کنزالایمان مع خزائن العرفان پارہ 14 رکوع 22 سورہ النحل آیت نمبر 120 تا 128
اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّلّٰهِ حَنِیْفًاؕ-وَ لَمْ یَكُ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَۙ(۱۲۰)
بےشک ابراہیم ایک امام تھا(ف۳۷۵)اللہ کا فرمان بردار اور سب سے جدا (ف۲۷۶) اور مشرک نہ تھا(ف۲۷۷)
(ف275)
نیک خصائل اور پسندیدہ اخلاق اور حمیدہ صفات کا جامع ۔
(ف276)
دینِ اسلام پر قائم ۔
(ف277)
اس میں کُفّارِ قریش کی تکذیب ہے جو اپنے آپ کو دینِ ابراہیمی پر خیال کرتے تھے ۔
شَاكِرًا لِّاَنْعُمِهٖؕ-اِجْتَبٰىهُ وَ هَدٰىهُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ(۱۲۱)
اس کے احسانوں پر شکر کرنے والا اللہ نے اسے چن لیا (ف۲۷۸) اور اسے سیدھی راہ دکھائی
(ف278)
اپنی نبوّت و خلت کے لئے ۔
وَ اٰتَیْنٰهُ فِی الدُّنْیَا حَسَنَةًؕ-وَ اِنَّهٗ فِی الْاٰخِرَةِ لَمِنَ الصّٰلِحِیْنَؕ(۱۲۲)
اور ہم نے اسے دنیا میں بھلائی دی (ف۲۷۹) اور بےشک وہ آخرت میں شایانِ قرب ہے
(ف279)
رسالت و اموال و اولاد و ثناءِ حسن و قبولِ عام کے تمام ادیان والے مسلمان اور یہود اور نصارٰی اور عرب کے مشرکین سب ان کی عظمت کرتے اور ان سے مَحبت رکھتے ہیں ۔
ثُمَّ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ اَنِ اتَّبِـعْ مِلَّةَ اِبْرٰهِیْمَ حَنِیْفًاؕ-وَ مَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ(۱۲۳)
پھر ہم نے تمہیں وحی بھیجی کہ دین ابراہیم کی پیروی کرو جو ہر باطل سے الگ تھا اور مشرک نہ تھا (ف۲۸۰)
(ف280)
اِتّباع سے مراد یہاں عقائد و اصولِ دین میں موافقت کرنا ہے ۔ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس اِتّباع کا حکم کیا گیا ، اس میں آپ کی عظمت و منزلت اور رفعتِ درجت کا اظہار ہے کہ آپ کا دینِ ابراہیمی کی موافقت فرمانا حضرت ابراہیم علیہ الصلٰوۃ و السلام کے لئے ان کے تمام فضائل و کمالات میں سب سے اعلٰی فضل و شرف ہے کیونکہ آپ اکرم الاولین و الٰآخرین ہیں جیسا کہ صحیح حدیث میں وارد ہوا اور تمام انبیاء اور کل خَلق سے آپ کا مرتبہ افضل و اعلٰی ہے ۔
شعر
تو اصلی و باقی طوفیل تو اند ۔ تو شاہی و مجموع خیل تواند ۔
اِنَّمَا جُعِلَ السَّبْتُ عَلَى الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْهِؕ-وَ اِنَّ رَبَّكَ لَیَحْكُمُ بَیْنَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فِیْمَا كَانُوْا فِیْهِ یَخْتَلِفُوْنَ(۱۲۴)
ہفتہ تو انہیں پر رکھا گیا تھا جو اس میں مختلف ہوگئے (ف۲۸۱) اور بےشک تمہارا رب قیامت کے دن ان میں فیصلہ کردے گا جس بات میں اختلاف کرتے تھے (ف۲۸۲)
(ف281)
یعنی شنبہ کی تعظیم اور اس روز شکار ترک کرنا اور وقت کو عبادت کے لئے فارغ کرنا یہود پر فرض کیا گیا تھا اور اس کا واقعہ اس طرح ہوا تھا کہ حضرت موسٰی علیہ الصلٰوۃ و السلام نے انہیں روزِ جمعہ کی تعظیم کا حکم فرمایا تھا اور ارشاد کیا تھا کہ ہفتہ میں ایک دن اللہ تعالٰی کی عبادت کے لئے خاص کرو ، اس دن میں کچھ کام نہ کرو ، اس میں انہوں نے اختلاف کیا اور کہا وہ دن جمعہ نہیں بلکہ سنیچر ہونا چاہیے بجز ایک چھوٹی سی جماعت کے جو حضرت موسٰی علیہ الصلٰوۃ و السلام کے حکم کی تعمیل میں جمعہ پر ہی راضی ہوگئی تھی ، اللہ تعالٰی نے یہود کو سنیچر کی اجازت دے دی اور شکار حرام فرما کر ابتلا میں ڈال دیا تو جو لوگ جمعہ پر راضی ہو گئے تھے وہ تو مطیع رہے اور انہوں نے اس حکم کی فرمانبرداری کی ، باقی لوگ صبر نہ کر سکے ، انہوں نے شکار کئے اور نتیجہ یہ ہوا کہ مسخ کئے گئے ۔ یہ واقعہ تفصیل کے ساتھ سورۂ اعراف میں بیان ہو چکا ہے ۔
