وَ یَدْعُ الْاِنْسَانُ بِالشَّرِّ دُعَآءَهٗ بِالْخَیْرِؕ-وَ كَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا(۱۱)

اور آدمی برائی کی دعا کرتا ہے (ف۲۹) جیسے بھلائی مانگتا ہے (ف۳۰) اور آدمی بڑا جلد باز ہے (ف۳۱)

(ف29)

اپنے لئے اور اپنے گھر والوں کے لئے اور اپنے مال کے لئے اور اپنی اولاد کے لئے اور غصّہ میں آ کر ان سب کو کوستا رہے اور ان کے لئے بددعائیں کرتا ہے ۔

(ف30)

اگر اللہ تعالٰی اس کی یہ بددعا قبول کر لے تو وہ شخص یا اس کے اہل و مال ہلاک ہو جائیں لیکن اللہ تعالٰی اپنے فضل و کرم سے اس کو قبول نہیں فرماتا ۔

(ف31)

بعض مفسِّرین نے فرمایا کہ اس آیت میں انسان سے کافِر مراد ہے اور برائی کی دعا سے اس کا عذاب کی جلدی کرنا اور حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے مروی ہے کہ نضر بن حارث کافِر نے کہا یاربّ اگر یہ دینِ اسلام تیرے نزدیک حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتّھر برسا یا درد ناک عذاب بھیج ، اللہ تعالٰی نے اس کی یہ دعا قبول کر لی اور اس کی گردن ماری گئی ۔

وَ جَعَلْنَا الَّیْلَ وَ النَّهَارَ اٰیَتَیْنِ فَمَحَوْنَاۤ اٰیَةَ الَّیْلِ وَ جَعَلْنَاۤ اٰیَةَ النَّهَارِ مُبْصِرَةً لِّتَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّنِیْنَ وَ الْحِسَابَؕ-وَ كُلَّ شَیْءٍ فَصَّلْنٰهُ تَفْصِیْلًا(۱۲)

اور ہم نے رات اور دن کو دو نشانیاں بنایا (ف۳۲) تو رات کی نشانی مِٹی ہوئی رکھی (ف۳۳) اور دن کی نشانی دکھانے والی کی(ف۳۴) کہ اپنے رب کا فضل تلاش کرو(ف۳۵)اور (ف۳۶) برسوں کی گنتی اور حساب جانو(ف۳۷) اور ہم نے ہر چیز خوب جدا جدا ظاہر فرمادی (ف۳۸)

(ف32)

اپنی وحدانیّت و قدرت پر دلالت کرنے والی ۔

(ف33)

یعنی شب کو تاریک کیا تاکہ اس میں آرام کیا جائے ۔

(ف34)

روشن کہ اس میں سب چیزیں نظر آئیں ۔

(ف35)

اور کسب و معاش کے کام بآسانی انجام دے سکو ۔

(ف36)

رات دن کے دورے سے ۔

(ف37)

دینی و دنیوی کاموں کے اوقات کا ۔

(ف38)

خواہ اس کی حاجت دین میں ہو یا دنیا میں ۔ مدعا یہ ہے کہ ہر ایک چیز کی تفصیل فرما دی جیسا کہ دوسری آیت میں ارشاد فرمایا مَا فَرَّ طْنَا فِی الْکِتَابِ مِنْ شَیْءٍ ہم نے کتاب میں کچھ چھوڑ نہ دیا اور ایک اور آیت میں ارشاد کیا وَنَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْکِتٰبَ تِبْیَاناً لِّکُلِّ شَیْءٍ غرض ان آیات سے ثابت ہے کہ قرآنِ کریم میں جمیع اشیاء کا بیان ہے ۔ سبحان اللہ کیا کتاب ہے کیسی اس کی جامعیّت ۔ (جمل ، خازن ، مدارک وغیرہ)

وَ كُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰهُ طٰٓىٕرَهٗ فِیْ عُنُقِهٖؕ-وَ نُخْرِ جُ لَهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ كِتٰبًا یَّلْقٰىهُ مَنْشُوْرًا(۱۳)

