وضو سے اس قدر نماز پڑھ لی جو میرے مقدر میں تھی
باب التطوع
نوافل کا باب ۱؎
الفصل الاول
پہلی فصل
۱؎ تطوع طوع یا طاعۃٌ سے بنا،بمعنی فرمانبرداری۔اب اصطلاح میں نفلی عبادت کو تطوع کہا جاتا ہے،یعنی جس عبادت کا شریعت نے مکلف نہ کیا ہو بندہ اپنی خوشی سے کرے۔یہ لفظ ہرنفلی عبادت پر بولا جاتا ہے مگر یہاں نفل نماز مراد ہے کیونکہ مؤلف اسے”کتاب الصلوۃ”میں لائے۔
حدیث نمبر 554
روایت ہے حضرت ابوہریرہ سے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کے وقت بلال سے فرمایا ۱؎ کہ اے بلال مجھے اپنے امید افزا کام کی خبر دو جو تم نے اسلام میں کیا کیونکہ میں نےتمہارےنعلین کی آہٹ جنت میں اپنے آگےسنی ۲؎ فرمایا میں نے اپنے نزدیک کوئی امید افزا کام نہیں کیا بجز اس کے کہ دن اور رات کی کسی گھڑی میں وضو نہیں کیا مگر اس وضو سے اس قدر نماز پڑھ لی جو میرے مقدر میں تھی ۳؎(مسلم،بخاری)
شرح
۱؎ غالب یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی شب خواب میں معراج ہوئی تب اس کے سویرے کو حضرت بلال سے یہ سوال فرمایا کیونکہ جسمانی معراج کے سویرے تو فجر جماعت سے پڑھی نہ تھی یا یہ سب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جسمانی معراج میں ملاحظہ فرمایا تھا مگر یہ سوال کسی اور دن فجر کی نماز کے بعد فرمایا،یہ ہی معنی زیادہ ظاہر ہیں۔
۲؎حضرت بلال کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے جنت میں جانا ایسا ہے جیسے نوکر چاکر بادشاہوں کے آگے ہٹو بچو کرتے ہوئے چلتے ہیں۔مطلب یہ ہے کہ اے بلال! تم نے ایسا کون سا کام کیا جس سے تم کو میری یہ خدمت میسر ہوئی۔خیال رہے کہ معراج کی رات نہ تو حضرت بلال حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنت میں گئے نہ آپ کو معراج ہوئی بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رات وہ واقعہ ملاحظہ فرمایا جو قیامت کے بعد ہوگا کہ تمام خلق سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم جنت میں داخل ہوں گے اس طرح کہ حضرت بلال خادمانہ حیثیت سے آگے آگے ہوں گے۔اس سے چند مسئلے معلوم ہوئے:ایک یہ کہ اﷲ تعالٰی نے حو ر صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں کے انجام پر خبردار کیا کہ کون جنتی ہے اور کون دوزخی اور کون کس درجہ کا جنتی دوزخی ہے،یہ علوم خمسہ میں سے ہیں اور دوسرے یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کان و آنکھ لاکھوں برس بعد ہونے والے واقعات کو سن لیتے ہیں،دیکھ لیتے ہیں۔یہ واقعہ اس تاریخ سے کئی لاکھ سال بعد ہو گا مگر قربان ان کانوں کے آج ہی سن رہے ہیں۔تیسرے یہ کہ انسان جس حال میں زندگی گزارے گا اسی حال میں وہاں ہوگا۔حضرت بلال نے اپنی زندگی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گزاری وہاں بھی خادم ہو کر ہی اٹھے۔اﷲ تعالٰی حضرت بلال کے صدقے مجھے نصیب کرے کہ وہاں بھی اپنے پیارے محبوب کے گن گاؤں،ان کی نعتیں لکھوں اور پڑھوں۔شعر
صبا وہ چلے کہ باغ پھلے و پھول کھلے کہ دن ہوں بھلے
لواء کے تلے ثناء میں کھلے رضا کی زبان تمہارے لیے
۳؎ یعنی دن رات میں جب بھی میں نے وضو یا غسل کیا تو دو نفل تحیۃ الوضو پڑھ لیے مگر یہاں اوقات غیرمکروہ میں پڑھنا مراد ہے تاکہ یہ حدیث ممانعت کی احادیث کے خلاف نہ ہو۔خیال رہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت بلال سے یہ پوچھنا اسی لیے تھا تاکہ آپ یہ جواب دیں اور امت اس پر عمل کرے ورنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تو ہر شخص کے ہر چھپے کھلے عمل سے واقف ہیں،نیز یہ درجہ صرف حضرت بلال کو ان نوافل کا ہے۔ہزار ہا آدمی یہ نوافل پڑھیں گے یا پابندی کریں گے مگر انہیں یہ خدمت نصیب نہیں۔
[…] اس کی نہایت نفیس شرح ابھیپہلی فصلمیں گزر چکی۔اس لفظ سےمعلوم ہورہا ہے کہ نبی صلی اللہ […]