أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَوَلَمۡ يَهۡدِ لَهُمۡ كَمۡ اَهۡلَكۡنَا مِنۡ قَبۡلِهِمۡ مِّنَ الۡقُرُوۡنِ يَمۡشُوۡنَ فِىۡ مَسٰكِنِهِمۡ‌ ؕ اِنَّ فِىۡ ذٰ لِكَ لَاٰيٰتٍ ؕ اَفَلَا يَسۡمَعُوۡنَ ۞

ترجمہ:

کیا انہوں نے اس سے ہدایت حاصل نہیں کی کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی قوموں کو ہلاک کردیا ہے جو اپنے گھروں میں چلتے پھرتے تھے ‘ بیشک اس میں ضرور نشانیاں ہیں ‘ کیا پس یہ سنتے نہیں ہیں

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : کیا انہوں نے اس سے ہدایت حاصل نہیں کی کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی قوموں کو ہلاک کردیا جو اپنے گھروں میں چلتے پھرتے تھے ‘ بیشک اس میں ضرور نشانیاں ہیں ‘ کیا پس یہ سنتے نہیں ہیں ! کیا انہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ ہم پانی کو بنجر زمین کی طرف بہا کرلے جاتے ہیں ‘ پھر ہم اس سے فصل اگاتے ہیں ‘ جس سے ان کے مویشی کھاتے ہیں اور وہ خودکھاتے ہیں ‘ کیا پس وہ نہیں دیکھتے ! (السجدہ : ٢٧۔ ٢٦ )

بارش کے پانی سے بنجر زمین کو زرخیز کرنے کا انعام تاکہ تمہیں جسمانی خوراک حاصل ہو 

پہلی آیت نے کفار مکہ کو خوف دلایا ہے کہ وہ اپنے آباء و اجداد کی تقلید میں شرک کررہے ہیں اور ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لائے ہوئے پیغام کا انکار کررہے ہیں ‘ کیا انہوں نے اپنے سفر کے دوران عاد ‘ ثمود اور قوم لوط کی تباہ شدہ بستیوں کو نہیں دیکھا وہ لوگ بھی اپنی دنیاوی زندگی پر مغرور ہوگئے تھے اور انہوں نے بھی ہماری نشانیوں کو جھٹلادیا تھا ‘ ہمارے رسولوں کا انکار کیا تھا ‘ پھر ان پر کیسا عذاب آیا جس نے ان کو بیخ و بن سے اکھاڑ کر رکھ دیا۔

اس آیت میں القرون کا لفظ ہے ‘ کسی ایک زمانہ میں روئے زمین پر رہنے والوں کو قرن کہتے ہیں اور قرون قرن کی جمع ہے۔

دوسری آیت سے مقصود اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی یاد دلانا ہے ‘ وہ بنجر زمین کو زرخیز بنانے کے لیے بارش سے لدے ہوئے بادلوں کو مردہ زمین کی طرف بھیجتا ہے اور زمینیں سرسبز اور شاداب ہوجاتی ہیں ‘ کھیت غلہ سے اور باغات پھلوں سے لدجاتے ہیں ‘ زمین کی اس پیداوار سے ان کے مویشی بھی کھاتے ہیں اور وہ خود بھی کھاتے ہیں اور جانوروں کا گوشت بھی کھاتے ہیں۔

ہدایت کے پانی سے مردہ دلوں کو زندہ کرے کا انعام تاکہ تمہیں اللہ کی معرفت حاصل ہو 

بعض علماء نے کہا کہ بنجر زمین پانی بہانے اور اس سے زرخیز فصل پیدا کرنے میں یہ اشارہ ہے کہ ہم سخت اور حق سے اعراض کرنے والوں کے دلوں میں وعظ و نصیحت پہنچا دیتے ہیں اور وہ اس سے ہدایت حاصل کرلیتے ہیں۔ اور بعض عارفین نے کہا ہم مردہ دلوں میں اپنے بحر معرفت کے پانی اور اس کے جلال کی تجلیات کو پہنچا دیتے ہیں جس سے اس دل کے گلشن میں نرگس اور یاسمین کے پھول کھلنے لگتے ہیں ‘ اور بعض علماء نے کہا ہم گمراہ دلوں میں ہدایت کا پانی پہنچادیتے ہیں جس سے اس میں ذات اور صفات کے مشاہدات اور واردات کا اجتماع ہوجاتا ہے ‘ واضح رہے کہ ہر ایک کی ہدایت مختلف ہوتی ہے ‘ کافر کی ہدایت ایمان تک پہنچنا ہے اور مومن فاسق کی ہدایت اطاعت اور عبادت تک پہنچنا ہے ‘ اور مومن مطیع کی ہدایت زہد اور تقویٰ تک پہنچنا ہے اور زاہد اور متقی کی ہدایت معرفت صفات تک پہنچنا ہے اور عارف کی ہدایت ذات تک پہنچنا ہے اور یہیں سے انسان کامل حیات باقیہ میں داخل ہوتا ہے۔

طالب حق پر لازم ہے کہ وہ عبادت میں کوشش کرتا رہے ‘ کیونکہ عبادت کے طریقوں سے ہی فیض حاصل ہوتا ہے ‘ جب انسان فجر کی نماز پڑھتا ہے تو وہ مناجات میں مستغرق ہوجاتا ہے ‘ جو انسان ناقص ہو وہ پھر دنیا کے کاروبار اور جھمیلوں میں محو اور مستغرق ہو کر صبح کی عبادت کے آثار گنوا چکا ہوتا ہے پھر جبوہ ظہر کی نماز پڑھتا ہے تو پھر اس کا رجوع اللہ کی طرف ہوجاتا ہے ‘ ظہر کے بعد وہ پھر دنیا میں مشغول ہوجاتا ہے اور عصر کی نماز اس کو پھر اللہ کی طرف متوجہ کرتی ہے ‘ اور یہ ایسا ہے جیسے کسی خشک اور بےآب وگیاہ زمین میں بار بار پانی دیا جاتا ہے تاکہ وہ فصل اگانے کے قابل ہوجائے ‘ حتیٰ کہ ایک دن وہ فصل لہلہانے لگتی ہے ‘ اسی طرح رمضان کا مہینہ جب آت ہے تو مومن روزے رکھتا ہے ‘ اور ایک محدود وقت میں فرشتوں کی صفات سے متصف ہوجاتا ہے اور جب بار بار یہ عمل ہوتا ہے تو اس میں صفات الٰہیہ منعکس ہوجاتی ہیں حتی کہ وہ اللہ کی صفات سے متصف اور اللہ کے اخلاق سے متخلق ہوجاتا ہے۔

دردشت جنون من جبریل زبوں صیدے

یزداں بہ کمند آوراے ہمت مردانہ 

یعنی اگر انسان مظہر ملائکہ ہوجائے تو ہنوز معراج انسانیت سے دور ہے کہ اس کا کمال پیکر جبریل ہونا نہیں ہے اس کا کمال مظہر رب جبریل ہونا ہے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 32 السجدة آیت نمبر 26