فَلَا تَعۡلَمُ نَفۡسٌ مَّاۤ اُخۡفِىَ لَهُمۡ مِّنۡ قُرَّةِ اَعۡيُنٍۚ جَزَآءًۢ بِمَا كَانُوۡا يَعۡمَلُوۡنَ ۞- سورۃ نمبر 32 السجدة آیت نمبر 17
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
فَلَا تَعۡلَمُ نَفۡسٌ مَّاۤ اُخۡفِىَ لَهُمۡ مِّنۡ قُرَّةِ اَعۡيُنٍۚ جَزَآءًۢ بِمَا كَانُوۡا يَعۡمَلُوۡنَ ۞
ترجمہ:
سو کوئی نہیں جانتا کہ اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے ‘ اس کے اعمال کی جزاء میں کس نعمت کو چھپا کر رکھا گیا ہے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : سو کوئی نہیں جانتا کہ اس کی آنکھوں کی ٹھندک کے لیے ‘ اس کے اعمال کی جزاء میں کس نعمت کو چھپا کررکھا گیا ہے تو کیا کوئی مومن کسی فاسق کی مثل ہوسکتا ہے ! وہ برابر نہیں ہیں (السجدۃ : ١٨۔ ١٧)
اہل جنت کا چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا درجہ
اس آیت کے موافق یہ حدیثیں ہیں :
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے ان نعمتوں کو تیار کررکھا ہے جن کو کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی بشر کے دل میں ان کا خیال آیا ہے ‘ بلکہ یہ ان نعمتوں کے علاوہ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے تمہیں مطلع نہیں فرمایا ہے ‘ پھر آپ نے اس آیت کو تلاوت فرمایا : فلا تعلم نفس ما اخفی لھم من قرۃ اعین (السجدہ : ١٧) (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٨٢٥۔ ٢٨٢٤‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٣٢٨‘ صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٧٨٠)
حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے رب سے سوال کیا کہ جنت والوں کا سب سے کم درجہ کون سا ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ وہ شخص ہے جو اس وقت آئے گا جب تمام جنتی جنت میں داخل ہوچکے ہوں گے ‘ اس سے کہا جائے گا تم جنت میں داخل ہو جائو ‘ وہ کہے گا اے میرے رب ! میں کیسے جنت میں جائوں ! سب لوگوں نے جنت کے گھروں پر قبضہ کرلیا ہے اور انہوں نے جنت کی چیزیں لے لی ہیں ‘ اس سے کہا جائے گا کیا تم اس پر راضی ہو کہ تمہیں دنیا کے بادشاہوں کے ملکوں میں سے کسی ملک کی مثل مل جائے ‘ وہ کہے گا : میں راضی ہوں اے میرے رب ! اللہ تعالیٰ فرمائے گا تمہیں وہ ملک بھی مل جائے اور اس جیسی تین امثال اور مل جائیں گی ‘ پھر جب پانچ امثال کا کہا جائے گا تو وہ کہے گا اے میرے رب ! میں راضی ہوں ! پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا تمہیں وہ ملک بھی مل جائے گا اور اس جیسی دس امثال اور مل جائیں گی اور تم کو وہ چیز بھی مل جائے گی جس چیز کو تمہارا جی چاہے گا اور جس چیز سے تمہاری آنکھوں کو لذت ملے گی ‘ وہ کہے گا : اے میرے رب ! میں راضی ہوں ! حضرت موسیٰ نے پوچھا اے میرے رب ! پھر جنت میں سب سے بلند درجہ کون سا ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : یہ وہ لوگ ہیں جن کو میں نے پسند کرلیا اور ان کی عزت اور کرامت میں نے اپنے ہاتھ سے بنائی ہے ‘ اور میں نے ان کی کرامت پر مہر لگادی ہے ‘ ان کی کرامت کو کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی بشر کے دل میں ان کا خیال آیا ہے اور اس کا مصداق اللہ عزوجل کی کتاب میں ہے فلا تعلم نفس ما اخفی لھم من قرۃ اعین (السجدہ : ١٧)
حضرت ابو ذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں اس شخص کو جانتا ہوں جس کو سب سے آخر میں دوزخ سے نکالا جائے گا اور سب آخر میں جنت میں داخل کیا جائے گا ‘ ایک شخص کو قیامت کے دن لایا جائے گا ‘ کہا جائے گا اس کے اوپر اس کے گناہ صغیرہ پیش کرو اور اس کے گناہ کبیرہ اس سے اٹھا لو ‘ پھر اس کے چھوٹے چھوٹے گناہ اس پر پیش کیے جائیں گے ‘ اور اس سے کہا جائے گا کہ تو نے فلاں دن یہ کام کیا تھا ‘ اور فلاں دن یہ کام کیا تھا ‘ وہ کہے گا ہاں اور وہ ان گناہوں کا انکار نہیں کرسکے گا اور وہ اس سے خوف زدہ ہوگا کہ ابھی اس کے بڑے بڑے گناہ بھی پیش کیے جائیں گے ‘ پھر اس سے کہا جائے گا تیرے ہر گناہ کے بدلہ میں ایک نیکی ہے ‘ وہ کہے گا : اے میرے رب ! میں نے کئی کام اور بھی کیے تھے جن کو میں یہاں نہیں دیکھ رہا ! (یعنی بڑے بڑے گناہ) پھر میں نے دیکھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہنستے حتیٰ کہ آپ کی ڈاڑھیں ظاہر وہ گئیں۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٩٠‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٥٩٦)
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 32 السجدة آیت نمبر 17