خَلَقَ السَّمٰوٰتِ بِغَيۡرِ عَمَدٍ تَرَوۡنَهَا وَاَ لۡقٰى فِى الۡاَرۡضِ رَوَاسِىَ اَنۡ تَمِيۡدَ بِكُمۡ وَبَثَّ فِيۡهَا مِنۡ كُلِّ دَآ بَّةٍ ؕ وَاَنۡزَلۡنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَنۡۢبَتۡنَا فِيۡهَا مِنۡ كُلِّ زَوۡجٍ كَرِيۡمٍ ۞- سورۃ نمبر 31 لقمان آیت نمبر 10
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
خَلَقَ السَّمٰوٰتِ بِغَيۡرِ عَمَدٍ تَرَوۡنَهَا وَاَ لۡقٰى فِى الۡاَرۡضِ رَوَاسِىَ اَنۡ تَمِيۡدَ بِكُمۡ وَبَثَّ فِيۡهَا مِنۡ كُلِّ دَآ بَّةٍ ؕ وَاَنۡزَلۡنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَنۡۢبَتۡنَا فِيۡهَا مِنۡ كُلِّ زَوۡجٍ كَرِيۡمٍ ۞
ترجمہ:
اللہ نے بغیر ستونوں کے آسمان بنائے جنہیں تم دیکھتے ہو اور زمین میں مضبوط پہاڑوں کو نصب کردیا تاکہ وہ تمہیں لرزانہ سکے اور اس زمین میں ہر قسم کے جانور پھیلا دینے اور آسمان سے پانی نازل کیا سو ہم نے زمین میں ہر قسم کے عمدہ غلے (اور میوے) پیدا کیے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اللہ نے بغیر ستونوں کے آسمان بنائے جنہیں تم دیکھتے ہو اور زمین میں مضبوط پہاڑوں کو نصب کردیا تاکہ وہ تمہیں لرزانہ سکے اور اس زمین میں ہر قسم کے جانور پھیلا دیئے ‘ اور آسمان سے پانی نازل کیا سو ہم نے زمین میں ہر قسم کے عمدہ غلے (اور میوے) پیدا کیے یہ ہے اللہ کا پیدا کیا ہوا ! پس مجھے وہ دکھائو جو اللہ کے ماسوا دسروں نے پیدا کیا ہے بلکہ ظالم کھلی گمراہی میں ہیں (لقمان : ١١۔ ١٠)
آسمانوں کا مستدیر (گول) اور ایک دوسرے سے منفصل ہونا
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی الوہیت اور توحید پر یہ دلیل قائم کی ہے کہ اس نے آسمانوں کو بغیر ستونوں کے پیدا فرمایا ہے ‘ آسمانوں کی کیفیت میں علماء کا اختلاف ہے ‘ بعض علما نے کہا آسمان صفحہ قرطاس کی طرح چپٹے ہیں جیسے کوئی ہموار سطح ہو ‘ اور اکثر علماء نے کہا آسمان گول ہیں یہ آسمان جو ہمیں نظر آرہا ہے یہ زمین پر محیط ہے اور اس پر دوسرا آسمان جو اس کو محیط ہے علی ہذا القیاس سات آسمان ہیں اور ہر اوپر والا آسمان نچلے آسمان کو محیط ہے جیسے پیاز کے چھلکے ایک دوسرے کو محیط ہوتے ہیں ‘ لیکن پیاز کے چھلکے ایک دوسرے کے ساتھ چپکے ہوئے ہوتے ہیں اور ساتوں آسمان ایک دوسرے سے منفصل ہیں ‘ حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے اصحاب بیٹھے ہوئے تھے کہ ان کے اوپر ایک بادل آیا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : کیا تم جانتے ہو کہ یہ کیا ہے ؟ صحابہ نے کہا اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے ‘ آپ نے فرمایا : یہ بادل ہے ! یہ زمین پر پانی برسانے والا ہے ‘ اللہ تعالیٰ اس بادل کو اس قوم کی طرف بھیج دیتا ہے جو اس کا شکر ادا کرتی ہے نہ اس کو پکارتی ہے ‘ پھر آپ نے پوچھا : کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے اوپر کیا ہے ؟ انہوں نے کہا اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جاننے والے ہیں ‘ آپ نے فرمایا : یہ آسمان دنیا ہے ‘ محفوظ چھت ہے اور (گرنے سے) روکی ہوئی موج ہے ‘ آپ نے فرمایا : کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے اس کے درمیان کتنا فاصلہ ہے ؟ صحابہ نے کہا اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جاننے والے ہیں ! آپ نے فرمایا : تمہارے اور اس کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت ہے ‘ پھر آپ نے پوچھا : کیا تم جانتے ہو کہ اس کے اوپر کیا ہے ؟ انہوں نے کہا اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جاننے والے ہیں۔ آپ نے فرمایا اس کے اوپر ایک اور آسمان ہے اور ان کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت ہے حتی کہ آپ نے سات آسمانوں کو گنا ‘ اور ہر دو آسمانوں کے درمیان اتنی مسافت ہے جتنی آسمان اور زمین کے درمیان ہے ‘ پھر آپ نے پوچھا : کیا تم جانتے ہو کہ اس کے اوپر کیا ہے ‘ انہوں نے کہا اللہ اور رسول ہی زیادہ جاننے والے ہیں ‘ آپ نے فرمایا : اس کے اوپر عرش ہے ‘ اس کے اور (ساتویں) آسمان کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا دو آسمانوں کے درمیان فاصلہ ہے ‘ پھر آپ نے پوچھا کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے نیچے کیا ہے ؟ صحابہ نے کہا اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جاننے والے ہیں ‘ آپ نے فرمایا اس کے نیچے زمین ہے ‘ پھر آپ نے پوچھا کیا تم جانتے ہو کہ اس کے نیچے کیا ہے ؟ صحابہ نے کہا اللہ اور اسکاروسول ہیزیادہ جاننے والے ہیں ‘ آپ نے فرمایا اس کے نیچے ایک اور زمین ہے اور ان دونوں زمینوں کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت ہے حتی کہ آپ نے سات زمینوں کو گنا اور ہر دوزمینوں کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت ہے ‘ پھر آپ نے فرمایا اس ذات کی قسم ! جس کے قبضہ قدرت میں (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے ‘ اگر تم سب سے نچلی زمین کی طرف رسی لٹکا ئو تو اللہ تعالیٰ پر اترے گی (یعنی اللہ کا علم اور اس کی قدرت اور اس کی سلطنت ہر جگہ کو محیط ہے) پھر آپ نے یہ آیت پڑھی۔
ھوالاول والاخر والظاھر والباطن ج وھو بکل شیء علیم (الحدید : ٣)
وہی اول ہے اور وہی آخر ہے اور وہی ظاہر ہے اور وہی باطن ہے اور وہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٢٩٨‘ مسند احمد ج ٢ ص ٣٧٠‘ السنۃ لابن ابی عاصم رقم الحدیث : ٥٧٨‘ کتاب الا سماء والصفات ج ٢ ص ١٤٣‘ العلل المتناہیہ رقم الحدیث : ٩)
اس حدیث کا تقاضا یہ ہے کہ یہ سات زمینیں پیاز کے چھلکوں کی طرح تہہ بہ تہہ ہیں اور یہ ساتوں زمینیں اسی کرئہ ارض میں ہیں اور چونکہ ہر دوزمینوں کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت ہے اس لیے پہلی زمین سے ساتویں زمین تک کی مسافت پانچ سو سال میں قطع ہونی چاہیے ‘ اب اس پر اشکال یہ ہے کہ ہوائی جہاز اس پورے کر ائہ ارض کے گرد زیادہ سے زیادہ دو دن میں چکر لگالیتا ہے ‘ کیونکہ انسان دو دن سے کم کی مسافت میں پاکستان سے امریکا پہنچ جاتا ہے حالانکہ اس حدیث کے اعتبار سے یہ مسافت پینتیس (٣٥) سو سال میں قطع ہونی چاہیے ‘ یا اوپر اور نیچے کا کوئی اور معنیٰ ہو جو فی الحال ہماری علمی دسترس سے باہر ہے کیونکہ کائنات کے بارے میں دن بدن نت نئے حقائق سامنے آرہے ہیں۔
