أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

مَا جَعَلَ اللّٰهُ لِرَجُلٍ مِّنۡ قَلۡبَيۡنِ فِىۡ جَوۡفِهٖ ۚ وَمَا جَعَلَ اَزۡوَاجَكُمُ الّٰٓـئِْ تُظٰهِرُوۡنَ مِنۡهُنَّ اُمَّهٰتِكُمۡ ‌ۚ وَمَا جَعَلَ اَدۡعِيَآءَكُمۡ اَبۡنَآءَكُمۡ‌ ؕ ذٰ لِكُمۡ قَوۡلُـكُمۡ بِاَ فۡوَاهِكُمۡ‌ ؕ وَاللّٰهُ يَقُوۡلُ الۡحَقَّ وَهُوَ يَهۡدِى السَّبِيۡلَ ۞

ترجمہ:

اللہ نے کسی شخص کے اندر دو دل نہیں بنائے ‘ اور تم اپنی جن بیویوں سے ظہار کرتے ہو ان کو اس نے تمہاری مائیں نہیں بنایا اور نہ تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا (حقیقی) بیٹا بنایا ہے ‘ یہ تمہارا صرف زبانی کہنا ہے ‘ اور اللہ حق بات کہتا ہے اور سیدھا راستہ دکھاتا ہے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اللہ نے کسی شخص کے اندر دو دل نہیں بنائے اور تم اپنی جن بیویوں سے ظہار کرتے ہو ان کو اس نے تمہاری مائیں نہیں بنایا اور نہ تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا (حقیقی) بیٹا بنایا ہے ‘ یہ تمہارا صرف زبانی کہنا ہے اور اللہ حق بات کہتا ہے اور سیدھا راستہ دکھاتا ہے (الاحزاب : ٤)

کسی شخص کے اندر دو دل نہ بنانے کے متعدد محامل 

قابوس بن ابی ظبیان کے والد بیان کرتے ہیں کہ ہم نے حضرت ابن عباس (رض) سے پوچھا یہ بتایئے کہ اس آیت سے اللہ تعالیٰ کی کیا مراد ہے :” اللہ نے کسی شخص کے اندر دو دل نہیں بنائے “ (الاحزاب : ٤) انہوں نے بتایا کہ اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک دن نماز پڑھ رہے تھے ‘ تو آپ کے دل میں ایک خیال آیا ‘ جو منافق آپ کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے انہوں نے کہا کیا تم نہیں دیکھتے کہ ان کے دو دل ہیں ‘ ایک دل تمہارے ساتھ ہے اور ایک دل ان کے ساتھ ہے ‘ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ہے : اللہ نے کسی شخص کے اندر دو دل نہیں بنائے۔ (الاحزاب : ٤)(سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣١٩٩‘ مسند احمد ج ١ ص ٢٦٧‘ صحیح ابن خیزیمہ رقم الحدیث : ٨٦٥‘ المعجم الکبیر رقم الحدیث : ١٢٦١ )

حافظ ابوبکر محمد بن عبد اللہ المعروف با بن العربی المالکی المتوفی ٥٤٣ ھ لکھتے ہیں :

یہ حدیث حسن ہے اور ہم نے احکام القرآن وغیرہ میں یہ ذکر کیا ہے کہ جس باب میں یہ آیت نازل ہوئی ہے اس میں کوئی صحیح حدیث مروی نہیں ہے۔

اگر یہ حدیث صحیح ہو تو اس کا محمل یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل میں کوئی خیال آیا اور وہ بلا قد آپ کی زبان پر جاری ہوگیا تو منافقوں نے کہا ان کے دو دل ہیں ‘ تو اللہ تعالیٰ نے اس کے رد میں یہ آیت نازل فرمائی کہ اللہ نے کسی شخص کے دو دل نہیں بنائے ‘ ہر انسان کے اندر ایک دل ہوتا ہے جس میں احوال اور مقاصد کے اختلاف سے مختلف چیزیں آتی ہیں ‘ کبھی کوئی چیز یاد ہوتی ہے اور کبھی کوئی چیز بھول جاتی ہے ‘ کبھی ذہول ہوتا ہے کبھی سہو ہوتا ہے لیکن ایک حال میں کبھی دومتضاد چیزیں جمع نہیں ہوتیں۔ (عارضہ الام حوذی ج ١٢ ص ٥٥‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤١٨ ھ)

اور حافظ ابوبکر ابن الرعبی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں : اس آیت کی تفسیر میں چار اقوال ہیں :

(١) یہ اللہ تعالیٰ ے حضرت زید بن حارثہ (رض) اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مثال بیان فرمائی ہے کہ جو ایک شخص کا بیٹا ہو وہ دوسرے شخص کا بیٹا نہیں ہوسکتا۔

(٢) قتادہ نے کہا ایک شخص جو بات بھی سنتا تھا وہ اس کو یادرکھتا تھا ‘ اس طرح وہی شخص کرسکتا ہے جس کے دو دل ہیں ‘ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نے کسی شخص کے دو دل نہیں بنائے۔

(٣) مجاہد نے کہا بنو فہر میں ایک شخص تھا جو یہ کہتا تھا کہ میرے اندر دو دل ہیں اور میں ان میں سے ہر دل کے ساتھ (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے افضل عمل کرتا ہوں ‘ اس کے رد میں یہ آیت نازل ہوئی۔