اور ہر انسان کی قسمت ہم نے اس کے گلے سے لگادی ہے(ف۳۹) اور اس کے لیے قیامت کے دن ایک نَوِشتہ(تحریر) نکالیں گے جسے کھلا ہوا پائے گا (ف۴۰)

(ف39)

یعنی جو کچھ اس کے لئے مقدر کیا گیا ہے خیر یا شر ، سعادت یا شقاوت وہ اس کو اس طرح لازم ہے جیسے گلے کا ہار جہاں جائے ساتھ رہے کبھی جدا نہ ہو ۔ مجاہد نے کہا کہ ہر انسان کے گلے میں اس کی سعادت یا شقاوت کا نوِشتہ ڈال دیا جاتا ہے ۔

(ف40)

وہ اس کا اعمال نامہ ہوگا ۔

اِقْرَاْ كِتٰبَكَؕ-كَفٰى بِنَفْسِكَ الْیَوْمَ عَلَیْكَ حَسِیْبًاؕ(۱۴)

فرمایا جائے گا کہ اپنا نامہ(اعمال) پڑھ آج تو خود ہی اپنا حساب کرنے کو بہت ہے

مَنِ اهْتَدٰى فَاِنَّمَا یَهْتَدِیْ لِنَفْسِهٖۚ-وَ مَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیْهَاؕ-وَ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰىؕ-وَ مَا كُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا(۱۵)

جو راہ پر آیا وہ اپنے ہی بھلے کو راہ پر آیا(ف۴۱)اور جو بہکا تو اپنے ہی برے کو بہکا(ف۴۲)اور کوئی بوجھ اٹھانے والی جان دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گی (ف۴۳) اور ہم عذاب کرنے والے نہیں جب تک رسول نہ بھیج لیں (ف۴۴)

(ف41)

اس کا ثواب وہی پائے گا ۔

(ف42)

اس کے بہکنے کا گناہ اور وبال اس پر ۔

(ف43)

ہر ایک کے گناہوں کا بار اسی پر ہوگا ۔

(ف44)

جو اُمّت کو اس کے فرائض سے آگا ہ فرمائے اور راہِ حق ان پر واضح کرے اور حُجّت قائم فرمائے ۔

وَ اِذَاۤ اَرَدْنَاۤ اَنْ نُّهْلِكَ قَرْیَةً اَمَرْنَا مُتْرَفِیْهَا فَفَسَقُوْا فِیْهَا فَحَقَّ عَلَیْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنٰهَا تَدْمِیْرًا(۱۶)

اور جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں اس کے خوشحالوں(امیروں) (ف۴۵) پر احکام بھیجتے ہیں پھر وہ اس میں بے حکمی کرتے ہیں تو اس پر بات پوری ہوجاتی ہے تو ہم اسے تباہ کرکے برباد کردیتے ہیں

(ف45)

اور سرداروں ۔

وَ كَمْ اَهْلَكْنَا مِنَ الْقُرُوْنِ مِنْۢ بَعْدِ نُوْحٍؕ-وَ كَفٰى بِرَبِّكَ بِذُنُوْبِ عِبَادِهٖ خَبِیْرًۢا بَصِیْرًا(۱۷)

اور ہم نے کتنی ہی سنگتیں(قومیں)(ف۴۶) نوح کے بعد ہلاک کردیں (ف۴۷) اور تمہارا رب کافی ہے اپنے بندوں کے گناہوں سے خبردار دیکھنے والا (ف۴۸)

(ف46)

یعنی تکذیب کرنے والی اُمّتیں ۔

(ف47)

مثل عاد و ثمود وغیرہ کے ۔

(ف48)

ظاہر و باطن کا عالَم اس سے کچھ چُھپایا نہیں جا سکتا ۔

مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهٗ فِیْهَا مَا نَشَآءُ لِمَنْ نُّرِیْدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهٗ جَهَنَّمَۚ-یَصْلٰىهَا مَذْمُوْمًا مَّدْحُوْرًا(۱۸)

جو یہ جلدی والی چاہے (ف۴۹) ہم اسے اس میں جلد دے دیں جو چاہیں جسے چاہیں (ف۵۰) پھر اس کے لیے جہنم کردیں کہ اس میں جائے مذمت کیا ہوا دھکے کھاتا

