اِنَّمَا يُؤۡمِنُ بِاٰيٰتِنَا الَّذِيۡنَ اِذَا ذُكِّرُوۡا بِهَا خَرُّوۡا سُجَّدًا وَّسَبَّحُوۡا بِحَمۡدِ رَبِّهِمۡ وَهُمۡ لَا يَسۡتَكۡبِرُوۡنَ۩ ۞- سورۃ نمبر 32 السجدة آیت نمبر 15
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اِنَّمَا يُؤۡمِنُ بِاٰيٰتِنَا الَّذِيۡنَ اِذَا ذُكِّرُوۡا بِهَا خَرُّوۡا سُجَّدًا وَّسَبَّحُوۡا بِحَمۡدِ رَبِّهِمۡ وَهُمۡ لَا يَسۡتَكۡبِرُوۡنَ۩ ۞
ترجمہ:
ہماری آیتوں پر صرف وہی لوگ ایمان رکھتے ہیں جن کے سامنے جب (ہمارا) ذکر کیا جاتا ہے تو وہ اپنے رب کی حمد اور تسبیح کرتے ہوئے سجدہ میں گرجاتے ہیں اور وہ تکبر نہیں کرتے ۞
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ہمار آیتوں پر تو صرف وہی لوگ ایمان رکھتے ہیں جن کے سامنے جب (ہمارا) ذکر کیا جاتا ہے تو وہ اپنے رب کی حمد اور تسبیح کرتے ہوئے سجدے میں گرجاتے ہیں اور وہ تکبر نہیں کرتے (السجدہ : ١٥)
سجدہ تلاوت کے آداب
اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اے مجرمو ! تم ہماری آیتوں پر ایمان نہیں لاتے اور اس کے تقاضوں کے موافق نیک عمل نہیں کرتے ‘ لیکن ہمیں اس سے کیا فرق پڑتا ہے ہمارے ایسے بندے ہیں جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں اور ہماری حمد اور تسبیح کرتے ہوئے سجددہ میں گرجاتے ہیں ‘ سجدہ تلاوت کرنے والے کو چاہیے کہ وہ سجدہ کرتے ہوئے ایسی دعائیں کرے جو ان آیات کے مناسب ہوں مثلاً اس آیت کو تلاوت کرنے کے بعد سجدہ کرے تو سجدہ میں یہ دعا کرے : اے اللہ ! محض اپنی رضا کے لیے مجھے سجدہ کرنے والوں اور حمد کے ساتھ تسبیح کرنے والوں میں سے بنادے ‘ اور میں اس سے پناہ طلب کرتا ہوں کہ میں ان لوگوں میں سے ہوں جو تیرے حکم پر عمل کرنے سے تکبر کرتے ہیں۔ لیکن یہ دعائیں اس وقت کرے جب وہ خارج نماز قرآن مجید کی تلاوت کررہا ہو اور آیت تلاوت پر سجدہ کرے اور جب وہ فرض یانفل پڑھ رہاہو تو یہ دعائیں نہ کرے اور نہ سجدہ میں قرآن مجید کی آیات کی تلاوت کرے۔
نماز میں سجدہ تلاوت کی ادائیگی کا طریقہ
علامہ طاہر بن عبدالرشید البخاری الدہلوی المتوفی ٥٤٢ ھ لکھتے ہیں :
ایک آدمی نے سجدہ تلاوت کی آیت پڑھی اگر وہ نماز میں ہے اور آیت سجدہ قرأت کے آخر میں پڑھی ہے یا آیت سجدہ کے بعد صرف ایک یا دو آیتیں پڑھی ہیں تو اس کو اختیار ہے اگر وہ چاہے تو اس کے بعد رکوع کرے اور اس رکوع میں سجدہ تلاوت کی نیت کرے ‘ اور اگر وہ چاہے تو الگ سجدہ تلاوت کرے اور پھر قیام کی طرف لوٹ جائے اور سورت کو ختم کرلے اور اگر وہ اس کے ساتھ کوئی اور سورت ملالے تو وہ افضل ہے ‘ اور اگر وہ فوراً سجدہ تلاوت نہ کرے حتی کہ اس سورت کو ختم