اَللّٰهُ الَّذِىۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ وَمَا بَيۡنَهُمَا فِىۡ سِتَّةِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسۡتَوٰى عَلَى الۡعَرۡشِؕ مَا لَكُمۡ مِّنۡ دُوۡنِهٖ مِنۡ وَّلِىٍّ وَّلَا شَفِيۡعٍؕ اَفَلَا تَتَذَكَّرُوۡنَ ۞- سورۃ نمبر 32 السجدة آیت نمبر 4
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَللّٰهُ الَّذِىۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ وَمَا بَيۡنَهُمَا فِىۡ سِتَّةِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسۡتَوٰى عَلَى الۡعَرۡشِؕ مَا لَكُمۡ مِّنۡ دُوۡنِهٖ مِنۡ وَّلِىٍّ وَّلَا شَفِيۡعٍؕ اَفَلَا تَتَذَكَّرُوۡنَ ۞
ترجمہ:
اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں کو اور زمینوں کو اور ان تمام چیزوں کو جو ان میں ہیں چھ دنوں میں پیدا کیا ‘ پھر عرش پر جلوہ فرما ہوا ‘ اسے چھوڑنے کے بعد نہ تمہارا کوئی مددگار ہے نہ شفاعت کرنے والا ‘ پس کیا تم نصیحت قبول نہیں کرتے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں کو اور زمینوں کو اور ان تمام چیزوں کو جو ان میں ہیں چھ دنوں میں پیدا کیا پھر وہ عرش پر جلوہ فرما ہوا ‘ اے چھوڑ نے کے بعد نہ تمہارا کوئی مددگار ہے نہ شفاعت کرنے والا ‘ پس کیا تم نصیحت قبول نہیں کرتے (السجدہ : ٤)
جن چھ دنوں میں دنیا بنائی گئی ان کی تفصیل
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : اللہ عزوجل نے زمین کو ہفتہ کے دن پیدا فرمایا ‘ اور اتوار کے دن زمین میں پہاڑوں کو پیدا کیا اور پیر کے دن درختوں کو پیدا کیا اور منگل کے دن ناپسندیدہ چیزوں کو پیدا کیا اور نور کو بدھ کے دن پیدا کیا اور زمین پر چلنے والے جانداروں کو جمعرات کے دن پیدا کیا اور تمام مخلوق کے آخر میں حضرت آدم (علیہ السلام) کو جمعہ کے دن عصر کے بعد پیدا کیا ‘ حضرت آدم کو جمعہ کی ساعات میں سے آخری ساعت میں عصر کے بعد سے رات کے وقت کے درمیان میں پیدا کیا گیا۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٧٨٩‘ السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث : ١٣٩٢‘ مسند احمد ج ٢ ص ٣٢٧ )
منگل کے دن کو منحوس سمجھنے کی تحقیق
اس حدیث میں ہے منگل کے دن ناپسندیدہ چیزوں کو پیدا کیا ‘
قاضی عیاض بن موسیٰ مالکی اندلسی متوفی ٥٤٤ ھ لکھتے ہیں :
امام نسائی نے روایت کیا ہے کہ التقن کو منگل کے دن پیدا کیا (السنن الکبری ٰ للنسائی رقم الحدیث : ١١٣٩٢‘ مسند احمد ج ٢ ص ٣٢٧ )
التقن سے مراد ہے سخت اور مضبوط چیزیں ‘ مثلاً لوہا اور دیر معدنیات جن سے کار معاش میں مدد حاصل ہوتی ہے اور ہر وہ چیز جس سے کسی چیز کی اصلاح اور مضبوطی ہو اس کو تقن کہتے ہیں۔ (اکمال المعلم بفوائد مسلم ج ٨ ص ٣٢١‘ مطبوعہ دارالوفاء بیروت ‘ ١٤١٩ ھ)
علامہ نووی متوفی ٦٧٦ ھ نے لکھا ہے ان دونوں حدیثوں میں کوئی تعارض نہیں ہے ‘ ان دونوں چیزوں کو منگل کے دن پیدا کیا گیا۔ (صحیح مسلم بشرح النواوی ج ١١ ص ٦٩٦٦‘ مکتبہ نزار مصطفیٰ مکہ مکرمہ ‘ ١٤١٧ ھ)
