أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَمَا هٰذِهِ الۡحَيٰوةُ الدُّنۡيَاۤ اِلَّا لَهۡوٌ وَّلَعِبٌ‌ؕ وَاِنَّ الدَّارَ الۡاٰخِرَةَ لَهِىَ الۡحَـيَوَانُ‌ۘ لَوۡ كَانُوۡا يَعۡلَمُوۡنَ‏ ۞

ترجمہ:

اور دنیا کی یہ زندگی تو صرف کھیل اور تماشا ہے اور بیشک آخرت کا گھر ہی اصل زندگی ہے اگر وہ جانتے ہوتے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور دنیا کی یہ زندگی تو صرف کھیل اور تماشا ہے اور بیشک آخرت کا گھر ہی اصل زندگی ہے ‘ کاش وہ جانتے ہوتے سو جب وہ کشتیوں میں سوار ہوتے ہیں تو وہ اخلاص کے ساتھ اللہ کو پکارتے ہیں پھر جب وہ انہیں (سمندر سے) بچا کر خشکی کی طرف لے آتا ہے تو وہ اسی وقت شرک کرنے لگتے ہیں تاکہ وہ ان تمام نعمتوں کی ناشکری کریں جو ہم نے ان کو دی ہیں اور (اس دنیا سے عارضی) فائدہ اٹھائیں ‘ پس وہ عنقریب جان لیں گے ( العنکبوت : ٦٦۔ ٦٤ )

دنیا کا معنی اور دنیا کے خسیس اور گھٹیا ہونے کے متعلق احادیث 

لھو کا معنی ہے وہ کام جو انسان کو کسی اہم کام سے غافل کردے موسیقی کے آلات کو ملا ہی کہتے ہیں ‘ اور لعب کا معنی ہے عبث ‘ بےکار اور بےمقصد کام۔

حیات دنیا کو دنیا دو اعتبار سے کہا جاتا ہے ایک یہ ہے کہ دنیا آخرت کے مقابلہ میں ہے حیات دنیا پہلی زندگی ہے اور حیات آخرت دوسری زندگی ہے اور دنیا کا معنی اولیٰ ہے یعنی پہلی زندگی ‘ اور دوسرا اعتبار یہ ہے کہ حیات آخرت دور اور بعید ہے اور حیات دنیا قریب ہے اور دنیا ‘ دنو سے بنا ہے پس دنیا کا معنی قربیٰ ہے ‘ یعنی دنیا کی زندگی قریب ہے ‘ اس میں ایک تیسرا اعتبار بھی ہے کہ دنیا ‘ دنی سے بنا ہے اور دنی کا معنی ذلیل اور گھٹیا ہے اور دنیا آخرت کے مقابلہ میں ذلیل اور گھٹیا ہے اور آخرت افضل اور اعلیٰ ہے۔

دنیا کے دنی اور گھٹیا ہونے کے متعلق حسب ذیل احادیث ہیں :

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک مردار بکری کے پاس سے گزرے جس کو اس کے گھروالوں نے پھینک دیا تھا ‘ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کا زوال اس سے زیادہ آسان ہے جتنا اس مردار بکری کے گھر والوں کے نزدیک اس کو پھینکنا۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج ١٣ ص ٢٤٥‘ مطبوعہ ادارۃ القرآن کراچی ‘ ١٤٠٦ ھ)

حضرت ابن مسعود (رض) نے فرمایا جس کا کوئی گھر نہ ہو دنیا اس کا گھر ہے اور جس کا کوئی مال نہ ہو دنیا اس کا مال ہے اور جس کے پاس عقل نہ ہو وہ دنیا کے مال کو جمع کرتا ہے۔ (یہ حدیث صحیح ہے۔ سیوطی) (مسند احمد ج ٦ ص ٧١‘ شعب الایمان رقم الحدیث : ١٠٦٣٨‘ الردوس للہ یلمی رقم الحدیث : ٢٩٣١‘ الترغیب ج ٤ ص ١٠٤)