کرلے پھر رکوع کرے اور نماز کا سجدہ کرے تو اس سے سجدہ تلاوت ساقط ہوجائے گا ‘ اور اگر اس نے فوراً نماز کا رکوع کرلیا اور نماز کا سجدہ کرلیا تو اس کا سجدہ تلاوت ادا ہوجائے گا ‘ خواہ اس نے نماز کے سجدہ میں سجڈہ تلاوت کی نیت کی ہو یا نہ کی ہو ‘ اسی طرح اگر اس نے آیت سجدہ کے بعد دو آیتیں پڑھی ہوں تو اس پر اجماع ہے کہ نماز کے سجدہ سے سجدہ تلاوت کی نیت کرنا ضروری ہے حتی کہ رکوع سجدہ کے قائم مقام ہوجائے ‘ اور امام محمد نے اس کی تصریح کی ہے ‘ اور اگر اس نے آیت سجدہ کی تلاوت کے بعد تین آیتوں کی تلاوت کرلی اور رکوع کرلیا تو اب الگ سجدہ تلاوت کرے گا اور امام خواہر زادہ نے کہا اب رکوع سجدہ کی تلاوت کے بعد تین آیتوں کی تلاوت کرلی اور رکوع کرلیا تو اب الگ سجدہ تلاوت کرے گا اور امام خواہر زادہ نے کہا اب رکوع سجدہ کے قائم مقام نہیں ہوگا ‘ اور شمس الائمہ الحلوائی نے کہا تین آیتیں پڑھنے سے سجدہ تلاوت کی فی الفور ادائیگی ختم نہیں ہوتی اور اس کے بعد رکوع کیا تو وہ سجدہ تلاوت کے قائم مقام ہوجائے گا ‘ اور اگر آیت سجدہ کے بعد تین آیتوں سے زیادہ پڑھ لیا تو اب رکوع سجدہ تلاوت کے قائم مقام نہیں ہوگا۔ (ضلاصتہ الفتاوی ج ١ ص ١٨٧۔ ١٨٦ مطبوعہ مکتبہ رشید یہ کوئٹہ)
یہ آیت سجدہ تلاوت ہے اور یہ قرآن مجید میں سجدہ تلاوت کی نویں آیت ہے۔ اس آیت میں یہ الفاظ ہیں خرواسجدا یعنی وہ سجدہ میں جاتے ہوئے گرگئے ‘ حضرت ابنعباس نے اس کی تفسیر کی ہے ” رکعا “ یعنی وہ رکوع کرتے ہوئے گرگئے۔
علامہ مہدویی نے لکھا ہے یہ ان کے مذہب کے مطابق تفسیر ہے جو کہتے ہیں کہ سجدہ تلاوت کی ادائیگی میں سجدہ کے بجائے رکوع کرنا چاہیے اور ان کا استدلال اس آیت سے ہے :
وخر راکعا واناب۔ (ص : ٢٤) اور دائود رکوع کرتے ہوئے گرگئے اور اللہ کی طرف رجوع کیا۔
اور اس کی تفسیر سجدہ سے بھی کی گئی اور اکثر فقہا کا یہی مذہب ہے ‘ یعنی وہ لوگ اللہ کی تعظیم کے لیے اور اس کے جلال اور اس کے عذاب کے خوف سے سجدہ میں گرگئے۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ١٤ ص ٩٣۔ ٩٢‘ دارالفکر ١٤١٥ ھ)
اس آیت میں فرمایا ہے اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے ہوئے اس کے لیے سجدہ میں گرگئے ‘ اس لیے سجدہ تلاوت میں اللہ تعالیٰ کی تنزز یہ اور تقدیس کے لیے سبحان ربی الا علی وبحمدہ پڑھنا چاہیے اور رکوع اور سجدہ میں قرآن مجید کی آیات تلاوت نہیں کرنی چاہئیں۔
رکوع اور سجود میں قرآن مجید پڑھنے کی ممانعت کے متعلق احادیث