(ف282)
اس طرح کہ مطیع کو ثواب دے گا اور عاصی کو عقاب فرمائے گا ۔ اس کے بعد سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خطاب فرمایا جاتا ہے ۔
اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَ جَادِلْهُمْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُؕ-اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِهٖ وَ هُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِیْنَ(۱۲۵)
اپنے رب کی راہ کی طرف بلاؤ (ف۲۸۳) پکّی تدبیر اور اچھی نصیحت سے (ف۲۸۴) اور ان سے اس طریقہ پر بحث کرو جو سب سے بہتر ہو (ف۲۸۵) بےشک تمہارا رب خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بہکا اور وہ خوب جانتا ہے راہ والوں کو
(ف283)
یعنی خَلق کو دینِ اسلام کی دعوت دو ۔
(ف284)
پکی تدبیر سے وہ دلیلِ محکَم مراد ہے جو حق کو واضح اور شبہات کو زائل کر دے اور اچھی نصیحت سے ترغیبات و ترہیبات مراد ہیں ۔
(ف285)
بہتر طریق سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالٰی کی طرف اس کی آیات اور دلائل سے بلائیں ۔
مسئلہ : اس سے ہوا کہ دعوتِ حق اور اظہارِ حقانیتِ دین کے لئے مناظرہ جائز ہے ۔
وَ اِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِهٖؕ-وَ لَىٕنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَیْرٌ لِّلصّٰبِرِیْنَ(۱۲۶)
اور اگر تم سزا دو تو ویسی ہی سزا دو جیسی تکلیف تمہیں پہنچائی تھی(ف۲۸۶) اور اگر تم صبر کرو (ف۲۸۷) تو بےشک صبر والوں کو صبر سب سے اچھا
(ف286)
یعنی سزا بقدرِ جنایت ہو اس سے زائد نہ ہو ۔
شانِ نُزول : جنگِ اُحد میں کُفّار نے مسلمانوں کے شُہداء کے چہروں کو زخمی کر کے ان کی شکلوں کو تبدیل کیا تھا اور ان کے پیٹ چاک کئے تھے ، ان کے اعضاء کاٹے تھے ان شُہداء میں حضرت حمزہ بھی تھے ، سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب انہیں دیکھا تو حضور کو بہت صدمہ ہوا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قسم کھائی کہ ایک حضرت حمزہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا بدلہ ستّر کافِروں سے لیا جائے گا اور ستّر کا یہی حال کیا جائے گا ۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازِل ہوئی تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ ارادہ ترک فرمایا اور اپنی قسم کا کَفّارہ دیا ۔
مسئلہ : مُثلہ یعنی ناک کان وغیرہ کاٹ کر کسی کی ہیئت کو تبدیل کرنا شرع میں حرام ہے ۔ (مدارک)
(ف287)
اور انتقام نہ لو ۔
وَ اصْبِرْ وَ مَا صَبْرُكَ اِلَّا بِاللّٰهِ وَ لَا تَحْزَنْ عَلَیْهِمْ وَ لَا تَكُ فِیْ ضَیْقٍ مِّمَّا یَمْكُرُوْنَ(۱۲۷)
اور اے محبوب تم صبر کرواور تمہارا صبر اللہ ہی کی توفیق سے ہے اور ان کا غم نہ کھاؤ (ف۲۸۸) اور ان کے فریبوں سے دل تنگ نہ ہو (ف۲۸۹)
(ف288)
اگر وہ ایمان نہ لائیں ۔
(ف289)
کیونکہ ہم تمہارے مُعین و ناصر ہیں ۔
اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّ الَّذِیْنَ هُمْ مُّحْسِنُوْنَ۠(۱۲۸)
بےشک اللہ ان کے ساتھ ہے جو ڈرتے ہیں اور جو نیکیاں کرتے ہیں