چونکہ اس حدیث میں ہے کہ منگل کے دن ناپسندیدہ چیزوں کو پیدا کیا گیا ہے اسی وجہ سے بعض لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہوئے کہ منگل کا دن منحوس ہوتا ہے اور وہ اس دن میں کام کاج شروع کرنے میں بدشگونی لیتے ہیں۔ چناچہ بعض لوگوں نے کہا :
منگل کے دن کی نسبت مولی علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کا ارشاد ہے کہ جو کپڑا منگل کے دن قطع ہو وہ جلے گا یا ڈوبے گایا چوری ہوجائے گا۔
علامہ شامی متوفی ١٢٥٢ ھ لکھتے ہیں علامہ حامد آفندی سے سوال کیا گیا کہ :
آیا دن اور رات میں سے کوئی دن یا رات سفر کرنے کے لیے یا کہیں منتقل ہونے کے لیے کوئی ساعت منحوس یا نامبارک ہوتی ہے ؟ تو انہوں نے جواب دیا جو شخص کسی دن کے منحوس ہونے کے متعلق سوال کرے اس کو جواب دینے کے بجائے اس سے اعراض کیا جائے ‘ اور اس کے اس فعل کو جہالت قراردیا جائے اور اس کی مذمت کی جائے ‘ کیونکہ یہ یہود کا طریقہ ہے اور مسلمانوں کا شیوہ نہیں ہے ‘ جو اپنے خالق اور پیدا کرنے والے پر توکل کرتے ہیں اور حضرت علی (رض) سے جو اس سلسلہ میں بعض دنوں کے مایوس کن ہونے کے متعلق روایات ہیں وہ سب باطل اور جھوٹ ہیں ‘ اس سے بچنا چاہیے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ (تنقیح الفتاویٰ الحدمدیہ ج ٢ ص ٣٦٧‘ المطبعہ الخیر یہ ‘ ١٣٠٢ ھ)
بعض ایام کو منحوس اور نامبارک سمجھنے کو یہودیوں کا طریقہ اس لیے قرار دیا ہے کہ جب بنی اسرائیل پر کوئی مصیبت آتی تو وہ اس کو حضر موسیٰ کی نحوست کہتے تھے ‘ قرآن مجید میں ہے :
فاذا جآء تہم الحسنۃ قالوا لنا ھذہ ج وان تصبہم سیٔۃ یطیروا بموسی و من معہ ط الآ انما طئر ھم عنداللہ ولٰکن اکثرھم لا یعلمون (الاعراف : ١٣١)
پس جب ان پر خوش حالی آتی تو وہ کہتے کہ یہ ہمارے سبب سے ہے اور جب ان پر بدحالی آتی تو وہ اس کو موسیٰ اور ان کے اصحاب کی نحوست قرار دیتے ‘ سنو ! ان کافروں کی نحوست اللہ کے نزدیک (ثابت) ہے لیکن ان میں سے اکثر نہیں جانتے۔ (الاعراف : ١٣١)
کسی چیز کو منحوس سمجھنے اور اس سے بدشگونی لینے کے متعلق احادیث میں ہے :
حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین بار فرمایا بدشگونی شرک ہے ‘ حضرت ابن مسعود نے کہا ہم میں سے ہر شخص کو بدشگونی عارض ہوتی ہے اور اس کے دل میں اس سے سخت ناپسندیدگی آتی ہے لیکن اللہ پر توکل اس کو زائل کردیتا ہے۔ (سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٠ ٣٩١‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٦٢٠‘ مسند احمد ج ١ ص ٣٨٩‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٥٣٨‘ جامع الاصول رقم الحدیث : ٥٨٠٣)
نحوست اور بدشگونی کے متعلق ہم نے مفصل بحث تبیان القرآن ج ٤ ص ٢٧٩۔ ٢٧٠ میں کی ہے ‘ وہاں ملا حظہ فرمائیں۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 32 السجدة آیت نمبر 4