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجرہ کا پردہ اٹھا یا اس وقت لوگ ابوبکر کی اقتداء میں نماز پڑھ رہے تھے ‘ آپ نے فرمایا : اے لوگو ! نبوت کی بشارتوں میں سے صرف نیک خواب باقی رہ گئے ہیں جن کو مسلمان دیکھتے ہیں یا ان کے متعلق دیکھے جاتے ہیں ‘ سنو مجھ کو اس سے منع کیا گیا ہے کہ میں رکوع یا سجدہ کی حالت میں قرآن مجید پڑھوں ‘ سو تم رکوع میں رب عزوجل کی تعظیم کرو ‘ اور سجدہ میں دعا کی کوشش کرو توقع ہے کہ سجدہ میں تمہاری دعائیں قبول ہوں گی۔(صحیح مسلم رقم الحدیث : ٤٧٩‘ سنن ابودائود رقم الحدیث : ٨٧٦‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ١٠٤٥‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٨٩٩)
حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی شخص رکوع کرتے تو رکوع میں تین بار کہے سبحان ربی العظیم تو اس کا رکوع پورا ہوجائے گا اور جب سجدہ میں جائے تو تین بار کہے سبحان ربی الاعلی تو اس کا سجدہ مکمل ہوجائے گا ‘ اور یہ کم سے کم مقدار ہے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٦١‘ سنن ابودائود قم الحدیث : ٨٨٦‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٨٩٠‘ ابن ابی شیبہ ج ١ ص ٢٥٠ )
اس حدیث کی وجہ سے سجدہ میں دعا کرنے کی روایت نفلی نمازوں اور نفلی سجدوں پر محمول ہے۔ (شرح سنن ابودائود للعینی ج ٤ ص ٨٧۔ ٨٦)
حضرت علی بن ابی طالب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے رکوع یا سجدہ میں قرآن مجید پڑھنے سے منع فرمایا۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٤٨٠‘ سنن ابودائود رقم الحدیث : ٤٠٤٤‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٦٤‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ١١١٩‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٦٠٢)
رکوع اور سجود میں قرآن مجید پڑھنے کی ممانعت کے متعلق فقہاء اسلام کی عبارات
علامہ موفق الدین عبداللہ بن احمد بن قدامہ حنبلی متوفی ٦٢٠ ھ نے لکھا ہے کہ رکوع اور سجود میں قرآن مجید پڑھنا مکروہ ہے۔ (المغنی ج ١ ص ٢٩٨‘ دارالفکر بیروت ‘ ١٤٠٥ ھ)
علامہ یحییٰ بن شرف نوادی متوفی ٦٧٦ ھ نے لکھا ہے کہ رکوع اور سجود میں قرآن پڑھنے کے متعلق دو قول ہیں ‘ ایک قول یہ ہے کہ اس سے نماز باطل ہوجاتی ہے اور دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے نماز مکروہ ہوتی ہے۔ (صحیح مسلم بشرح النواوی ج ٣ ص ١٦٩٥‘ مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز مکہ مکرمہ ‘ ١٤١٧ ھ)
قاضی عیاض بن موسیٰ مالکی اندلسی متوفی ٥٤٤ ھ نے لکھا ہے کہ بعض متقدمین نے رکوع اور سجدے میں قرآن پڑھنے کو جائز کہا ہے ‘ اور جمہور کے نزدیک رکوع اور سجدہ میں قرآن پڑھنا ممنوع ہے۔ (اکمال المعلم بفوائد مسلم ج ٢ ص ٣٩٤‘ دارالوفا بیروت ‘ ١٤١٩ ھ)
