أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

يَسۡتَعۡجِلُوۡنَكَ بِالۡعَذَابِؕ وَ اِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِيۡطَةٌ ۢ بِالۡكٰفِرِيۡنَۙ ۞

ترجمہ:

یہ آپ سے عذاب کو جلد طلب کررہے ہیں ‘ اور (یہ مطمئن رہیں) یقیناً دوزخ کافروں کا احاطہ کرنے والی ہے

زمین پر دوزخ کے وجود کے متعلق روایات اور بحث و نظر :۔

اس کے بعد فرمایا : یہ آپ سے عذاب کو جلد طلب کررہے ہیں ( یہ مطمئن رہیں) دوزخ کافروں کا احاطہ کرنے والی ہے۔ (العنکبوت : ٥٤ )

امام ابن ابی حاتم اپنی سند کے ساتھ عکرمہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا جہنم سے مراد یہ سمندر ہے۔(تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث : ٧٣٩٣‘ الدرالمثو رج ٦ ص ٤١٨)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا جہنم یہی سبز رنگ کا سمندر ہوگا اسی میں ستارے ٹوٹ کر گریں گے اسی میں سورج اور چاند ہوں گے پحر اسی میں آگ بھڑکا دی جاِءے گی تو یہی جہنم ہوگا ۔ تفسیر امام ابن ابی حاتم 

حضرت یعلیٰ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سمندر ہی جہنم ہوگا ‘ ان سے کسی نے کہا کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : بیشک ہم نے ظالموں کے لئے ایسی آگ تیار کر رکھی ہے جس کی قناتیں انہیں گھیر لیں گی۔ (الکہف : ٢٩ )

حضرت یعلیٰ نے اس جواب میں ہا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے میں اس میں ہرگز داخل نہیں ہوں گا ‘ حتیٰ کہ میں اللہ عزوجل کے سامنے پیش کیا جائوں اور جب تک میں اللہ کے سامنے پیش نہ کیا جائوں مجھے اس آگ کے سمندر کا ایک قطرہ بھی نہیں پہنچے گا۔ (مسند احمد ج ٤ ص ٢٣ طبع قدیم ‘ مسند احمد رقم الحدیث : ٧٨٨٣‘ دارالحدیث قاہرہ ‘ ١٤١٦ ھ)

حافظ ابن کثیر نے اس حدیث کے متعلق لکھا ہے یہ بہت غریب ہے اور حضرت یعلیٰ نے جو اس کی تفسیر کی ہے وہ بھی بہت غریب ہے۔ (تفسیر ابن کثیر ج ٣ ص ٤٥٩‘ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٩ ھ)

حافظ زین نے مسند احمد کے حاشیہ میں لکھا ہے اس حدیث کی سند ضعیف ہے اور حافظ الہیشمی نے لکھا ہے کہ اس کے رجال موثق ہیں یعنی اس کے راوی قوی ہیں۔ (مجمع الزوائد ج ١٠ ص ٣٨٦‘ دارالکتاب العربی ‘ ١٤٠٢ ھ)

امام ابوبکر احمد بن حسین بیہقی متوفی ٤٥٨ ھ نے بھی اس حدیث کو اپنی سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔

(سنن کبریٰ ج ٤ ص ٣٣٤‘ مطبوعہ ملتان)

نیز امام بیہقی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :

حضرت عبداللہ بن عمرورضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا حج ‘ عمرہ یا جہاد کے سوا سمندر میں سفر نہ کیا جائے کیونکہ سمندر کے نیچے آگ ہے اور آگ کے نیچے سمندر ہے۔

اس حدیث کی سند میں ایک راوی بشیر بن مسلم ہے ‘ امام محمد بن اسماعیل بخاری نے اس کے متعلق فرمایا کہ اس کی یہ حدیث صحیح نہیں ہے (یعنی ضعیف ہے) حضرت عبداللہ بن عمرورضی اللہ عنہما نے کہا سمندر کا پانی وضو یا غسل جنابت کے لئے کافی نہیں ہے سمندر کے نیچے آگ ہے ‘ پھر پانی ہے پھر آگ ہے ‘ سات سمندر اور سات آگ ہیں۔ (سنن کبریٰ ج ٤ ص ٣٣٤‘ مطبوعہ ملتان)

