أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلَمۡ تَرَ اَنَّ الۡفُلۡكَ تَجۡرِىۡ فِى الۡبَحۡرِ بِنِعۡمَتِ اللّٰهِ لِيُرِيَكُمۡ مِّنۡ اٰيٰتِهٖؕ اِنَّ فِىۡ ذٰ لِكَ لَاٰيٰتٍ لِّـكُلِّ صَبَّارٍ شَكُوۡرٍ ۞

ترجمہ:

کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ کی نعمت سے سمندر میں کشتیاں رواں دواں ہیں تاکہ وہ تم لوگوں کو اپنی بعض نشانیاں دکھائے ‘ بیشک اس میں ہر زیادہ صبر کرنے والے ‘ بہت شکر کرنے والے کے لیے نشانیاں ہیں

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ کی نعمت سے سمندر میں کشتیاں رواں دواں ہیں ‘ تاکہ وہ تم کو اپنی بعض نشانیاں دکھائے ‘ بیشک اس میں ہر زیادہ صبر کرنے والے ‘ بہت شکر کرنے والے کے لیے نشانیاں ہیں اور جب انہیں کوئی موج سائبانوں کی طرح ڈھانپ لیتی ہے تو وہ اخلاص سے عبادت کرتے ہوئے اللہ کو پکارتے ہیں اور جب اللہ انہیں (طوفان سے) نجات دے کر خشکی کی طرف لے آتا ہے تو بعض ان میں سے معتدل رہتے ہیں ‘ اور ہماری آیتوں کا صرف وہی شخص انکار کرتا ہے جو بڑا بد عہد اور سخت ناشکرا ہے (لقمان : ٣٢۔ ٣١)

صبر اور شکر کی فضیلت میں احادیث اور آثار 

لقمان : ٣١ میں صبا اور شکور کے الفاظ ہیں ‘ یہ صبر اور شکر کے مبالغہ کے صیغے ہیں ‘ یعنی بہت صبر کرنے والا اور بےحد شکر کرنے والا ‘ صبار وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کی قضاء و قدر پر صبر کرے اور شکور وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر شکر کرے ‘ صبر اور شکر ایمان کی افضل صفات ہیں ‘ حدیث میں ہے :

حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے فرمایا : صبر نصف ایمان ہے اور یقین (کامل) ایمان ہے۔

(المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٨٥٤٤‘ مجمع الزوائد ج ١ ص ٥٧‘ دارالکتاب العربی بیروت) 

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایمان کے دو نصف ہیں ‘ ایک نصف صبر میں ہے اور ایک نصف شکر میں ہے۔ حافظ سیوطی نے کہا اس حدیث کی سند ضعیف ہے۔ (شعب الایمان رقم الحدیث : ٩٧١٥‘ الفردوس للد یلمی رقم الحدیث ٣٧٨‘ الجامع الصغیر رقم الحدیث : ٣١٠٦‘ جمع الجوامع رقم الحدیث : ٩٧٤٣‘ کنزالعمال رقم الحدیث : ٦١ )

انسان اپنی قوت بدنیہ کے اعتبار سے صبر میں مشقت اٹھاتا ہے جیسے مسجد کی تعمیر میں بنیادیں کھود نے کے لیے مشقت برداشت کرنا یا دیواریں بنانے کے لیے بھاری پتھر یا اینٹیں اٹھا اٹھا کر لانا یا مثلاً سر میں یا کمر میں شدید درد ہو تو اس کو برداشت کرنا ‘ اس قسم کے صبر میں بھی فضیلت ہے لیکن زیادہ فضیلت اس میں ہے کہ اس کا دل کسی کام کے لیے چاہ رہاہو اور اس کی طبیعت اس کام کے لیے مچل رہی ہو لیکن وہ خوف خدا سے نفس کے منہ زور گھوڑے کے منہ میں قوت سے لگام ڈال کر اس کو روک لے ‘ مثلاً صبح کی نماز کی جماعت کے وقت اس کو زبردست نیند آرہی ہو اور باہر سردی ہو اور اس کا دل چاہ رہا ہو کہ وہ اسی طرح گرم گرم بستر میں دیرتک سوتا رہے لیکن وہ صرف خوف خدا سے اپنے نفس پر قابو پائے اور گناہ سے اپنا دامن چھڑائے ‘ صبر کی اس پر مشقت وادی کے امام حضرت سید نا حضرت یوسف (علیہ السلام) ہیں جنہوں نے فرمایا تھا :

