ایک شخص نے واصف علی واصف ؒ سے پوچھا ’’کیا رسولِ کریمؐ صوفی تھے؟‘‘ دیکھا جائے تو یہ بہت تیکھا سوال تھا، آپؒ نے جواب دیا’’رسول صوفی نہیں ہوتا ‘و ہ صوفی گر ہوتا ہے‘‘۔

ہم ایک ایسے دور میں زندہ ہیں جہاں تصوف کو متنازع بنا دیا گیا ہے۔ واصف علی واصف ؒ اپنی محافل ِ گفتگو میں’’ کشف المحجوب‘‘ کا یہ جملہ اکثر کوٹ کیا کرتے تھے ’’ ایک وقت تھا جب تصوف ایک حقیقت تھی بغیر نام کے‘ اور آج ایک نام ہے بغیر حقیقت کے‘‘۔ اکثر یہ سوال اٹھایا جاتا کہ لفظ تصوف کیا دورِ نبویؐ میں رائج تھا؟ دراصل کسی حقیقت کی manifestation پہلے ہوتی ہے اور اس کا nomenclature بعد میں رکھا جاتا ہے…اور یوں بھی اس دَور میں اس لفظ کے تکلف کی قطعاً کوئی ضرورت نہ تھی کہ سب کلمہ گو ہی صوفی تھے، سب اصحاب ہی صاحبانِ باطن تھے… یہ تو بعد میں جب لوگ ملوکیت اور مادیت میں لت پت ہو گئے تو ان میں سے جو صفائے باطن والے باقی رہ گئے انہیں عوام صوفی کہنے لگے، تاریخی سند یہ ہے کہ دوسری صدی ہجری تک لفظ’’ صوفی‘‘ مسلم معاشرے میں رائج ہو چکا تھا۔
تصوف درجۂ احسان ہے… ایک معروف حدیث ِ جبریل کی رُو سے اسلام اور ایمان کے بعد احسان کا درجہ ہے… کہ تو اپنے رب کی عبادت اس طرح کرے جیسے تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو نہیں دیکھ رہا تو وہ تو تجھے دیکھ ہی رہا ہے۔صاحبو! ہم نے اپنے صاحب سے یہ سبق لیا کہ تصوف اتباعِ کردار محمدیؐ ہے… تصوف اخلاقِ محمدیؐ سیکھنے اور سکھانے کا نام ہے۔ درجہ ٔاخلاص اور اخلاق تک رسائی کا نام تصوف ہے۔
تصوف جیسی حقیقتِ بلاعنوان کو دو قسم کے مکاتبِ فکر کی مشقِ سخن سے خطرہ ہے، ایک مکتبہ فکر تصوف کو شریعت سے ورا سمجھتا ہے، اور دوسرا اسے شریعت سے جدا سمجھتا ہے۔ اس فکری تخریب کاری کو بھانپتے ہوئے مرشدی حضرت واصف علی واصف ؒ نے فکر کی راہیں سیدھی کرتے ہوئے یہ بتایا کہ’’ طریقت دراصل شریعت بالمحبت ہے‘‘۔ آپؒ نے فرمایا کہ اطاعت میں محبت شامل کر دو… یہ طریقت ہے۔ گویا روحِ شریعت تک پہنچنے کا ایک طریقہِ کار ہے‘ جسے طریقت کہہ سکتے ہیں۔ روحانیت اور تصوف کی ابجد کیفیات سے شروع ہوتی ہے اور آپؒ نے بڑا واضح فرما دیا کہ کیفیت نہ بھی تو نماز پڑھنی چاہیے ، نماز فرض ہے، کیفیت فرض نہیں۔ آپؒ نے فرمایا کہ علم اور عمل کے درمیان فرق کم کرنا شریعت بھی ہے اور ولایت بھی!! آپؒ فرمایا کرتے کہ ایک مجذوب کی بھی خانقاہ جب بنتی ہے تو اس میں سب سے پہلے مسجد بنائی جاتی ہے۔
