتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کی صفت میں علم کا ذکر فرمایا کیونکہ وہ اپنے علم سے اللہ تعالیٰ کے کلام اور انسانوں اور شیاطین کے کلام میں فرق کرتے ہیں۔
حضرت ابن عباس نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا آیات بینات (واضح آیتوں) سے مراد سید نا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں یعنی اہل کتاب اپنی کتابوں میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات لکھی ہوئی پاتے ہیں کہ آپ نبی امی ہیں لیکن انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور ان آیتوں کو چھپالیا ‘ حضرت ابن مسعود (رض) نے فرمایا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آیات بینات کے مصداق ہیں آپ ایک آیت نہیں ہیں بلکہ آیات ہیں ‘ کیونکہ آپ میں اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کی ایک نشانی نہیں ہے بلکہ آپ کی ذات میں اللہ تعالیٰ کی بہ کثرت نشانیاں ہیں ‘ نیز آیات سے دین کے احکام کا علم ہوتا ہے اور آپ سے دین کے تمام احکام کا علم حاصل ہوا ‘ اور ایک قول یہ ہے کہ آپ صاحب آیات بینات ہیں اور اس کی وضاحت اس حدیث سے بھی ہوتی ہے :
حضرت قتادہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ (رض) سے عرض کیا : اے ام المومنین مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلق کے متعلق بتائیے۔ حضرت عائشہ نے فرمایا کیا تم قرآن نہیں پڑھتے میں نے کہا کیوں نہیں ! حضرت عائشہ نے فرمایا بیشک نبی اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خلق قرآن تھا۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٧٤٦‘ سنن ابو دائود رقم الحدیث : ١٣٤٢‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ١٦٠١)
اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ اگر قرآن مجید کے احکام پر عمل کو انسانی پیکر میں دیکھنا چاہو تو وہ پیکر مصطفیٰ ہے اور اگر سیرت مصطفیٰ کو نظم اور عبارت میں دیکھنا چاہو تو وہ متن قرآن ہے۔
وہ دانائے سبل ختم الرسل مولائے کل جس نے غبار راہ کو بخشا فروغِ وادیٔ سینا
نگاہ ِ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر وہی قرآں وہی فرقان وہی یٰس وہی طہٰ
لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب گنبد آب گینہ رنگ تیرے محیط میں حباب
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 29 العنكبوت آیت نمبر 48
[…] تفسیر […]