فَاَعۡرِضۡ عَنۡهُمۡ وَانْتَظِرۡ اِنَّهُمۡ مُّنۡتَظِرُوۡنَ۞- سورۃ نمبر 32 السجدة آیت نمبر 30
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
فَاَعۡرِضۡ عَنۡهُمۡ وَانْتَظِرۡ اِنَّهُمۡ مُّنۡتَظِرُوۡنَ۞
ترجمہ:
آپ ان سے اعراض کیجئے اور انتظار کیجئے بیشک وہ بھی انتظار کررہے ہیں
آیا ہرحال اور ہر جگہ میں مشرکین سے جہاد واجب ہے یا نہیں ؟
آخری آیت میں فرمایا ہے آپ ان سے اعراض کیجئے ‘ اس کا معنی ہے آپ ان کی جاہلانہ باتوں سے اعراض کیجئے اور ان کو جواب نہ دیجئے جیسا کہ اس آیت میں فرمایا ہے :
وذرنی والمکذبین اولی النعمۃ ومھلھم قلیلا
اور ان جھٹلانے والے امیروں کو آپ میرے ساتھ چھوڑ دیجئے (میں ان سے نمٹ لوں گا) اور ان کو کچھ مہلت دیجئے۔ (المزمل : ١١)
بعض علماء نے کہا یہ آیت منسوخ ہے یہ حکم اس وقت تھا جب آپ مشرکین کیخلاف جہاد کرنے کا حکم نہیں دیا تھا اور سب جب جہاد کی آیت نازل ہوگئی تو یہ حکم منسوخ ہوگیا۔
فاقتلوا المشرکین حیث وجد تموھم۔ سو آپ مشرکین کو قتل کیجئے جہاں بھی آپ ان کو پائیں۔ (التوبہ : ٥)
اور بعض علماء نے کہا یہ آیت منسوخ نہیں ہے ‘ لیکن اس آیت کے نازل ہونے کے بعد بھی ہر جگہ مشرکین سے قتال واجب نہیں ہے ‘ بعض اوقات کسی علاقے میں مشرکین سے صلح ہوجاتی ہے ‘ بعض اوقات مشرکین یہود ‘ نصاریٰ جزیہ پر تیار ہوجاتے ہیں اور بعض اوقات مشرکین سے مقابلہ اور ان پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے مسلمانوں کے پاس مادی اسلحہ نہیں ہوتا جیسا کہ آج کل امریکا ‘ روس ‘ برطانیہ ‘ فرانس اور چین ایسی عالمی سپر طاقتیں ہیں اور ان کے خلاف قتال کرنا مسلمانوں پر واجب نہیں ہے جیسا کہ اس حدیث میں ہے :
حضرت حذیفہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کسی مومن کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے نفس کو ذلیل کرے ‘ صحابہ نے پوچھا وہ اپنے نفس کو کیسے ذلیل کرے گا ؟ آپ نے فرمایا وہ ایسی آزمائش کے درپے ہو جس کی وہ طاقت نہیں رکھتا۔ (سننالترمذی رقم لحدیث : ٢٢٥٤‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤٠١٦‘ شرح السنۃ رقم الحدیث : ٣٦٠١‘ مسند احمد ج ٥ ص ٤٠٥‘ الکامل لا بنعدی ج ٦ ص ٢٣٠٧)
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے انتظار کرنے اور کفار کے انتظار کرنے کا فرق
نیز فرمایا : اور انتظار کیجئے ‘ بیشک وہ بھی انتظار کررہے ہیں۔
وہ آپ کے اوپر حوادث زمانہ کے نزول کا انتظا کررہے ہیں اور آپ ان کے اوپر عذاب الہیٰ کے نزول کا انتظار کیجئے ‘ وہ اس انتظار میں ہیں کہ بت ان کی مدد کریں گے ‘ آپ اللہ کی مدد کا انتظار کیجئے ‘ وہ استھزاء قیامت کا انتظار کررہے ہیں آپ سنجیدگی سے قیامت کا انتظار کیجئے۔
اگر اعتراض کیا جائے کہ وہ قیامت کا کیسے انتظار کریں گے وہ تو قیامت کے انکار کرتے تھے ‘ اس کا جواب یہ ہے کہ ان میں سے بعض قیامت میں شک کرتے تھے اور بعض قیامت کے آنے میں شک کرتے تھے۔
سورۃ السجدہ کا اختتام
آج ١٨ رجب ١٤٢٣ ھ۔ ٢٦ ستمبر ٢٠٠٢ ء کو السجدہ کی تفسیر ختم ہوگئی ‘ ١٢ سمتبر ٢٠٠٢ ء کو اس سورة کی تفسیر شروع کی گئی تھی ‘ اس طرح صرف پندرہ دنوں میں یہ تفسیر ختم ہوگئی۔
الٰہالعلمین ! جس طرح آپ نے سورة السجدہ کی تفسیر کو مکمل کرادیا ہے ‘ باقی سورتوں کی تفسیر کو بھی مکمل کرادیں ‘ اور اس تفسیر کو موافقین کے لیے جب استقامت اور مخالفین کے لیے موجب ہدایت بنادیں اور محض اپنے فضل سے میری مغفرت فرمادیں ‘ عزت و کرامت کے ساتھ ایمان پر خاتمہ فرمادیں ‘ مرنے سے پہلے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زیارت اور مرنے کے بعد آپ کی شفاعت سے بہرہ مند فرمائیں۔
واخر دعوانا ان الحمدللہ رب العلمین والصلوۃ والسلام علی سیدنا محمد خاتم النبین قائد المرسلین شفیع المذنبین وعلی آلہ و اصحابہ وازواجہ واولیاء امتہ و علماء ملتہ اجمعین۔
القرآن – سورۃ نمبر 32 السجدة آیت نمبر 30