ایک مرتبہ اشفاق صاحب کے دفتر اردو سائینس بورڈ میں دانشوروں کی ایک بیٹھک تھی، آپؒ ان کے سوالات کے جواب دے رہے تھے، اتنے میں عصر کی نماز کا وقت ہو گیا، محفل کو روک دیا گیا، وہاں موجود داڑھیوں والے لوگ اور ان کے دفتر میں ملازم غریب کلرک نماز کیلئے چل دیے ، میں اپنے تئیں خود کو ترقی پسند دانشور سمجھتا تھا، میں باقی لوگوں کے ساتھ چپکا بیٹھا رہا، آپؒ نے مجھے غور سے دیکھا اور اشارے سے نماز کیلئے اٹھا دیا۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ میں نے اس کے بعد بھی متعدد مرتبہ عبادات سے رخصت لینے کی کوشش کرتا رہا، میں نے ایک مرتبہ آپؒ سے پوچھا‘ سر! ایک شخص جو دیانتداری سے اپنے فرائض ادا کرتا ہے، مثلاً ایک لکھاری ہے ، وہ اپنا کام کر رہا ہے تو اس کا یہ کام ہی اس کی عبادت نہیں ہو جاتی کیا؟ آپؒ میرے نفس کی شرارت بھانپ گئے اور مجھے خشمگین نگاہوں سے دیکھتے ہوئے بولے ’’نہیں ! بالکل نہیں! جو فرض عبادتیں ہیں ‘ان کا کوئی بدل نہیں‘ وہ معاف نہیں ہو سکتیں، نمازیں پانچ ہی رہیں گی‘‘۔
ایک اور فکری تخریب کاری جس کی زد میں آج کا دانشور گرفتار ہے، وہ ہے انسانیت بمقابلہ مذہب!! آج کل اس قسم کے سلوگن سننے میں آ رہے کہ ” انسانیت سب سے بڑا مذہب ہے‘‘۔گویا انسانیت کے نام پر مذہب بیزاری سکھائی جا رہی ہے۔ اس فکری تخریب کاری کا اپائے بھی آج سے تیس برس قبل آپؒ کر چکے ہیں۔ ایک قاری نے آپ کو ایک خط لکھا کہ آپ بھی ہماری طرح انسان دوست معلوم ہوتے ہیں، اس زندگی کا مقصد اخلاقیات اور انسان دوستی ہی تو ہے … اور یہ کہ نظامِ عبادات انسان کو خدمت ِ انسان کی طرف مائل کرنے کیلئے ٹریننگ کا ایک نظام ہے اور بس… دنیا کے مذاہب میں صرف انسانوں کی خدمت اور انسانیت کا درس دیا جاتا ہے… اور یہ کہ ہم مل سب مل کر ہیومینزم کی تحریک چلائیں اور قوم کو ملاّ کے دین کی اذیت سے بچائیں۔ آپؒ نے اس کے جواب ایک مکمل مضمون تحریر کیا جو “حرف حرف حقیقت” میں بعنوان ’’ایک وضاحت‘‘ موجودہے۔ اس میںآپؒ واضح کر رہے ہیں ’’ہم کسی ھیومینزم کے نام پر کوئی تحریک نہیں چلا سکتے، ہم صرف ایک تحریک کو مانتے ہیں ، محسنِ انسانیتؐ کی عطا کی ہوئی کہ انسانوں کا انسان کی خدمت کے ساتھ ساتھ خدا کی طرف مائل کرو اور اللہ کو اس کی رحمت کے ساتھ انسانوں پر مہربان ہونے کی گزارش کرتے رہو، ہمارے لیے اتنا عمل، اتنا علم اور اتنا ہی اخلاق کافی ہے‘‘
آج کے گلوبل ویلیج کا پینڈو… شہرِ علمؐ سے دْور رہنے والا جاہل اور گنوار ہی کہلائے گا