آسمانوں کے مستدیر (گول) ہونے پر اس آیت میں دلیل ہے :
کل فی فلک یسبحون (الانبیاء : ٣٣) ان میں سے ہر سیارہ اپنے مدار میں تیر رہا ہے (گردش کررہا ہے) ۔
اور فلک اس چیز کو کہتے ہی جو مستد یر ہو ‘ علامہ جار اللہ محمد بن عمر زمخشری متوفی ٥٣٨ ھ ‘ علامہ المبارک بن محمد ابن الاثیر الجزری المتوفی ٦٠٦ ھ اور علامہ محمد طاہر پٹنی المتوفی ٩٨٦ ھ نے لکھا ہے :
الفک : ستارے کے گردش کرنے کی جگہ۔ (الفائق ج ٣ ص ٥١‘ الہایہ ج ٣ ص ٣٢٤‘ مجمع بحار الا نوارج ٤ ص ١٧٨)
المنجد کے مترجمین نے لکھا ہے : ستاروں کے چکر لگانے کی جگہ ‘ ہر چیز کا گول اور بڑا حصہ ‘ موج دریا ‘ جہاں پانی ہر طرف سے چکر کھا کر جمع ہونے لگے ‘ الفلکۃ ایک آسمان ‘ ہر وہ چیز جو ابھری ہوئی بلند اور گول ہو ‘ فلکۃ المغزل چرخے کا تکلہ ‘ سوت کا تنے کی جگہ۔ (المنجد اردو ص ٧٦٢ )
زمین کا متزلزل نہ ہونا اس کی حرکت کے منافی نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اللہ نے بغیر ستونوں کے آسمان بنائے جنہیں تم دیکھتے ہو۔
یعنی آسمان کسی ایسی چیز پر قائم نہیں ہیں جو ان کو اپنی جگہ سے زائل ہونے سے روک رہی ہو اور وہ صرف اللہ تعالیٰ کی قدرت سے اپنی جگہ برقرار رہتے ہیں۔
اس کے بعد فرمایا : اور زمین میں مضبوط پہاڑوں کو نصب کردیا تاکہ وہ تمہیں لرزانہ سکے۔ یعنی زمین کو بھی اپنے مدار پر قائم رکھا ہے اور وہ بھی دیگر سیاروں کی طرف اپنے مدار پر گردش کررہی ہے۔ اور فرمایا : اور اس زمین میں ہر قسم کے جانور پھیلا دیئے۔
یعنی زمین کا اپنے مدار میں گردش کرتے رہنا اور اس متزلزل نہ ہونا اس میں مختلف جانداروں کے سکون اور ان کے چلنے پھرنے کا سبب ہے ‘ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ جب زمین گردش کررہی ہے تو ہم ہلتے جلتے کیوں نہیں ؟ اور چکر کھا کر کیوں نہیں جاتے ‘ اس کا جواب یہ ہے کہ بہت بڑے بحری جہاز میں جو لوگ سفر کرتے ہیں وہ بھی اس میں پر سکون بیٹھے رہتے ہیں اور ان کو اسکی حرکت کا پتہ نہیں چلتا بلکہ ہوائی جہاز میں جو لوگ سفر کرتے ہیں وہ بھی اس میں پر سکون بیٹھے رہتے ہیں اور انکو ان کی حرکت کا پتہ نہیں چلتا تو زمین تو بحری جہاز اور ہوائی جہاز سے کروڑ ھا اور ارب ھا درجہ بڑی ہے اس کو حرکت اور گردش سے زمین والوں کے سکون اور ان کے چلنے پھرنے میں کب فرق آسکتا ہے !
اس کے بعد فرمایا : اور آسمان سے پانی نازل کیا سو ہم نے زمین میں ہر قسم کے عمدہ غلے ( اور میوے) پیدا کیے اللہ تعالیٰ نے زمین ‘ آسمان اور پانی کا ذکر کیا ان کی حرکت طبعی ہے اختیاری نہیں ہے اور حیوانوں کا ذکر کیا ان کی حرکت اختیاری اور ارادی ہے ‘ یعنی ہر چیز کو اس نے پیدا کیا ہے خواہ اس کی حرکت طبعی ہو یا اختیاری ہو !