رب السجن احب الی مما یدعوننی الیہ ج (یوسف : ٣٣) اے میرے رب ! جس چیز کی طرف مجھے یہ عورتیں دعوت دی رہی ہیں اس کی بہ نسبت مجھے قیدخانہ زیادہ محبوب ہے۔

اور شکر میں دل سے نعمت کا تصور کیا جاتا ہے اور زبان سے نعمت دینے والے کی تعریف اور تحسین کی جاتی ہے اور جسمانی اعضاء کے ساتھ اس کی خدمت کی جاتی ہے ‘ اس میں اختلاف ہے کہ صبر افضل ہے یا شکر افضل ہے ‘ بعض نے کہا بلا اور مصیبت پر صبر کرنا افضل ہے ‘ بعض نے کہا نعمت ملنے پر شکر کرنا افضل ہے ‘ بعض نے کہا بلاء اور مصیبت پر بھی شکر کرنا افضل ہے۔

بعض صوفیاء یہ دعا کرتے تھے : اے اللہ ! ہمیں عبد صابر نہ بنانا عبد شاکربنانا۔

حضرت معاذ بن جبل (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سنا ایک شخص یوں دعا کررہا تھا : اے اللہ ! میں تجھ سے صبر کا سوال کرتا ہوں ! آپ نے فرمایا تم نے اللہ سے بلاء (مصیبت) کا سوال کیا ہے ‘ تم اللہ سے عافیت کا سوال کرو۔

(سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٥٢٧‘ مصنف ابن ابی شیبہ ج ١٠ ص ٣٦٩‘ مسند احمد ج ٥ ص ٢٣١‘ المعجم الکبیر ج ٢٠‘ رقم الحدیث : ١٠٠۔ ٩٩۔ ٩٨۔ ٩٧‘ حلیۃ الاولیاء ج ٢ ص ٢٠٤‘ کتاب الاسماء والصفات ج ١ ص ٢٢٤ )

صوفیاء کے نزدیک صبر کی تعریفات 

حضرت علی بن ابی طالب (رض) نے فرمایا جس طرح جسم سر کا مقام ہے ‘ اسی طرح ایمان میں صبر کا مقام ہے۔

جنید نے کہا ناگواری کا اظہار کیے بغیر تلخی کے گھونٹ پینا صبر ہے۔

ذوالنون نے کہا مخالفات شرعیہ سے دور رہنا اور سکون کے ساتھ مصائب کے گھونٹ بھرنا صبر ہے۔

بعض نے کہا اظہار شکایت کی بغیر مصائب میں فنا ہونا صبر ہے۔

ابو عثمان نے کہا جس نے اپنے آپ کو مصائب برداشت کرنے کا عادی بنا لیا ہو وہ صبا رہے۔

عمروبن عثمان نے کہا اللہ تعالیٰ کے احکام اور اس کی قضا پر ثابت قدم رہنا اور مصائب کا خوشی سے استقبال کرنا صبر ہے۔

الخواص نے کہا کتاب اور سنت کے احکام کی تعمیل میں ثابت قدم رہنا صبر ہے۔

محمد بن الحسین نے کہا میں نے علی بن عبد اللہ البصری سے سنا کہ شبلی سے ایک شخص نے پوچھا صبر کرنے والوں پر کس چیز سے صبر کرنا زیادہ سخت ہوتا ہے ؟ شبلی نے کہا اللہ کی اطاعت اور عبادت میں صبر کرنا ‘ اس نے کہا نہیں ! شبلی نے کہا اللہ کی خاطر صبر کرنا ! اس نے کہا نہیں ! شبلی نے کہا اللہ کے ساتھ صبر کرنا ! اس نے کہا نہیں ‘ شبلی نے کہا پھر کس چیز پر صبر کرنا سب سے زیادہ سخت ہوتا ہے ؟ اس نے کہا کے فراق پر صبر کرنا ‘ یہ سن کر شبلی نے اس قدر زور سے چیخ ماری کہ لگتا تھا کہ ان کی روح نکل گئی ہے۔

