اسلام میں تصورِ مزاح
اسلام میں تصورِ مزاح
ایک مرتبہ ایک بوڑھی عورت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئی تو اس نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! میرے لیے دعافرمائیں کہ اللہ تعالی مجھے جنت عطا فرمائے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کوئی بوڑھی عورت جنت میں نہیں جائے گی۔جب وہ واپس جانے لگی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی بھی بوڑھی عورت جنت میں نہیں جائے گی بلکہ اللہ تعالیٰ ان کو جوان کر دے گا تو اس بات پر وہ بوڑھی عورت مسکرا دی۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ساتھ گھل مل کر رہتے تھے یہاں تک کہ میرے چھوٹے بھائی سے فرماتے ہیں اےابو عمیررضی اللہ عنہ! تمہاری چڑیا کا کیا بنا؟کیونکہ وہ اپنی چڑیا کے مر جانے کی وجہ سے غمزدہ تھے اس وجہ سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کو ہنسانے کی کوشش کر رہے تھے۔(بخاری و مسلم)
سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دیہاتی شخص جس کا نام ظاہر بن حرام تھا وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دیہات سے تحائف لایاکرتا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کے لیےشہر کے تحائف بھیجا کرتے۔ ایک دن وہ بازار میں سامان بیچ رہا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں بازؤں کے ساتھ اس کو پیچھے سے پکڑ لیا وہ زور لگا کر اپنے آپ کوچھڑوانے لگا۔ جب اسے معلوم ہوا کہ یہ تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں تو اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زور سے سینہ کے ساتھ لگا لیا۔ پھر حضورﷺ نے فرمایا کہ یہ میرا غلام ہے میں اس کو بیچنا چاہتا ہوں تو اس نے عرض کی :یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میری زیادہ قیمت نہیں لگے گی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:دنیا میں تمہاری قیمت کم ہے لیکن اللہ تعالی کی بارگاہ میں تمہاری قیمت بہت زیادہ ہے۔(شرح السنۃ)
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ میں اور سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی۔ میں نے کھانے کے لئے حلوہ حریرہ تیار کیا اور حضرت سودہ سے کہا کہ تم کھاؤلیکن انہوں نے کھانے سے انکار کر دیا۔ میں نے مزاحاً کہا کہ اگر تم نے نہ کھایا تو میں تمہارے منہ پرمَل دوںگی لیکن اس کے باوجود وہ آرام کے ساتھ بیٹھی رہی اور نہ کھایا۔ پھر میں نے تھوڑا سا حلوہ لیا اور ان کے منہ پر مَل دیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا کہ سودہ رضی اللہ عنہ! تم بھی عائشہ رضی اللہ عنہا کے چہرہ کے اوپر مَل دو تو انہوں نے مل دیا۔ جس پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس پر مسکرانے لگے۔
سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی تجارت کی غرض سے بصرہ گئے تو ان کے ساتھ حضرت نعیمان اور حضرت سویبط رضی اللہ عنہما بھی تھے۔ حضرت سویبط رضی اللہ تعالی عنہ کھانے کے سامان کے ذمہ دار تھے تو ان سے حضرت نعیمان نے کھانا طلب کیا لیکن انہوں نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ جب سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ آئیں گے پھر آپ کو کھانا دوں گا۔ کچھ دیر بعد وہاں سے ایک قافلہ گزرا تو حضرت نعیمان رضی اللہ عنہ نے ان کے پاس جا کر کہا کہ میرے پاس ایک غلام ہے جس کو میں بیچوں گا لیکن وہ بس ایک ہی بات کرتا ہے کہ میں غلام نہیں بلکہ آزاد ہوں اور تم نے اسے چھوڑ کر نہیں جانا۔ توقافلے والوں نے دس اونٹنیاں دینے کے بعد حضرت سویبط رضی اللہ عنہ کو پکڑ کر لے گئے۔ تھوڑی دیر بعد سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ واپس آئے تو پوچھا کہ حضرت سویبط رضی اللہ عنہ کدھر ہیں؟ تو انہوں نے سارا واقعہ بیان کر دیا۔ پھر سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے ان کا پیچھا کیا اور جا کر ان کی اونٹنی واپس کر کے حضرت سویبط رضی اللہ عنہ کو واپس لے کر آئے۔ یہ واقعہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ اس کا ذکر کرتے اور ذکر کرنے کے بعد مسکرایا کرتے۔(کنزالعمال)
سیدنا ربیعہ بن عثمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس نے اپنی اونٹنی مسجد کے دروازے پر بٹھا دی۔ سیدنانعیمان رضی اللہ عنہ نےبعض صحابہ رضی اللہ عنہم کے کہنے پر اس اونٹنی کو ذبح کر دیا کہ اس کی قیمت رسولﷺ ادا کردیں گے۔ اور ذبح کرنے کے بعد گوشت کو تقسیم کردیا گیا۔ جب وہ شخص مسجدسے باہر آکر اپنی اونٹنی کو ذبح شدہ دیکھتا ہے تو وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میری اونٹنی کو ذبح کردیا گیا ہے۔ جب حضورﷺ کو معلوم ہوا کہ حضرت نعیمان رضی اللہ عنہ نے اونٹنی کو ذبح کیا ہے توآپﷺ ان کو تلاش کرنے لگے وہ وہ کچھ پتوں کے نیچے اپنے آپ کو چھپا کر بیٹھے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص نے اشارے کے ساتھ بتایا کہ وہ سامنے بیٹھے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے چہرہ سے اپنے ہاتھ سے مٹی صاف کرنے لگے اور اس واقعہ پر مسکرا پڑے اور اونٹنی کی قیمت اپنی طرف سے ادا کر دی۔
اسدالرحمٰن
03016591366