حضرت علی (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ عزوجل نے حضرت دائود (علیہ السلام) کی طرف وحی کی اے دائود ! دنیا کی مثال اس مردار کی طرح ہے جس پر کتے جمع ہو کر اس کو گھسیٹ رہے ہوں ! (اے مخاطب ! ) کیا تو پسند کرتا ہے کہ تو بھی ان کی طرح کتا بن کر دنیا کو ان کے ساتھ گھسیٹے۔ (الفردوس بما ثورالخطاب رقم الحدیث : ٥٠٢‘ جمع الجوا مع رقم الحدیث : ٨٧٩٩‘ کنزالعمال رقم الحدیث : ٦٢١٥)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ دنیا پر لعنت کی گئی ہے اور جو کچھ دنیا میں ہے اس پر بھی لعنت کی گئی ہے ‘ سو اللہ تعالیٰ کے ذکر کے اور اس کے جو اس کے ذکر کے قائم مقام ہے یا عالم یا متعلم کے۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤١١٢‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٣٢٢‘ الفردوس بما ثور الخطاب رقم الحدیث : ٣١١١‘ جمع الجوامع رقم الحدیث : ١٢١٨٤‘ کنز العمال رقم الحدیث : ٦٠٨٤‘ شعب الایمان رقم الحدیث : ٧٠٨‘ المعجم الاوسط رقم الحدیث : ٤٠٨٤)

حضرت علی (رض) بیان کرتے ہیں کہ دنیا مردار ہے ‘ سو جو شخص دنیا کا ارادہ کرے اس کو کتوں کے ساتھ مخلوط ہونے پر صبر کرنا چاہیے۔ (الدرالمششرہ للسیوطی ص ١٦٩‘ رقم الحدیث : ٢٤٢‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٥ ھ)

علامہ اسماعیل بن محمد العجلونی المتونی المتوفی ١١٦٢ ھ لکھتے ہیں :

” دنیا مردار ہے اور اس کے طالب کتے ہیں “ ان کا معنی صحیح ہے لیکن یہ حدیث نہیں ہے ‘ امام بزار نے حضرت انس سے روایت کیا ہے کہ ہر روز ایک منا دی تین بار یہ ندا کرتا ہے کہ دنیا کو اہل دنیا کے لئے چھوڑ دو ‘ جس نے ضرورت سے زیادہ دنیا کو لیا اس نے بیخبر ی میں اپنی موت کو لیا ہے ‘ اس معنی میں اور متعدد احادیث ہیں ( ان کو ہم نے باحوالہ ذکر کردیا ہے) ہمارے امام شافعی نے اپنے اشعار میں دنیا کو مردار کہا ہے اور خوب کہا ہے :

اور دنیا سے کون بچے گا میں اس کو چکھ چکا ہوں اس کی مٹھاس اور اس کا عذاب ہم تک پہنچ چکا ہے دنیا تو صرف ایک متغیر مردار ہے جس کتے ہیں جو اس کو کھینچنا چاہ رہے ہیں اگر تم دنیا سے اجتناب کرو گے تو دنیا داروں اگر تم دنیا کو کھینچو گے تو اس کے کتے تم سے جھگڑا کریں گے (کے شر) سے سلامت رہو گے۔ (الکشف الخفاء منریل الالباس ج ١ ص ٤١٠۔ ٤٠٩‘ مطبوعہ مکتبہ الغزالی دمشق)

دنیا کی زندگی کو کھیل تماشا فرمانے کی وجہ 

دنیا کی زندگی کو کھیل اور تماشے کے ساتھ دو وجہ سے تشبیہ دی گئی ہے۔ ایک وجہ یہ ہے کہ کھیل اور تماشا بہت لد ختم ہوجاتا ہے اور دائمی نہیں ہوتا ‘ اسی طرح دنیا کی زیب وزینت اور اس کی باطل خواہشیں بھی جلد ختم ہو اجاتی ہیں ‘ دوسری وجہ یہ ہے کہ کھیل اور تماشے میں مشغول رہنا بچوں اور کم عقلوں کا کام ہے نہ کہ عقل والوں کا ‘ اسی طرح عقل والے دنیا کی زنگینیوں اور دل چسپیوں سے دور رہتے ہیں۔

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : نہ میں کھیل کود سے ہوں اور نہ کھیل کود مجھ سے ہے۔

(النہا یہ فی غریب الحدیث والا ثر للجز ری ج ١ ص ١٠٢‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤١٨ ھ)

اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کو حکمت اور مصلحت کی بناء پر پیدا فرمایا ہے پھر اس آیت میں اس کو لہو ولعب کیوں فرمایا ہے ‘ اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں پر اعم اور اغلب کے اعتبار سے فرمایا ہے پھر اس آیت میں اس کو لہو و ولعب کیوں فرمایا ہے ‘ اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں پر اعم اور اغلب کے اعتبار سے فرمایا ہے کیوں کہ اکثر لوگوں کی غرض دنیا کے حصول سے لہو و لعب ہوتی ہے اور جب انسان دنیا میں مستغرق ہوجاتا ہے تو پھر وہ اللہ سے غافل ہوجاتا ہے ‘ ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :

یقین رکھو کہ دنیا کی زندگی صرف کھیل تماشا ہے اور زیب وزینت ہے اور تمہارا ایک دوسرے پر فخر ہے اور مال اور اولاد میں ایک دوسرے پر کثرت کو ظاہر کرنا ہے ‘ جیسے بارش سے زرخیزی کسانوں کو اچھی لگتی ہے ‘ پھر وہ فصل خشک ہوجاتی ہے پس تم دیکھتے ہو وہ زرد ہوجاتی ہے پھر چورا چورا ہوجاتی ہے ‘ اور (کافروں کے لئے) وہ آخرت میں عذاب شدید ہے اور (مومنوں کے لئے) وہ اللہ کی طرف سے مغفرت اور رضا مندی ہے اور دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کی پونجی ہے۔الحدید ۲۰

دار آخرت کا حقیقی زندگی ہونا 

نیز اس آیت میں فرمایا : اور بیشک آخرت کا گھر ہی اصل زندگی ہے۔ دار آخرت سے مراد ہے جنت ‘ یعنی جنت ہی حقیقی زندگی کا گھر ہے ‘ کیونکہ جنت میں موت کا آنا اور فنا کا طاری ہونا ممتنع ہے ‘ اس میں یہ اشارہ ہے کہ دنیا موت کا گھر ہے ‘ کیونکہ کافر اگر دنیا میں زندہ بھی ہو تو اللہ تعالیٰ نے اس کو مردہ فرمایا ‘ ارشاد ہے : بیشک آپ مردوں کو نہیں سناتے۔ (النمل : ٨٠) تاکہ قرآن ہر اس شخص کو ڈرائے جو زندہ ہے اور کافروں پر حجت قائم ہوجائے۔ (یٰسین : ٧٠)

پس معلوم ہوا کہ دنیا اور دنیا کی چیزیں مردہ ہیں جیسا کہ ہم نے اس کے ثبوت میں احادیث بیان کی ہیں ‘ ماسوا ان کے جن کو اللہ تعالیٰ نے نور ایمان سے زندہ کردیا سو وہ زندہ ہیں۔ اس آیت میں آخرت کو فرمایا ہے یہی حیوان ہے ‘ حیوان اس کو کہتے ہیں جو اپنے جمیع اجزاء کے ساتھ زندہ ہو اور آخرت میں ارواح ہیں اور فرشتے ہیں اور جنت ہے اور جنت کے درخت اس کے پھل اس کے بالا خانے ‘ اس کے باغات اس کے دریا اور اس کی مٹی اس کے حورو قصور ان میں سے کسی چیز پر فنا نہیں آئے گی سو آخرت اپنے تمام اجزاء کے ساتھ زندہ ہے ‘ اور حیات حقیقی وہ ہے جس میں کوئی بدمزگی نہ ہو ‘ کسی قسم کا رنج اور خوف نہ ہو کوئی بیماری نہ ہو کسی نعمت کے زوال کا خدشہ نہ ہو سو جنت ایسی ہی ہے اور جنت آخرت میں ہے سو آخرت ہی حیات حقیقی ہے ‘ اور فرمایا اگر وہ جانتے ہوتے یعنی اگر کفار یہ جانتے کہ دنیا تو مردہ ہے اور موت ہے اور حقیقی حیات تو آخرت میں ہے ‘ اور آخرت میں کامیابی اور سرخ روئی ایمان لانے اور نیک اعمال کرنے سے حاصل ہوگی تو وہ ایمان لے آتے اور اس فانی اور عارضی حیات کے تقاضوں کو ترک کر کے دائمی اور حقیقی حیات کے تقاضوں کو اپنا لیتے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 29 العنكبوت آیت نمبر 64