أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَمَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنۡ ذُكِّرَ بِاٰيٰتِ رَبِّهٖ ثُمَّ اَعۡرَضَ عَنۡهَا ‌ؕ اِنَّا مِنَ الۡمُجۡرِمِيۡنَ مُنۡتَقِمُوۡنَ۞

 ترجمہ:

اور اس سے بڑا ظالم کون ہوگا جس کو اس کے رب کی آیتوں سے نصیحت کی جائے ‘ پھر وہ ان سے اعراض کرے ‘ بیشک ہم مجرموں سے انتقام لینے والے ہیں

السجدہ : ٢٢ میں فرمایا ‘ اور اس سے بڑا اور کون ظالم ہوگا جس کو اس کے رب کی آیتوں سے نصیحت کی جائے پھر وہ اس سے اعراض کرے ‘ بیشک ہم مجرموں سے انتقام لینے والے ہیں۔

اس آیت میں ظلم پر وعید سنائی گئی ہے اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ ظلم کا معنی اور اس کی انواع و اقسام اور اس کی سازائوں کے متعلق احادیث بیان کریں اور ان کی مختصر تشریح کریں۔

ظلم کا لغوی اور عرفی معنی 

لغت میں ظلم کا معنی ہے کسی چیز کو اس کے محل مخصوص کی بجائے کسی اور جگہ میں رکھنا ‘ خواہ وہ جگہ اس سے کم ہو یا زیادہ ہو ‘ یا کسی چیز کو اس کے مخصوص وقت میں ادانہ کرنا ‘ اللہ تعالیٰ نے انسان کے دل کو اپنے ذکر اور فکر کے لیے بنایا ہے اگر انسان اپنے دل میں کسی اور کی یاد بسا لے ‘ کسی اور کا ذکر و فکر کرے یا اللہ تعالیٰ سے غافل اور اس سے دور کرنے والی چیزوں کی یاد اپنے دل میں رکھے یا جن چیزوں سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے ان کی محبت اپنے دل میں رکھے تو یہ اس کا ظلم ہے ‘ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کے جسم اور اس کے اعضاء کو جو طاقت اور توانائی عطا کی ہے وہ اس لیے ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اس کی عبادت کرے ‘ اگر انسان اپنے جسم اور اپنے اعضاء کو اللہ تعالیٰ کے احکام کے خلاف اپنے نفس یا دوسرے لوگوں کی اطاعت میں خرچ کرے تو یہ اس کا ظلم ہے ‘ اس لیے انسان اگر ظلم سے بچنا چاہتا ہے تو وہ اپنے دل اور اپنے اعضاء کو اللہ تعالیٰ کی یاد اور اس کی اطاعت اور عبادت میں مشغول رکھے۔

ظلم کی سزائوں اور عذاب کے متعلق احادیث اور ان کی ضروری تشریح 

حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ظلم قیامت کے اندھیرے ہیں۔

(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٤٤٧‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٥٧٩‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٠٣٠)

اس حدیث میں ظلم سے مراد عام ہے خواہ مومن فاسق سے صادر ہو یا کافر فاجر سے ‘ اور ظلم کی تمام انواع اور اقسام ظلم کرنے والے کے لیے اندھیروں کا سبب ہیں ‘ یا ظلم کی وجہ سے قیامت کے دن شدت ‘ سختی اور صعوبت ہوگی یا ظالم اپنے ظلم کی وجہ سے قیامت کے دن جنت کی طرف راہ نہیں پاسکے گا ‘ اس کے برعکس مومن کے نیک اعمال کا نور اس کے آگے آگے دوڑ رہا ہوگا جس کی وجہ سے اس کے لیے جنت کے راستے روشن اور تابناک ہوں گے ‘ قرآن مجید میں ہے :

نور ھم یسعی بین ایدیھم وبا یما نھم۔ (التحریم : ٨) ان کا نور ان کے سامنے اور ان کی دائیں طرف دوڑ رہا ہوگا۔ (التحریم : ٨)

حضرت ابو موسیٰ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بیشک اللہ ظالم کو ڈھیل دیتا رہتا ہے حتیٰ کہ جب اس کو پکڑ لیتا ہے تو پھر چھوڑ تا نہیں ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٦٨٦‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٥٨٣‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣١١٠‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤٠١٨)

اس حدیث میں فی الحال مظلوم کے لیے تسلی ہے اور ظالم کے لیے وعید ہے کہ وہ اس مہلت سے دھوکا نہ کھائے ‘ قرآن مجید میں ہے :

ولا تحسبن اللہ غافلا عما یعمل الظلمون انما یؤخرھم لیوم تشخص فیہ الابصار۔ (ابراہیم : ٤٢) ظالموں کے اعمال سے اللہ کو غافل نہ گمان کرو ‘ وہ تو انکو اس دن تک مہلت دیئے ہوئے ہے جب ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص نے پانے بھائی کی عزت پر یا سا کی کسی اور چیز پر ظلم کیا ہو وہ اس دن کے آنے سے پہلے اس کو حلال (معاف) کرالے ‘ جس دن کوئی دینار ہوگا نہ درہم ہوگا ‘ اگر اسکا کوئی نیک عمل ہوگا تو اس کو اس کے ظلم کے برابر وصول کر لیاجائے گا ‘ اور اگر اس ظالم کی نیکیاں نہیں ہوں گی تو مظلوم کے گناہوں کو اس پر ڈال دیا جائے گا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٤٤٩‘ مسند احمد رقم الحدیث : ١٠٥٨٠‘ عالم الکتب بیروت)

