وَلَقَدۡ اٰتَيۡنَا مُوۡسَى الۡكِتٰبَ فَلَا تَكُنۡ فِىۡ مِرۡيَةٍ مِّنۡ لِّقَآئِهٖ وَجَعَلۡنٰهُ هُدًى لِّبَنِىۡۤ اِسۡرَآءِيۡلَۚ ۞- سورۃ نمبر 32 السجدة آیت نمبر 23
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَلَقَدۡ اٰتَيۡنَا مُوۡسَى الۡكِتٰبَ فَلَا تَكُنۡ فِىۡ مِرۡيَةٍ مِّنۡ لِّقَآئِهٖ وَجَعَلۡنٰهُ هُدًى لِّبَنِىۡۤ اِسۡرَآءِيۡلَۚ ۞
ترجمہ:
اور بیشک ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی پس آپ اس سے ملاقات میں شک نہ کریں ‘ اور ہم نے اس کو بنی اسرائیل کے لیے ہدایت بنادیا
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور بیشک ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی پس آپ اس سے ملاقات میں شک نہ کریں اور ہم نے اس کو بنی اسرائیل کے لیے ہدایت بنادیا اور جب انہوں نے صبر کیا تو ہم نے ان میں سے بعض کو امام بنادیا جو ہمارے حکم سے ہدایت دیتے تھے ‘ اور وہ ہماری آیتوں پر یقین رکھتے تھے بیشک آپ کا رب ہی قیامت کے روز ان کے درمیان ان چیزوں کا فیصلہ فرمادے گا جن میں وہ اختلاف کرتے تھے (السجدہ : ٢٥۔ ٢٣ )
سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے ملاقات کے محامل
اس سے پہلے رکوع میں اللہ تعالیٰ ے قیامت کا اور آخرت میں مومنوں کے ثواب اور کافروں کے عذاب کا ذکر فرمایا تھا ‘ اور اس رکوع کی ابتدائی آیتوں میں رسالت کا ذکر ہے اور رسالت کے ذکر میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر فرمایا ‘ حالانکہ جو رسول ‘ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ کے قریب تھے وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تھے ‘ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر اس لیے نہیں فرمایا کہ یہودی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی رسالت سے اتفاق نہیں کرتے تھے ‘ اس کے برخلاف عیسائی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی رسالت کو مانتے تھے ‘ گویا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) فریقین کے درمیان متفق علیہ رسول تھے ‘ اس لیے اس آیت میں ذکر فرمایا کہ آپ اس سے ملاقات میں شک نہ کریں ‘ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے جس ملاقات کا اس آیت میں ذکر ہے اس کے حسب ذیل محامل ہیں :
(١) حضرت ابن عباس (رض) نے کہا شب معراج آپ کی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے جو ملاقات ہوئی ہے آپ اس میں شک نہ کریں۔
(٢) قیامت کے دن آپ کی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے جو ملاقات ہوگی آپ اس میں شک نہ کریں ‘ کیونکہ عنقریب آپ کی ان سے ملاقات ہونی ہے۔
(٣) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر جو کتاب نازل کی گئی تھی اور انہوں نے جو کتاب سے ملاقات کی تھی آپ اس میں شک نہ کریں۔
(٤) یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ آیت آپ کی تسلی کے لیے نازل کی گئی ہو ‘ کیونکہ جب سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی نبوت پر ہر طرح کے دلائل اور معجزات پیش کیے ‘ اس کے باوجودکفار مکہ نے آپ کی نبوت کو نہیں مانا ‘ تو آپ اس سے غمگین ہوئے تو گویا کہ آپ سے کہا گیا کہ آپ حضرت موسیٰ علیہالسلام کا حال یاد کریں اور غمگین نہ ہوں ‘ کیونکہ ان کو بھی ایسے حالات پیش آئے اور ان کو بھی اسی طرح ایذاء دی گئی جس طرح آپ کو ایذاء دی گئی ہے ‘ انبیاء سابقین کی ایذاء کے معاملہ میں خصوصیت کے ساتھ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر کیا گیا کیونکہ دیگر انبیاء (علیہم السلام) کو تو صرف ان لوگوں نے ایذاء پہنچائی تھی جو ان پر ایمان نہیں لائے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو کافروں کے علاوہ ان کی قوم کے مومنوں نے بھی ایذاء پہنچائی تھی اور ہٹ دھرمی اور کج روی سے انہوں نے کئی چیزوں کو طلب کیا مثلاً انہوں نے کہا :
یموسیٰ لن نؤمن لک حتی نری اللہ جھرۃ (البقرہ : ٥٥ ) ۔ اے موسیٰ ! جب تک ہم اپنے رب کو سامنے نہ دیکھ لیں ہم آپ پر ہرگز ایمان نہیں لائیں گے (البقرہ : ٥٥ )
اسی طرح جب ان سے جہاد کرنے کے لیے کہا گیا تو انہوں نے کہا :
فاذھب انت وربک فقاتلآ انا ھھنا قعدون (المائدہ : ٢٤) آپ اور آپ کا رب جائیں سو قتال کریں بیشک ہم یہاں بیٹھنے والے ہیں۔ (المائدہ : ٢٤ )
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 32 السجدة آیت نمبر 23