وَمِنۡ اٰيٰتِهٖۤ اَنۡ خَلَقَكُمۡ مِّنۡ تُرَابٍ ثُمَّ اِذَاۤ اَنۡتُمۡ بَشَرٌ تَنۡتَشِرُوۡنَ ۞- سورۃ نمبر 30 الروم آیت نمبر 20
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَمِنۡ اٰيٰتِهٖۤ اَنۡ خَلَقَكُمۡ مِّنۡ تُرَابٍ ثُمَّ اِذَاۤ اَنۡتُمۡ بَشَرٌ تَنۡتَشِرُوۡنَ ۞
ترجمہ:
اور اللہ کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا پھر اب تم بشر ہو کر پھیلتے جارہے ہو
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور اللہ کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا پھر اب تم بشر ہو کر پھیلتے جارہے ہو (الروم : ٢٠)
انسان اور بشر کی تخلیق سے اللہ تعالیٰ کی توحید پر استدلال
اس سے پہلی آیت میں فرمایا تھا جس طرح وہ مردہ زمین کو دوبارہ زندہ کردیتا ہے اسی طرح وہ مردہ انسانوں کو بھی دوبارہ زندہ فرمائے گا ‘ اور اس رواں رکوع میں جتنی آیات ہیں ان سب میں بھی یہی دلائل دیئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے بعد تمام مردہ انسانوں کو دوبارہ زندہ فرمائے گا اور اس کے ساتھ یہ دلائل بھی ہیں کہ یہ پوری کائنا تک کوئی اتفاقی حادثہ ہے نہ بہت سے خدائوں کی اجتماعی کوشش کا نتیجہ ہے بلکہ یہ کائنات اس خدائے واحد کی تخلیق کا عظیم شاہکار ہے ‘ اس مطلوب پر اللہ تعالیٰ نے پہلے انسان کی پیدائش سے استدلال فرمایا ہے۔
اس نے ارشاد فرمایا کہ اس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ہے اور اس نے تم کو چلتا پھرتا بشر بنا کر کھڑا کردیا ‘ اور مٹی ایک بےجان عنصر ہے جس میں حیات اور حرکت کا کوئی اثر نہیں ہے ‘ جو چیزیں عناصر سے مرکب ہیں ان میں پہلا مرتبہ مع دنیا کا ہے پھر نباتات ہیں ‘ پھر حیوانات ہیں ‘ اور اس کے بعد انسان اور بشر ہے ‘ اللہ تعالیٰ نے معاون کی تمام خوبیاں نباتات میں رکھ دیں اور نباتات کے تمام خواص حیوان میں رکھ دیئے اور حیوانات کے تمام کمالات انسان میں رکھ دیئے پھر انسان اور بشر کو حیوانات سے ایک زائد وصف عطا کیا اور وہ عقل سے ادا ک کرنا ہے ‘ پھر اس عظیم خالق کا یہ کتنا زبردست کمال ہے کہ اس نے بےجان اور ساکن مٹی سے ایک جیتا جاگتا متحرک انسان اور بشر بنا کر کھڑا کردیا جو صرف حیوانات کی طرح چلنے پھرنے والا نہیں ہے بلکہ ملائکہ کی طرح غور وفکر کرنے والا ہے۔
اس آیت پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ اس میں فرمایا کہ اس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ہے حالانکہ مٹی سے تو صرف حضرت آدم (علیہ السلام) کو پیدا کیا تھا ہم کو تو اس نے نطفہ سے پیدا فرمایا ہے جیسا کہ ان آیات میں ہے :
کیا ہم نے تم کو حقیر پانی (منی) سے نہیں پیدا کیا ! (المرسلات : ٢٠ )
سو ہم نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ‘ پھر نطفہ سے ‘ پھر جمے ہوئے خون سے ‘ پھر گوشت کے لوتھڑے سے جس کی صورت اور شکل واضح بنی ہو یا نہ بنی ہو۔الحج ۵