اس حدیث میں جو فرمایا ہے ظالم کی نیکیوں سے اس کے ظلم کی مقدار کے برابر وصول کرلیا جائے گا ‘ اس کا معنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے نیک اعمال کو جو اجسام میں متمثل کیا جائے گا اور اسکے ظلم کے برابر اجسام مظلوم کو دے دیئے جائیں گے ‘ اور اس کا معنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ظالم کے صحائف اعمال سے اتنی نیکیوں کو کاٹ کر مظلوم کے صحائف اعمال میں لھک دیا جائے گا ‘ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اتنی نیکیوں کا جو اجر و وثواب ہو وہ مظلوم کو عطا کردیا جائے ‘ اسی طرح مظلوم کے جو گناہ ظالم پر ڈالے جائیں گے ان کے بھی یہی تین محامل ہیں۔

حضرت حذیفہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم لوگوں کی مثل عمل نہ کرو ‘ کہ تم کہو کہ اگر لوگ ہمارے ساتھ اچھا سلوک کریں گے تو ہم بھی ان کے ساتھ اچھا سلوک کریں گے اور اگر وہ ہم پر ظلم کریں گے تو ہم بھی ان پر ظلم کریں گے ‘ لیکن تم اپنے آپ کو اس کا عادی بنائو کہ اگر لوگ تمہارے ساتھ نیک سلوک کریں تو تم بھی ان کے ساتھ نیک سلوک کرو اور اگر وہ تم پر ظلم کریں تو تم ان پر ظلم نہ کرو۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٠٠٧‘ المسند الجامع رقم الحدیث : ٣٣٢٩ )

کیونکہ ظلم نہ کرنا بھی احسان ہے ‘ اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ تم اپنے نفسوں کو اخلاق حسنہ کا وطن اور محل بنا لو حتی کہ ظلم اور بداخلاقی تمہارے لیے اس طرح اجنبی ہو جیسے پرایا شہراجنبی ہوتا ہے۔

حضرت علی (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مظلوم کی دعا سے بچو کیونکہ وہ اللہ سے اپنے حق کا سوال کرتا ہے اور اللہ کسی حق دار کو اس کے حق سے منع نہیں کرتا۔

حضرت اویس بن شرجیل (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص کو یہ علم ہو کہ فلاں شخص ظالم ہے اور وہ اس کی معاونت کے لیے اس کے ساتھ گیا ‘ وہ اسلام سے نکل گیا۔ (شعب الایمان رقم الحدیث : ٧٤٦٤‘ مشکوۃ رقم الحدیث : ٥١٣٥)

اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ وہ شخص کمال اسلام سے نکل گیا کیونکہ حدیث میں ہے :

حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ (کے شر) سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١١‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٤٢‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٥٠٤‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ٤٩٩٩)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے ایک شخص کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ظالم صرف اپنے نفس کو ضرر پہنچاتا ہے ‘ حضرت ابوہریرہ نے کہا نہیں اللہ کی قسم ‘ حتیٰ کہ سرخاب پرندہ جو اپنے گھونسلے میں بھوک اور کمزوری سے مرجاتا ہے وہ بھی ظالم کے ظلم ( کے ضرر) سے ہے۔ (شعب الایمان رقم الحدیث : ٧٦٧٥‘ مشکوۃ رقم الحدیث : ٥١٣٦)

اس کہنے والے کا قول برحق ہے کیونکہ قرآن مجید میں ہے :

وما ظلمونا ولکن کانوا انفسھم یظلمون (البقرہ : ٥٧) انہوں نے ہم پر ظلم نہیں کیا لیکن وہ اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے۔

اور قرآن مجید میں ہے :

من عمل صالحا فلنفسہ ومن اسآء فعلیھا۔ (حم السجدہ : ٤٦) جس نے نیک عمل کیا تو اس کا نفع اس کے لیے ہے اور جس نے براکام کیا تو اس کا ضرر بھی اس پر ہے۔

لیکن حضرت ابوہریرہ (رض) کا منشاء یہ تھا کہ ظلم کا اثر دوسرے انسانوں ‘ حیوانوں بلکہ پرندوں تک بھی پہنچتا ہے کیونکہ جب لوگ بہ کثرت ‘ علی الا علان گناہ کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ بارش روک لیتا ہے اور قحط مسلط کردیتا ہے ‘ جس کے نتیجے میں دانے اور گھاس پھونس پیدا نہیں ہوتے اور بھوک سے مویشی اور پرندے مرجاتے ہیں۔

القرآن – سورۃ نمبر 32 السجدة آیت نمبر 22