بشیر بن مسلم کی روایت کو امام ابودائود نے بھی اپنی سنن میں روایت کیا ہے۔ (سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٢٤٨٩)

حافظ زکی الدین عبدالعظیم بن عبدالقوی المتوفی ٣٨٨ ھ لکھتے ہیں :

امام شافعی نے فرمایا اس حدیث کی سند ضعیف ہے ‘ سمندر کے نیچے آگ ہونے کی تاویل یہ ہے کہ اس میں سفر کرنے والا آفات اور مصائب سے مامون نہیں ہے اور قریب ہے کہ وہ آگ میں جل جائے۔ (معالم السنن مع مختصر سنن ابودائود ج ٣ ص ٣٥٩ دارالمعروفۃ ‘ بیروت)

علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ نے بھی ان دونوں حدیثوں کا ذکر کیا ہے اور یہ لکھا ہے کہ حافظ ابو عمر ابن البر مالیک متوفی ٤٦٣ ھ نے ان حدیثوں کو ضعیف قرار دیا ہے۔

اور سورة ق کی تفسیر میں وہب بن منبہ سے روایت ہے کہ ذوالقرنین نے ق نامی پہاڑ پر کھڑے ہو کر دیکھا تو انہیں کوہ قاف کے نیچے چھوٹے چھوٹے پہاڑ دکھائی دیئے ‘ انہوں نے اس پہاڑ سے پوچھا کہ تم کون ہو اس نے کہا میں قاف ہوں ‘ انہوں نے پوچھا یہ تمہارے گرد چھوٹ چھوٹے پہاڑ کیسے ہیں ‘ اس نے کہا یہ میری رگیں ہیں اور ہر شہر میں میری رگوں میں سے کوئی نہ کوئی رگ ہے اور جب اللہ تعالیٰ زمین میں زلزلہ لانا چاہتا ہے تو مجھے حکم دیتا ہے تو میں اپنی ان رگوں کو حرکت دیتا ہوں اور زمین میں زلزلہ آجاتا ہے ‘ ذوالقرنین نے کہا اے قاف ! مجھے اللہ کی عظمت کے متعلق کوئی خبر سنائیے ‘ قاف نے کہا ہمارے رب کی شان ہمارے وہم و گمان سے بہت بلند ہے ‘ انہوں نے کہا اللہ تعالیٰ کا کم از کم کوئی وصف بتائیں ‘ قاف نے کہا میرے پیچھے ایک زمین ہے جس کی مسافت پانچ سو در پانچ سو سال کی ہے وہ برف کا پہاڑ ہے جو تہہ در تہہ ہے اگر وہ نہ ہوتا تو جہنم کی فضا سے زمین جل جاتی۔

علامہ قرطبی نے کہا یہ روایت اس پر دلالت کرتی ہے کہ جہنم روئے زمین پر ہے اور وہ زمین میں کس جگہ پر ہے اس کا اللہ تعالیٰ ہی کو علم ہے۔ (التذکرہج ٢ ص ١٤٠۔ ١٣٩‘ مطبوعہ دارالخاری المدینہ المنورہ ‘ ١٤١٧ ھ)

کوہ قاف کے متعلق جو روایات ہیں ان کو حافظ ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں یہ کہہ کر رد کردیا ہے کہ یہ بنی اسرائیل کی روایات ہیں اور ہم پر ان کی تصدیق یا تردید واجب نہیں ہے۔ (تفسیر ابن کثیر ج ٤ ص ٢٤٢‘ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٩ ھ)

دوزخ کس جگہ پر واقع ہے یہ کسی صحیح حدیث سے معلوم نہیں ہے البتہ جنت کے متعلق حدیث صحیح سے معلوم ہے کہ وہ سات آسمانوں کے اوپر اور عرش کے نیچے ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٧٩٠‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٥٢٩‘ مسند احمد ج ٢ ص ٣٣٥‘ المستدرک ج ١ ص ٨٠)

القرآن – سورۃ نمبر 29 العنكبوت آیت نمبر 54