وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ تبدیلی تو نہیں

اگر آپ تبدیلی کے خواہشمند تھے ۔ اگر آپ بھی میری طرح یہ سمجھتے تھے کہ پی ٹی آئی اقتدار میں آکر ملک کے تمام اداروں کو ٹھیک کردے گی ۔ اگر آپ بھی یہ سمجھتے رہے ہیں کہ عمران خان ہم اوورسیز کوقبضہ مافیا اور کرپٹ بیوروکریسی سے نجات دلائے گا اگر آپ نے یورپ میں پی ٹی آئی کا پودا لگانے ، اس کی آبیاری کرنے اور اس سے چھاؤں کی امید کی تھی تو آپ کے لئے افتخار چیچی کی داستان جاننا بہت ضروری ہے

افتخار چیچی پی ٹی آئی کے بڑے سرگرم رکن ہیں وہ عرصہ پچیس سال سے اٹلی میں رہ رہے تھے ۔ چونکہ ہمارے علاقے سے ہیں اس لئے ان سے دوستی بھی رہی ہے ۔ جب میں اور وہ اٹلی میں رہتے تھے تقریبا ہر سیاسی و سماجی پروگرام میں ان سے ملاقات ہوتی رہتی تھی ۔

اٹلی میں انہوں نے خوب پیسہ کمایا لیکن پھر ان کے دل میں پاکستان کی محبت جاگی اور انہوں نے اپنا سرمایہ پاکستان منتقل کیا ۔ میں پاکستان گیا تو ان سے گجرات میں ملاقات ہوئی وہ مجھے اپنا بزنس دکھانے لے گئے میں ان کا سیٹ اپ دیکھ کر بہت خوش ہوا

میں نے انہیں کہا کہ سچی بات تو یہ کہ ملک کی اصلی خدمت تو آپ نے کی ہے بیرون ملک رہ کر پیسہ کمانا اور صرف اپنی زندگی آسان بنا لینا کمال نہیں کمال تو یہ ہے کہ وہاں سے پیسہ کما کر اپنے ملک میں سرمایہ کاری کرنا اور اپنے ہم وطنوں کے لئے مواقع پیدا کرنا ۔

افتخار چیچی صاحب پی ٹی آئی اور عمران خان کے دیوانے تھے ان کا کہنا تھا کہ یہی پی ٹی آئی کا ویژن ہے اور یہی عمران خان کا مشن ہے کہ اوورسیز پاکستانی پاکستان میں سرمایہ کاری کریں اور ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں

بعد میں جب کبھی اٹلی کے بزنس مین دوستوں سے بات ہوتی تو میں افتخار چیچی کی مثال دیتا کہ آپ سب کو بھی اپنا سرمایہ پاکستان منتقل کرنا چاہیے اسی سے ملک میں لوگوں کو روزگار ملے گا اور ملک ترقی کرے گا

افتخار چیچی کے بقول انہوں نےکچھ زمین چودہ سال پہلے خریدی تھی اس پر انہوں نے ایک سروس اسٹیشن تعمیر کیا ہوا تھا اب وہ اس پر مزید سرمایہ کاری کر کے تعمیراتی کام کرنے والے تھے کہ ایک دوسرا فریق انہیں روکنے آگیا اور عدالت سے اسٹے آرڈر لے آیا ۔ افتخار چیچی کوقانون کے احترام میں کام رکوا نا پڑگیا۔

لیکن کچھ دن پہلے حکومت پاکستان کے سرکاری و قانون نافذ کرنے والے اداروں کی سرپرستی میں ان کے سروس اسٹیشن کی نہ صرف بلڈنگ گرا دی گئی ہے بلکہ اس جگہ پر دوسرے فریق کا قبضہ بھی کروا دیا گیا ہے

یاد رہے کہ ابھی اس کیس پر عدالت کا فیصلہ نہیں آیا البتہ علاقے کی نوکر شاہی نے اپنی موجودگی میں قبضہ بھی کروا دیا ہے اور کوئی سرکاری دستاویز بھی نہیں دکھا رہے

کیا یہی ہے وہ خواب جو ہم سب نے ملکر دیکھا تھا ابھی میری پوسٹ کے نیچے پی ٹی آئی کے کچھ دانشور کمنٹ کریں گے کہ عمران بے چارہ کیا کرے ؟ ۔ جب بھی ایسے کمنٹ پڑھتا ہوں تو بچپن کی وہ مزاحیہ کہانی یاد آ جاتی ہے جس میں کہا جاتا تھا کہ “”ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک تھا بادشاہ وہ بڑا ہی غریب تھا ۔۔۔۔۔😊“
شوگر مافیا ہو یا آٹا مافیا ، پٹرول مافیا ہو یا ڈالر مافیا ، بیورو کریسی ہو یا عدلیہ ہرناکامی اور ہر بے بسی پر پی ٹی آئی کے کارکنان کا یہی کمنٹ ہوتا ہے “عمران خان بے چارہ کیا کرے ؟؟ “
اگر پی ٹی آئی یا عمران خان افتخار چیچی جیسے اپنے ہی کارکنان کی زمینوں پر قبضہ ہونے سے نہیں روک سکتے تو عمران واقعی وہ بادشاہ ہے جو بے چارہ کیا کرے ۔۔۔۔۔“

سیاسی تنقید کو ایک طرف رکھ کر اوورسیز سے درخواست ہے کہ افتخار چیچی کے کیس کو ٹیسٹ کیس سمجھیں اور اس کیس کو خود اپنے ہاتھوں میں لے لیں ، اپنے لئے خود آواز اٹھائیں ۔ اور اب سمجھ جائیں کہ سمندر پار پاکستانیوں کے مسائل کے لئے کوئی بھی حکومت سنجیدہ نہیں ہوتی ۔

آپ ان کے لئے ہار لیکر کھڑے ہوتے ہیں اور وہ آپ کی ہار کے منتظر ہوتے ہیں ۔ آپ ان کی الیکشن مہم کے لئے رقم خرچ کرتے ہیں اور وہ آپ کے اغوا برائے تاوان میں بھی کچھ نہیں کرتے ، آپ ان کے لئے جھنڈے لہراتے ہیں اور وہ آپ کو سوتیلا سمجھتے ہیں ۔ آپ ان کے ساتھ سیلفیاں لینے کے لئے ہلکان ہوتے ہیں اور وہ تنہائی میں آپ کا ٹھٹھہ اڑاتے ہیں ، آپ ان کے لئے بداخلاقی کی ساری حدیں پار کرتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ دشمنیاں بناتے ہیں اور وہ حکومتی مجبوریوں کا نام دیکر آپس میں الائینس بناتے ہیں ، آپ ان کے تلوے چاٹنے کے لئے اپنے ہی جیسے اوورسیز کو گالیاں دیتے ہیں اور وہ آخر میں یہی کرتے ہیں کہ انتظامیہ کی موجودگی میں آپ کی جائیداد پر قبضہ کروا دیتے ہیں ۔

یہ بے بسی کی باتیں وہ مجبوری کے قصے
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ تبدیلی تو نہیں

محموداصغرچودھری