اللہ تعالیٰ کی الوہیت اور اس کی توحید پر دلائل
جب اللہ تعالیٰ کی صناعی اور اس کی قدرت میں غور کیا جائے تو عقلاء کی عقلیں اور اذکیاء کی فہ میں حیران رہ جاتی ہیں ‘ جب انسان درختوں کے عجائبات اور ان کے خواص ‘ ان کے فوائد اور ان کے نقصانات ‘ ان کے پتوں ‘ پھولوں اور پھلوں کے مختلف رنگوں ‘ ان کی مختلف خوشبوئوں اور ان کے مختلف ذائقوں پر غور کرتا ہے تو اس کو بےاختیار کہنا پڑتا ہے کہ یہ سب یونہی اتفاق سے نہیں پیدا ہوگیا ہے ‘ ان سب کو ایک زبردست مد بر اور حکیم نے بنایا ہے ‘ اور ان تمام چیزوں کی یکسانیت یہ بتاتی ہے کہ ان چیزوں کا بنانے والا واحد ہے اگر ان کے بنانے والے متعدد ہوتے تو ان میں یکسانیت اور نظم نہ ہوتا۔
اللہ تعالیٰ نے آسمانوں ‘ زمینوں ‘ پہاڑوں اور حیوانات اور نباتات کا جو ذکر فرمایا ہے ان کی طرف اشارہ کر کے فرمایا : یہ ہے اللہ کا پیدا کیا ہوا ! تو اے مشرکو ! مجھے دکھائو کہ جن کو تم نے عبادت میں اللہ کا شریک بنا رکھا ہے انہوں نے کیا پیدا کیا ہے۔
توحید کی فضیلت اور شرک کی مذمت
جاننا چاہیے کہ عقائد میں سب سے افضل عقیدہ توحید کا ہے ‘ اور تمام بدعقیدگیوں میں سب سے بری بد عقیدگی شرک کی ہے ‘ اسی طرح تمام عبادتوں میں سب سے بڑی عبادت اللہ تعالیٰ کی توحید کا اقرار ہے اور تمام گناہوں میں سب سے بڑا گناہ شرک ہے ‘ توحید کا ایسا نور ہے جو موحدین کے تمام گناہوں کو مٹا دیتا ہے اور شرک ایک ایسی آگ ہے جو مشرکین کی تمام نیکیوں کو جلاڈالتی ہے۔
حضرت ابو الدرداء (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے کہا لا الہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ ( اللہ کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ‘ وہ واحد ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے) وہ جنت میں داخل ہوجائے گا ‘ میں نے کہا خواہ اس نے زنا کیا ہو اور خواہ اس نے چوری کی ہو ؟ آپ نے فرمایا خواہ اس نے زنا کیا ہو اور خواہ اس نے چوری کی ہو ! میں نے کہا خواہ اس نے زنا کیا ہو اور خواہ اس نے چوری کی ہو ؟ آپ نے فرمایا خواہ اس نے زنا کیا ہو اور خواہ اس نے چوری کی ہو ! میں نے کہا خواہ اس نے زنا کیا ہو اور خواہ اس نیچوری کی ہو ‘ آپ نے فرمایا خواہ اس نے زنا کیا ہوہ اور خواہ اس نے چوری کی ہو ‘ ابوالدرداء کی ناک کو خاک آلود کرتے ہوئے ! پھر میں باہر نکلا تاکہ لوگوں میں اس کا اعلان کروں ‘ تو میری حضرت عمر (رض) سے ملاقات ہوئی ‘ حضرت نے کہا واپس جائو ‘ اگر لوگوں کو یہ معلوم ہوگیا تو وہ صرف اسی قدر کہنے پر تکیہ کرلیں گے ‘ میں نے واپس جا کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی خبر دی آپ نے فرمایا عمر نے سچ کہا۔ ( مسند احمد ج ٦ ص ٤٤٢ طبع قدیم ‘ رقم الحدیث : ٢٧٥٥٩‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ١٤١٣‘ حافظ زین نے کہا اس حدیث کی سند حسن ہے ‘ حاشیہ مسند احمد رقم الحدیث : ٢٧٣٦٤‘ دارالحدیث قاہرہ ‘ ١٤١٦ ھ)
اس حدیث سے اللہ کو واحد ماننے اور شرک نہ کرنے کی فضیلت معلوم ہوئی اور یہ کہ اس کی جزاء جنت ہے ‘ اس حدیث میں سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کو ماننے کا ذکر نہیں ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کو واحد ماننے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کلام کو برحق مانا جائے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے محمد رسول اللہ (الفتح : ٢٩) اسی طرح اس حدیث میں باقی احکام شرعیہ پر عمل کرنے کا بھی ذکر نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے کلام کو برحق ماننا ان تمام احکام کے ماننے کو مستلزم ہے ‘ اور یہ جو فرمایا کہ موحد خواہ زنا کرے خواہ چوری کرے وہ جنت میں داخل ہوگا یہ عام ہے خواہ اللہ تعالیٰ کے فضل محض یا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شفاعت سے ابتدائً جنت میں داخل ہو خواہ اپنی بد اعمالیوں کی سزا پا کر بعد میں تاخیر سے جنت میں داخل ہو ‘ نیز اس حدیث میں یہ بھی دلیل ہے کہ بعض اوقات اکابر ‘ اصاغر کے قول کی طرف رجوع کرلیتے ہیں جیسے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمر کے قول کی طرف رجوع فرمایا ‘ اور یہ کہ عام لوگوں کے سامنے بشارت کے بیان کرنے میں احتیاط کرنی چاہیے تاکہ وہ کسی بشارت کا غلط مفہوم نہ سمجھ لیں یا وضاحت کرکے بشارت کو بیان کرنا چاہیے۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 31 لقمان آیت نمبر 10
[…] تفسیر […]