بعض نے کہا اپنے نفسوں کو اللہ کی اطاعت پر صابر رکھو ‘ اپنے دلوں کو اللہ کی طرف سے آئی ہوئی مصیبتوں پر صابر رکھو اور اپنی روحوں کو اللہ سے ملاقات کے شوق پر صابر رکھو۔ (الرسالۃ القشیر یہ ص ٢٢١۔ ٢١٩ ملتقطا ‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤١٨ ھ)

صوفیاء کے نزدیک شکر کی تعریفات 

شکر کی حقیقت یہ ہے کہ محسن کے احسان کا ذکر کرکے اس کی تعریف اور تحسین کی جائے ‘ پس بندہ اللہ کا شکر ادا کرے تو اس کے احسان کا ذکر کرکے اس کی حمد وثناء کرے ‘ اور اللہ سبحانہ بندہ کا شکر کرے تو اس کے احسان ذکر کرکے اس کی تحسین فرمائے ‘ اور بندہ کا احسان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اچھی طرح عبادت کرے اور اللہ سبحانہ کا بندہ پر احسان یہ ہے کہ وہ اس پر انعام اور اکرام کرے اور اس کو شکر ادا کرنے کی توفیق دے۔

زبان کا شکریہ ہے کہ بندہ اللہ کی نعمت کا اعتراف کرے ‘ اعضاء سے شکر یہ ہے کہ اس کی اطاعت اور عبادت کرے ‘ دل سے شکر یہ ہے کہ ہر وقت اس کی صفات کے مطالعہ اور ذات کے مشاہدہ میں حاضر رہے۔

علماء کا شکر یہ ہے کہ وہ اللہ کے احکام پہنچائیں ‘ عابدوں کا شکر یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نفلی عبادت میں زیادہ مشغول رہیں ‘ عارفین کا شکر یہ ہے کہ وہ ہرحال میں استقامت پر رہیں۔

ابوبکر وراق نے کہا نعمت کا شکر ہے منعم کا مشاہدہ کرنا اور اپنے آپ کو محروم ہونے سے محفوظ رکھنا۔

ابو عثمان نے کہا اپنے آپ کو شکر کی ادائیگی سے عاجز پانا شکر ہے ‘ اس کی تفصیل یہ ہے کہ شکر کی ادائیگی پر شکر کرنا بڑا شکر ہے۔ پھر اس شکر کی ادائیگی پر شکر کرنا اس سے بھی بڑا شکر ہے ‘ علی ہذا القیاس۔

جنید نے کہا شکر یہ ہے کہ تم اپنے آپ کو اس نعمت کا اہل نہ پائو۔

بعض نے کہا شاکر وہ ہے جو موجود پر شکر کرتا ہے ‘ اور شکور وہ ہے جو نعمت کے مفقود ہونے پر شکر کرتا ہے ‘ اور بعض نے کہا شاکر وہ ہے جو اللہ سے ملاقات پر شکر کرتا ہے اور شکور وہ ہے جو مسترد ہونے پر بھی شکر کرتا ہے ‘ اور بعض نے کہا شاکروہ ہے جو نفع پر شکر کرتا ہے اور شکور وہ ہے جو منع پر شکر کرتا ہے ‘ اور بعض نے کہا شاکر وہ ہے جو عطا پر شکر کرتا ہے اور شکور وہ ہے جو بلا پر شکر کرتا ہے۔ ابو عثمان نے کہا عام لوگ کھانے پینے اور پہننے کی نعمتوں پر شکر ادا کرتے ہیں اور خواص دلوں پر وارد ہونے وال معانی پر شکر ادا کرتے ہیں۔ 

حضرت دائود (علیہ السلام) نے کہا اے اللہ ! میں تیرا شکر کیسے ادا کروں کیونکہ تیری نعمت پر شکر ادا کرنا یہ بھی نعمت ہے ‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اب تم نے میرا شکر ادا کردیا ‘ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ سے عرض کیا : اے اللہ ! تو نے حضرت آدم کو اپنے ہاتھ سے بنایا اور ان پر متعدد انعامات فرمائے انہوں نے تیرا شکر کیسے ادا کیا ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : انہوں نے یہ جان لیا کہ انعامات میں نے کیے ہیں ‘ سو میرا شکر ادا ہوگیا۔

سہل بن عبد اللہ سے کسی نے کہا رات کو چور میرے گھر میں داخل ہوا اور میرا مال و متاع لے گیا ‘ سہل نے کہا اللہ کا شکر ادا کرو ‘ اگر شیطان تمہارے دل میں داخل ہو کر تمہارا ایمان چرالیتا تو تم پھر کیا کرتے !