اس اعتراض کا ایک جواب یہ ہے کہ ہمارے باپ اور ہماری اصل حضرت آدم ہیں اور جب ان کو مٹی سے پیدا کیا گیا تو گویا ہم سب کو مٹی سے پیدا کیا گیا ‘ دوسرا جواب یہ ہے کہ ہم کو نطفہ سے پیدا کیا گیا اور نطفہ خون سے بنتا ہے اور خون غذا سے بنتا ہے اور غذا خواہ سبزیوں پر مشتمل ہو خواہ گوشت پر اس کا مآل زمین کی مٹی ہے تو انجام کار ہمیں بھی مٹی سے پیدا کیا گیا ہے۔ اور اس کا تیسرا جواب یہ ہے کہ حدیث میں ہے :
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہر مولود کے اوپر اس کی ناف کی مٹی کو چھرکا جاتا ہے۔ (جمع الجوامع رقم الحدیث : ١٩٥٨٤‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤٢١ ھ ‘ حلیۃ الا ولیاء ج ٣ ص ٢٨٠)
حضرت ابن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہر مولود کے اوپر اس کی ناف کی اس مٹی کو چھڑ کا جاتا ہے جس سے اس کو پیدا کیا جاتا ہے اور جب اس کو اس کی ارذل عمر کی طرف لوٹایا جاتا ہے تو اس کو اس مٹی کی طرف لوٹایا جاتا ہے جس سے اس کو پیدا کیا گیا تھا حتی کہ اسی مٹی میں دفن کردیا جاتا ہے اور میں اور ابوبکر اور عمر ایک مٹی سے پیدا کیے گئے تھے اور اسی میں دفن کیے جائیں گے۔ (خطیب) (جمع الجوامع رقم الحدیث : ١٩٥٨٤‘ کنزالعمال رقم الحدیث : ٤٢٧٦٦۔ ٣٢٦٧٣‘ فتاوی افریقہ رقم الحدیث : ١٠٠۔ ٩٩‘ فردوس الاخبار رقم الحدیث : ٢٧٧٥۔ ٢٤٨٦‘ اللئالی المصونعہۃ ج ١ ص ٢٨٦۔ ٢٨٤)
عطا خراسانی نے کہا فرشتہ انسان کی اس جگہ کی مٹی کو لاتا ہے جہاں اس کو دفن کیا جائے گا اور اس کو نطفہ پرچھرکتا ہے پھر اس نطفہ اور مٹی ( کو گوندھ کر اس) سے اس انسان کو پیدا کیا جاتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ہم نے اسی سے تم کو پیدا کیا ہے اور اسی میں تم کو (دفن کے وقت) لوٹائیں گے اور اسی سے (حشر کے دن) تم کو دوبارہ نکالیں گے۔ (طٰہٰ : ٥٥)
معالم اتنزیل ج ٣ ص ٢٦٥‘ حافظ سیوطی نے اس حدیث کو امام ابن منذر سے روایت کیا ہے ‘ الدر المثور ج ٥ ص ٥١٣)
اللہ تعالیٰ نے مٹی اور چند دیگر عناصر سے جیتا جاگتا اور چلتا پھرتا انسان بنا کر کھڑا کردیا اور صرف یہی نہیں بلکہ اس کے اندر شعور اور عقل کے ادراکات پیدا کیے ‘ خیالات ‘ احساسات اور جذبات پیدا کیے اور یہ چیزیں یعنی قوت نمو ‘ احساس ‘ حرکت بالا ارادہ اور عقل اور شعور ‘ مٹی ‘ پانی ‘ ہوا اور آگ میں سے کسی عنصر میں بھی نہیں ہیں اور برس ہا برس سے انسان ان ہی خواص کے ساتھ پیدا ہوتا چلا آرہا ہے ‘ اس لیے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ان صفات کے ساتھ انسان کی پیدائش محض ایک اتفاقی حادثہ ہے اور نہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ انسان کئی خدائوں کی اجتماعی کوشش کا نتیجہ ہے ‘ کیونکہ متعدد موجود کسی ایک طریقہ پر متفق نہیں ہوسکتے اور ہزاروں برس سے انسان کی اس منضبط اور واحد طریقہ سے مسلسل پیدائش یہ بتاتی ہے کہ اس کا پیدا کرنے والا بھی واحد ہے ورنہ اس کی پیدائش کے طریقہ میں ہزاروں سال سے یہ نظم و ضبط اور تسلسل نہ ہوتا ‘ پھر کیا عقل یہ باور کرتی ہے کہ جو ہزاروں سال سے انسان اور بشر کو لگاتا ایک سرشت سے پیدا کررہا ہے وہ اس کے مرنے کے بعد اس کو دوبارہ پیدا نہیں کرسکتا۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 30 الروم آیت نمبر 20