(ف49)

یعنی دنیا کا طلب گار ہو ۔

(ف50)

یہ ضروری نہیں کہ طالبِ دنیا کی ہر خواہش پوری کی جائے اور اسے دیا ہی جائے ا ور جو وہ مانگے وہی دیا جائے ایسا نہیں ہے بلکہ ان میں سے جسے چاہتے ہیں دیتے ہیں اور جو چاہتے ہیں دیتے ہیں ، کبھی ایسا ہوتا ہے کہ محروم کر دیتے ہیں ، اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ وہ بہت چاہتا ہے اور تھوڑا دیتے ہیں ، کبھی ایساکہ عیش چاہتا ہے تکلیف دیتے ہیں ، ان حالتوں میں کافِر دنیا و آخرت دونوں کے ٹوٹے میں رہا اور اگر دنیا میں اس کو اس کی پوری مراد دے دی گئی تو آخرت کی بدنصیبی و شقاوت جب بھی ہے بخلاف مومن کے جو آخرت کا طلب گار ہے اگر وہ دنیا میں فقر سے بھی بسر کر گیا تو آخرت کی دائمی نعمت اس کے لئے ہے اور اگر دنیا میں بھی فضلِ الٰہی سے اس کو عیش ملا تو دونوں جہان میں کامیاب ، غرض مومن ہر حال میں کامیاب ہے اور کافِر اگر دنیا میں آرام پا بھی لے تو بھی کیا ؟کیونکہ ۔

وَ مَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَةَ وَ سَعٰى لَهَا سَعْیَهَا وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓىٕكَ كَانَ سَعْیُهُمْ مَّشْكُوْرًا(۱۹)

اور جو آخرت چاہے اور اس کی سی کوشش کرے (ف۵۱) اور ہو ایمان والا تو انہیں کی کوشش ٹھکانے لگی (ف۵۲)

(ف51)

اور عملِ صالح بجا لائے ۔

(ف52)

اس آیت سے معلوم ہوا کہ عمل کی مقبولیّت کے لئے تین چیزیں درکار ہیں ایک تو طالبِ آخرت ہونا یعنی نیّت نیک ، دوسرے سعی یعنی عمل کو باہتمام اس کے حقوق کے ساتھ ادا کرنا ، تیسری ایمان جو سب سے زیادہ ضروری ہے ۔

كُلًّا نُّمِدُّ هٰۤؤُلَآءِ وَ هٰۤؤُلَآءِ مِنْ عَطَآءِ رَبِّكَؕ-وَ مَا كَانَ عَطَآءُ رَبِّكَ مَحْظُوْرًا(۲۰)

ہم سب کو مدد دیتے ہیں ان کو بھی (ف۵۳) اور ان کو بھی (ف۵۴) تمہارے رب کی عطا سے (ف۵۵) اور تمہارے رب کی عطا پر روک نہیں(ف۵۶)

(ف53)

جو دنیا چاہتے ہیں ۔

(ف54)

جو طالبِ آخرت ہیں ۔

(ف55)

دنیا میں سب کو روزی دیتے ہیں اور انجام ہر ایک کا اس کے حسبِ حال ۔

(ف56)

دنیا میں سب اس سے فیض اٹھاتے ہیں نیک ہوں یا بد ۔

اُنْظُرْ كَیْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍؕ-وَ لَلْاٰخِرَةُ اَكْبَرُ دَرَجٰتٍ وَّ اَكْبَرُ تَفْضِیْلًا(۲۱)

دیکھو ہم نے ان میں ایک کو ایک پر کیسی بڑائی دی (ف۵۷) اور بےشک آخرت درجوں میں سب سے بڑی اور فضل میں سب سے اعلٰی

(ف57)

مال و کمال و جاہ و ثروت میں ۔

لَا تَجْعَلْ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ فَتَقْعُدَ مَذْمُوْمًا مَّخْذُوْلًا۠(۲۲)

اے سننے والے اللہ کے ساتھ دوسرا خدا نہ ٹھہرا کہ تُو بیٹھ رہے گا مذمت کیا جاتا بیکس(ف۵۸)

(ف58)

بے یار و مددگار ۔