ہم دنیا میں پیچھے ہیں قیامت کے دن آگے ہوں گے
باب الجمعۃ
جمعہ کا باب ۱؎
الفصل الاول
پہلی فصل
۱؎ جمعہ ج اور م کے پیش سے،جَمْع ٌسے بنا،بمعنی مجتمع ہونا،اکٹھا ہونا۔چونکہ اس دن میں تمام مخلوقات وجودمیں مجتمع ہوئی کہ تکمیلِ خلق اسی دن ہوئی،نیز حضرت آدم علیہ السلام کی مٹی اس دن ہی جمع ہوئی،نیز اس دن میں لوگ نماز جمعہ جمع ہوکر ادا کرتے ہیں ان وجوہ سے اسے جمعہ کہتے ہیں۔اسلام سے پہلے اہل عرب اسےعروبہ کہتے تھے۔چنانچہ ان کے ہاں ہفتہ کے دنوں کے نام حسب ذیل تھے: اوّل،اَہْوَن،جُبار،دبار،مونس،عروبہ،شیاء۔(اشعہ)نماز جمعہ فرض ہے،شعار اسلام میں سے ہے،اس کی فرضیت کا منکر کافر ہے مگر اس کی فرضیت کے لئے کچھ شرائط ہیں۔چنانچہ یہ نماز مسلمان،مرد،عاقل،بالغ،آزاد،تندرست،شہری پر فرض ہے اس کی ادا کے لیئے جماعت،آزاد جگہ،شہر اور خطبہ شرط ہیں۔نہ گاؤں والوں پر جمعہ فرض ہے اور نہ گاؤں میں جمعہ ادا ہو۔اس کے مکمل دلائل ہمارے”فتاویٰ نعیمیہ”میں دیکھو۔
حدیث نمبر 584
روایت ہے حضرت ابوہریرہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ ہم دنیا میں پیچھے ہیں قیامت کے دن آگے ہوں گے ۱؎ بجز اس کے کہ انہیں کتاب ہم سے پہلے دی گئی اور ہمیں ان کے بعد۲؎ پھر یہ یعنی جمعہ کا ان کا دن بھی تھا جو ان پر فرض کیا گیا تھا وہ اس میں اختلاف کر بیٹھےہمیں اﷲنے اس کی ہدایت دے دی ۳؎ اس میں لوگ ہمارے تابع ہیں یہودی کل ہیں عیسائی پرسوں ۴؎(مسلم،بخاری)مسلم کی روایت میں ہے کہ ہم پیچھے ہیں اور قیامت کے دن آگے جنت میں ہم ہی پہلے جائیں گے۵؎ اور اس کے سواء کہ انہیں الخ۔
شرح
۱؎ یعنی میں اور میری امت یہاں وجود میں پیچھے ہیں کہ ہم آخری نبی اور یہ امت آخری امت اور وہاں شہود میں پہلے ہوں گے کہ سب سے پہلے ہماری امت کا فیصلہ ہوگا اور ساری امتوں سے پہلے یہی جنت میں جائے گی۔
۲؎یعنی یہود و نصاریٰ کو توریت و انجیل ہم سے پہلے مل گئی،ہمیں قرآن بعد میں دیا گیا تاکہ قرآن ناسخ ہو وہ کتابیں منسوخ اور ان کے عیوب ہم کو معلوم ہوں اور اس امت کے عیوب پوشیدہ رہیں اس کے بعدیت میں بھی اﷲ کی رحمت ہے۔
۳؎ یعنی عظمت والا دن اﷲ تعالٰی کے نزدیک جمعہ ہی ہے۔رب تعالٰی چاہتاتھا کہ میرے بندے یہ دن میری عبادت کے لیئے خالی رکھیں مگر یہودونصاریٰ کو بتایا نہ گیا بلکہ انہیں اختیار دیا گیا کہ تم جو دن چاہو اپنی عبادت کے لیئے چن لو۔یہود نے ہفتہ منتخب کرلیا،نصاریٰ نے اتوار،جمعہ کی طرف کسی کا خیال نہ گیا،اﷲ تعالٰی نے یہ انتخاب ہم پر نہ چھوڑا بلکہ ہمیں خود جمعہ بتادیا گیاتاکہ ہم انتخاب میں غلطی نہ کریں،بلکہ مرقات نے ابن سیرین سے روایت فرمائی کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے پہلے مدینہ کے انصار نے سوچا کہ جب یہودیوں اور عیسائیوں کا عبادت کا دن مقرر ہے تو ہم بھی کوئی دن کیوں نہ مقرر کرلیں۔ا نہوں نے جمعہ کے دن حضرت سعد ابن زرارہ کو امام بنا کر ان کے پیچھے دو رکعتیں ادا کیں اور اس دن کا نام بجائے عروبہ کے جمعہ رکھا،اس کی تائید ابن خزیمہ کی اس حدیث سے ہوتی ہے کہ انصار کہتے ہیں سعد ابن زرارہ وہ ہیں جنہوں نے ہجرت سے پہلے ہمیں مدینہ میں جمعہ پڑھایا اس بنا پر یہاں فَھَدٰنَا اللهُ کے معنی یہ ہوں گے کہ رب تعالٰی نے میری امت کے خیال کو صحیح فرمایا۔خیال رہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ سوموار کو پہنچے اورجمعرات تک بنی عمرو ابن عوف میں مقیم رہے،پھر وہاں سے جمعہ کے دن بنی سالم ابن عوف میں تشریف لائے اور اس مسجد میں جمعہ پڑھا جو بطن وادی میں ہے۔یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلا جمعہ تھا جو اس مسجد میں ادا ہو ا۔فقیر نے اس کی زیارت کی ہے اور وہاں دو نفل پڑھے ہیں،مسجد قبا کے راستہ میں ہے شکستہ حال ہے۔
۴؎ یعنی ہفتہ کا پہلا دن جمعہ ہمیں ملا اور دوسرا دن یعنی شنبہ یہودیوں کو اور تیسرا دن اتوار یہ عیسائیوں کو جیسے ہمارا دن ان کے دنوں سے پہلے ہے ایسے ہی ہم بھی ان پر مقدم۔اس حدیث سےمعلوم ہوا کہ ہفتہ جمعہ سے شروع ہوتا ہے اور پنج شنبہ پر ختم۔
۵؎ اس طرح کہ نبیوں سے پہلے جنت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم جائیں گے اورامتوں میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پہلے جائے گی،پھر دوسری امتیں۔
حدیث نمبر 585
اور اس کی دوسری روایت میں انہیں سے اور حضرت حذیفہ سے ہے فرماتے ہیں فرمایا رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث کے آخر میں یہ ہے کہ ہم دنیا والوں سے پیچھے ہیں اور قیامت کے دن پہلے ہوں گے کہ ہمارا فیصلہ مخلوق سے پہلے ہوگا ۱؎
شرح
۱؎ یہ حدیث گزشتہ حدیث کی شرح ہے جس نے بتایا کہ پیچھے ہونے سے یہ مراد اور پہلے ہونے سے یہ مطلب۔خیال رہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امت قیامت میں ہر موقعہ پر آگے رہے گی کیوں نہ ہو کہ اصل مقصود یہ امت ہے باقی اس کے تابع۔(مرقاۃ)