جنید نے کہا ایک دن سری نے مجھ سے پوچھا شکر کی کیا تعریف ہے ؟ میں نے کہا اللہ کی کسی نعمت سے اس کی کسی نافرمانی پر مدد نہ لی جائے۔ حس بن علی حجر اسود سے لپٹ کر کہہ رہے تھے : اے اللہ تو نے مجھے نعمت دی اور مجھے شکر گزار نہ پایا اور مجھ پر مصیبت طاری کی تو مجھے صبر کرنے والا نہ پایا ‘ تو نے شکر نہ کرنے کی بناء پر مجھ سے نعمت چھینی نہیں اور صبر نہ کرنے کی وجہ سے سختی نہیں کی ‘ اے اللہ ! تو کریم ہے اور کریم کرم کرنے کے سوا اور کیا کرتا ہے ! حضرت نوح (علیہ السلام) کو عبد شکور اس لیے فرمایا کہ وہ بیت الخلاء سے آتے وقت یہ دعا کرتے تھے۔ الحمد اللہ الذی اذاقنی لذتہ وابقی فی جسدی منفعتہ واخرج عنی اذاہ۔ (الرسالۃ القشیر یہ ص ٢١٣۔ ٢١١ ملسقطا دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤١٨ ھ)

معتدل لوگوں کا بیان 

اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اور جب کوئی موج انہیں سائبانوں کی طرح ڈھانپ لیتی ہے۔ الایۃ ( لقمان : ٣١)

موج واحد ہے اور اس کو سائبانوں کے ساتھ تشبیہ دی ہے حالانکہ وہ جمع ہے ‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر موج کے بعد دوسری موج آتی ہے ‘ اور وہ بھی سائبانوں کی طرح ہوجاتی ہیں۔

اور فرمایا جب اللہ انہیں خشکی کی طرف لے آتا ہے تو ان میں سے بعض معتدل ہیں ‘ یعنی انہوں نے سمندری طوفان میں گھرتے وقت اللہ سے جو نذر مانی تھی اور جو عہد و پیمان کیا تھا اس کو پورا کرتے ہیں اور وہ توحید کا اعتراف کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں۔ 

امام الحسین بن مسعود البغوی المتوفی ٥١٦ ھ لکھتے ہیں :

جب مکہ فتح ہوگیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ حکم دیا کہ چار آدمیوں کے سوا کسی کو قتل نہ کریں ‘ عکرمہ بن ابی جہل ‘ عبداللہ بنخطل ‘ قیس بن ضبابہ اور عبداللہ بن ابی سرح ‘ رہے عکرمہ تو وہ سمندر کے سفر پر روانہ ہوگئے ‘ سمندر میں طوفان آگیا تو کشتی والوں نے کہا اخلاص کے ساتھ اللہ سے دعا کرو کیونکہ یہاں تمہارے معبود کسی کام نہیں آسکتے ‘ عکرمہ نے دل میں سوچا جب سمندر میں صرف اللہ دعائیں سنتا ہے تو خشکی میں بھی وہی معبود ہے ‘ اور انہوں نے یہ عہد کیا کہ اے اللہ ! اگر تو نے مجھے اس طوفان سے سلامتی کے ساتھ نکال لیاتو میں سیدھا جا کر (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ میں ہاتھ رکھ دوں گا ‘ سو میں ان کو ضرور معاف کرنے والا کریم پائوں گا پھر وہ آپ کے پاس جا کر مسلمان ہوگئے۔(معالم التزیل ج ٣ ص ٥٩٢‘ الوسیط ج ٣ ص ٤٤٧‘ الکامل لابن اثیرج ٢ ص ٢٤٨‘ روح المعانی جز ٢١ ص ١٢٠ )

پھر فرمایا اور ہماری آیتوں کا صرف وہی شخص انکار کرتا ہے جو بڑا بدعہد اور سخت ناشکرا ہے ‘ اس آیت میں ختار کا لفظ ہے :

ختر کا معنی عہد شکنی کرنا ہے۔ (المفردات ج ١ ص ١٨٩‘ مکتبہ نزار مصطفیٰ مکہ مکرمہ ‘ ١٤١٨ ھ)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 31 لقمان آیت نمبر 31