لِلّٰهِ مَا فِى السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِؕ اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الۡغَنِىُّ الۡحَمِيۡدُ ۞- سورۃ نمبر 31 لقمان آیت نمبر 26
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
لِلّٰهِ مَا فِى السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِؕ اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الۡغَنِىُّ الۡحَمِيۡدُ ۞
ترجمہ:
جو کچھ آسمانوں میں اور زمینوں میں ہے وہ سب اللہ ہی کی ملکیت میں ہے ‘ بیشک اللہ ہی بےپرواہ ‘ حمد کیا ہوا ہے
اللہ تعالیٰ کے غنی ہونے کی وجوہ
پھر فرمایا جو کچھ آسمانوں میں اور زمینوں میں ہے وہ سب اللہ ہی کی ملکیت ہے ‘ بیشک اللہ ہی بےپرواہ حمد کیا ہوا ہے (لقمان : ٢٦ )
جوشخص کسی چیز کو بنانے والا ہو وہ اس چیز کا مالک ہوتا ہے ‘ اس سے پہلی آیت میں یہ بتایا تھا کہ کفار کو بھی اس کا اعتراف ہے کہ تمام آسمانوں اور زمینوں کا پیدا کرنے والا صرف اللہ ہے اور جب وہ ان کا پیدا کرنے والا ہے تو وہی ان کا مالک ہے۔
اور فرمایا : اللہ غنی ہے ‘ کیونکہ جب تمام چیزیں اس نے پیدا کی ہیں تو وہ ان چیزوں میں سے کسی کا محتاج نہیں ہے ‘ اس لیے وہ ہر چیز سے غنی ہے ‘ یعنی کسی چیز کا محتاج نہیں ہے ‘ دوسری وجہ یہ ہے کہ اس سے پہلی آیت میں فرمایا تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں ‘ یعنی وہی تمام تعریفوں کا مستحق ہے ‘ کوئی اس کی تعریف کرے یا نہ کرے ‘ سب کچھ اس کا پیدا کیا ہوا ہے ‘ اور ہر چیز کا حسن اور کمال اس کا بنایا ہوا ہے ‘ اور حمد کا معنی ہے اظہار صفات کمالیہ تو جب اس نے اس کائنات کو بناکر اس میں محاسن اور کمالات اور وجوہ ستائش اور خوبیاں رکھ دیں تو اس کی حمد ہوگئی کوئی اس کی حمد کرے یا نہ کرے وہ ہر حامد کی ہر حمد سے غنی ہے۔
اور اس کے غنی ہونے کی تیسری وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی حمد خود کرتا ہے ‘ مخلوق میں سے جس نے بھی اس کی حمد کی پیدا ہونے کے بعد کی ‘ اور اللہ تعالیٰ اپنی ازلاً ابداً کررہا ہے ‘ سو وہ مخلوق کی حادث اور فانی حمد سے غنی ہے کیونکہ اس کی حمد قدیم اور لافانی ہے۔
نیز مخلوق کا علم محدود اور ناقص ہے وہ اس کے غیر متناہی کمالات کا اور اس کی لامحدود خوبیوں اور نعمتوں کا احاطہ نہیں کرسکتی سو کوئی مخلوق اس کی ایسی حمد نہیں کرسکتی جیسی حمد وہ خود اپنی کرتا ہے ‘ لہٰذا وہ ہر حامد کی حمد سے غنی ہے۔
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سجدہ میں فرما رہے تھے :
لا احصی ثناء علیک انت کما اثنیت علی نفسک میں تیری ایسی حمد و ثنا نہیں کرسکا جیسی حمد و ثنا خود اپنی فرماتا ہے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٤٧٦‘ سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٨٧٩‘ سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٤٩٣‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ١١٠٠‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٨٤١‘ مصنف ابن ابی شیبہ ج ١٠ ص ١٩٣‘ مسند احمد ج ٣ ص ٤٢٩‘ مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ١٤٧٩‘ المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٧٢٤٥‘ المستدرک ج ١ ص ٥٣٢)
بعض واعظین کا اللہ کے ذکر کو فانی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذکر کو باقی قرار دینا
بعض واعظین نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی فضیلت میں یہ نکتہ آفرینی کرت ہیں کہ اللہ تعالیٰ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر صلوۃ پڑھتا ہے اور آپ کا ذکر کرتا ہے ‘ اور اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اس کی حمد و ثنا مخلوق کرتی ہے اور مخلوق فنا ہوجائے گی تو اللہ تعالیٰ کا ذکر بھی ختم ہوجائے گا ‘ اور اللہ تعالیٰ دائم اور باقی ہے تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر بھی دائم اور باقی رہے گا ‘ خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر ختم ہوجائے گا اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر ختم نہیں ہوگا۔
ہم ایسی نکتہ آفرینیوں سے اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں ‘ اللہ تعالیٰ خود بھی اپنی حمدو ثناء فرماتا ہے اور اپنا ذکر فرماتا ہے جیسا کہ ابھی ہم نے متعدد کتب احادیث کے حوالوں سے بیان کیا ہے ‘ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں تیری ایسی حمد و ثنا نہیں کرسکا جیسی تو خود اپنی حمد و ثنا فرماتا ہے اور النمل : ٨٧ اور الزمر : ٦٨ میں اللہ تعالیٰ نے صور پھونکے جانے کے بعد بعض افراد کا استثناء کیا ہے جو بےہوش نہیں ہوں گے ‘ ان میں ملائکہ مقربین ‘ شہداء اور انبیاء داخل ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اس کی حمد وثناء کرتے رہیں گے۔
نیز قرآن مجید کی بہت آیات میں اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء ہے جیسے الملک القدوس السلم المؤمن المھیمن العزیز الجبار المتکبر (الحشر : ٢٣) اور قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام قدیم ہے سو اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بھی قدیم ہے ‘ سو اللہ تعالیٰ کا ذکر ازلی ‘ ابدی ‘ دائمی اور سرمدی ہے ‘ غیر فانی اور لازوال ہے ‘ اللہ تعالیٰ کے ذکر کو فانی اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذکر کو باقی کہہ کر مخلوق کو خالق سے بڑھانے کی مذموم کوشش کرنا ہے ‘ کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایسی تعریف سے خوش ہوں گے۔
القرآن – سورۃ نمبر 31 لقمان آیت نمبر 26