علامہ بدرالدین محمود بن احمد عینی حنفی متوفی ٨٥٥ لکھتے ہیں :
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رکوع اور سجود میں قرآن مجید پڑھنے سے منع فرمایا ہے اور اس کی حکمت یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ خبر دی کہ آپ کی وفات کے بعد وحی منقطع ہوجائے گی اور صرف نبوت کی بشارتیں باقی رہیں گی ‘ اور یہ بتایا کہ قرآن مجید کی شان بہت بلند ہے ‘ اور بتایا کہ رکوع اور سجود بندوں کے اظہار تذلل اور اظہار عجز سے ہیں سو رکوع اور سجود میں قرآن مجید پڑھنے سے منع فرمایا کہ اس کو تذلل کے محل میں نہ پڑھا جائے بلکہ محل قیام میں پڑھا جائے جو کہ محل وقار ہے۔ تاکہ اہل علم اس کے معانی پر غور کریں ‘ اگر کوئی شخص رکوع یا سجود میں قرآن مجید پڑھے تو امام ابوحنیفہ کے نزدیک اس کی نماز باطل نہیں ہوگی ‘ خواہ عمداً قرآن پڑھے یا بھول کر ‘ لیکن اگر اس نے بھولے سے رکوع یا سجود میں قرآن پڑھا تو اس پر سہو کے دو سجدے واجب ہوں گے۔ (شرح سنن ابودائود ج ٤ ص ٨٦۔ ٨٥‘ مکتبہالرشید ریاض ‘ ١٤٢٠ ھ)
علامہ کمال الدین محمد بن بعدالواحد المعروف با بن ھمام حنفی متوفی ٨٦١ ھ لکھتے ہیں :
اگر کسی شخص نے رکوع یا سجود میں قرآن پڑھا تو اس پر سجدہ سہو ہے۔ (فتح القدیر ج ١ ص ٥٢١‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤١٥ ھ)
علامہ ابراہیم الحلبی الحنفی المتوفی ٩٥٦ ھ لکھتے ہیں :
یہ بھی مکروہ ہے کہ نمازی غیر حالت قیام میں مثلا رکوع ‘ سجود یا قعود کی حالت میں قرآن مجید پڑھے کیونکہ ان حالتوں میں قرآن مجید پڑھنا مشروع نہیں ہے۔ ( حلبی کبیر (غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی) ص ٣٥٧‘ سہیل اکیڈمی لاہور ‘ ١٤١٢ ھ ١ )
اسی طرح لکھا ہے :
اگر نمازی نے اپنے رکوع یا سجود یا تشہد میں قرآن مجید پڑھا تو اس پر سجدہ سہو لازم ہے ‘ یہ اس وقت ہے جب پہلے قرآن مجید پڑھا ‘ پھر تشہد پڑھا اور اگر پہلے تشہد پڑھا ‘ پھر قرآن مجید پڑھا تو پھر اس پر سجدہ سہو لازم نہیں ہے ‘ اسی طرح محیط السرحسی میں ہے۔ (فتاوی عالم گیری ج ١ ص ١٢٦‘ مطبوعہ مطبعہ امیر یہ کبریٰ مصر ‘ ١٣١٠ ھ)
اگر کوئی شخص بھولے سے رکوع یا سجود میں قرآن مجید پڑھے گا تو اس پر سجدہ سہو لازم ہوگا ‘ اس کا تقاضا یہ ہے کہ اگر اس نے عمداً رکوع یا سجود میں قرآن مجید پڑھا تو اس کی نماز باطل ہوجائے گی کیونکہ اس نے عمداً نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کی خلاف ورزی کی ہے اور اگر اس نے بھولے سے ایسا کیا تو اس کی تلافی سجدہ سہو سے ہوجائے گی۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 32 السجدة آیت نمبر 15