أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَيَقُوۡلُوۡنَ مَتٰى هٰذَا الۡفَتۡحُ اِنۡ كُنۡتُمۡ صٰدِقِيۡنَ ۞

ترجمہ:

اور وہ کہتے ہیں کہ وہ فیصلہ کب ہوگا اگر تم سچے ہو

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور وہ کہتے ہیں کہ وہ فیصلہ کب ہوگا اگر تم سچے ہو آپ کہیے جس دن فیصلہ ہوگا اس دن کافروں کو ان کا ایمان نفع نہ دے سکے گا اور نہ ان کو مہلت دی جائے گی آپ ان سے اعراض کیجئے اور انتظار کیجئے بیشک وہ بھی انتظار کررہے ہیں (السجدہ : ٣٠۔ ٢٨ )

آیا فیصلہ کے دن سے دنیا میں کفار کی شکست کا دن مراد ہے یا روز قیامت ؟

مسلمان کفار مکہ سے کہتے تھے ایک دن اللہ ہمارے اور تمہارے درمیان فیصلہ فرمادے گا ‘ اور اس سے ان کی مراد قیامت کا دن تھا ‘ اور وہ کہتے تھے کہ عنقریب اللہ تعالیٰ فیصلہ فرمائے گا ‘ اور اس دن نیکو کاروں کو اجروثواب عطا فرمائے گا ‘ اور بدکاروں کو سزادے گا ‘ تو کفار مکہ مسلمانوں کا مذاق اڑاتے ہوئے پوچھتے تھے بتائو وہ دن کب آئے گا ؟ اگر تم سچے ہو ‘ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی طرف سے جواب دیا ‘ آپ ان سے کہہدیجئے کہ جب وہ فیصلہ کا دن آئے گا تو تم کو ایمان لانے کی اور توبہ کرنے کی مہلت نہیں ملے گی ‘ علامہ قرطبی نے کہا یوم فتح سے مراد یوم بدر یا یوم فتح مکہ ہے کیونکہ یوم بدر میں ستر کافر قتل کردیئے گئے تھے اور فتح مکہ کے دن وہ بھاگ گئے تھے اور حضرت خالد بن ولید (رض) نے ان کا پیچھا کر کے ان کو قتل کردیا تھا (الجامع لاحکام القرآن جز ١٤ ص ١٠٤) لیکن یہ تفسیر صحیح نہیں ہے کیونکہ جنگ بدر میں جو کفار لڑنے کے لیے آئے تھے ‘ ان میں سے جو قتل ہونے سے بچ گئے تھے ان میں سے بہت سے ایمان لے آئے ‘ اسی طرح فتح مکہ کے دن اور اس کے بعد تمام کفار مکہ اسلام لے آئے تھے اس لیے اس آیت کی یہی تفسیر صحیح ہے کہ اس سے مراد قیامت کا دن ہے اور اس دن کسی کافر کو ایمان لانے کی مہلت نہیں دی جائے گی اور نہ کسی کو اس دن ایمان لانے سے کوئی فائدہ پہنچے گا۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 32 السجدة آیت نمبر 28