(٤) حضرت ابن عباس (رض) سے اس آیت کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا ایک دن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز پڑھ رہے تھے آپ کے دل میں کوئی خیال آیا ‘ تو منافق آپ کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے تو انہوں نے کہا کیا تم نہیں دیکھتے کہ ان کے دو دل ہیں ایک دل تمہارے ساتھ ہے اور ایک دل ان کے ساتھ ہے۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔

قلب کے مصداق کے متعلق قدیم اور جدید آراء 

قلب صنوبری شکل کا گوشت کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا ہے ‘ جس کو الہ تعالیٰ نے آدمی کے اندر پیدا کیا ہے ‘ اور اس کو علم اور روح کا محل بنایا ہے اور انسان اپے دل میں اتنے علوم کو محفوظ کرلیتا ہے جن کو کتابوں میں محفوظ نہیں کیا جاسکتا۔

دل دو لمتوں کے درمیان ہے ایک شیطان کا لمتہ ہے ( اس کے وساوس کی جگہ) اور ایک فرشتہ کالمتہ ہے ( اس کے القاء ات کی جگہ) اور وہ آنے والے خیالات اور وساوس کی جگہ ہے اور کفر اور ایمان کی جگہ ہے اور گناہوں پر اصرار اور گناہوں سے رجوع کی جگہ ہے اور اطمینان اور بےچینی کی جگہ ہے۔

اس آیت کا معنی یہ ہے کہ ایک دل میں ککفر اور ایمان اور ہدایت اور گمراہی اور اللہ کی طرف رجوع اور اس سے انحراف جمع نہیں ہوتے ‘ خلاصہ یہ ہے کہ دو متضاد چیزیں ایک دل میں جمع نہیں ہوتیں (احکام القرآن ج ٣ ص ٥٣٧‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤٠٨ ھ)

اور علامہ سید محمود آلوسی متوفی ١٢٧٠ ھ لکھتے ہیں :

اور متعدد علماء نے یہ کہا ہے کہ جس عضو کو سب سے پہلے پیدا کیا گیا وہ قلب ہے اور وہی روح کا محل ہے ‘ سب سے پہلے روح کا تعلق قلب کے ساتھ ہوا پھر اس کے بعد جگر اور باقی اعضاء کیساتھ ہوا اور بعض نے کہا قلب سے مراد نفس ہے۔ (روح المعانی جز ٢١ ص ٢٢١۔ ٢٢٠ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٧ ھ)

میں کہتا ہوں کہ قلب تو صرف خون کو پمپ کرنے کا آلہ ہے اور غور فکر کرنا اور چیزوں کو اپنی یادداشت میں محفوظ رکھنا یہ دماغ کا کام ہے یہی وجہ ہے کہ زیادہ غورفکر کرنے اور زیادہ یاد کرنے س دماغ تھکتا ہے دل کو کچھ نہیں ہوتا ‘ اور دماغ پر چوٹ لگنے سے یادداشت چلی جاتی ہے اور دل کی بیماریوں مثلا انجائنا وغیرہ سے غور و فکر کرنے کی صلاحیت اور یادداشت پر کوئی اثر نہیں پڑتا ‘ لین سرور آمیز خبروں سے دل میں تازگی اور فرحت محسوس ہوتی ہے اور درد ناک اور افسوس ناک خبروں سے بھی دل کی کارکردگی پر اثر پڑتا ہے اور بعض اوقات کسی جانکاہ خبر کے سننے سے حرکت قلب بند ہوجاتی ہے ‘ محبوب کی جدائی سے دل پژمردہ ہوجاتا ہے ‘ گناہوں کے ارتکاب سے دل پر زنگ چڑ جاتا ہے اور اللہ کی یاد کرنے سے دل میں طمانیت پیدا ہوتی ہے اور غم اور افسوس زائل ہوجاتا ہے۔

ظہار کی تعریف ‘ اس کا حکم اور اس کا کفارہ 

اسکے بعد فرمایا : اور تم اپنی جن بیویوں سے ظہار کرتے ہو ان کو اس نے تمہاری مائیں نہیں بنایا۔

اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرمایا ہے کہ کوئی شخص اپنی بیوی سے یوں کہے کہ تم مجھ پر ایسی جیسی میری ماں کی پشت ہے۔ اس کو فقہ کی اصطلاح میں ظہار کہتے ہیں ‘ ظہار کی تعریف یہ ہے کہ بیوی یا اس کے کسی عضو و اپنی ماں یا کسی اور محرم کی پشت یا کسی عضو سے تشبیہ دینا ‘ اس کا حکم یہ ہے کہ اس پر بیوی سے جماع اور بوس و کنار وغیرہ حرام ہوجاتا ہے۔ جب تک وہ کفارہ ظہار نہ ادا کرے ‘ اور جب کسی شخص نے اپنی بیوی سے کہا : تم مجھ پر ایسی جیسے میری ماں کا پیٹ یا سا کی ران ہے تو یہ بھی ظہار ہے ‘ اور اگر اس نے ماں کے علاوہ اپنی بہن یا اپنی پھوپھی یا رضاعی ماں یا کسی اور محرم کی پشت سے اپنی بیوی کو تشبیہ دی تو یہ بھی ظہار ہے ‘ اور اگر اس نے اپنی بیوی کے کسی عضو کو اپنی ماں سے تشبیہدی مثلا اپنی بیوی سے کہا تمہارا سر میری ماں کی پشت کی طرح ہے ‘ یا تمہاری شرم گاہ یا تمہارا چہرہ یا تمہاری گردن ‘ یا تمہارا نصف یا تمہارا ثلث میری ماں کی طرح ہے ‘ تو یہ بھی ظہار ہے ‘ اور اگر اس نے کہا تم میری ماں کی مثل ہو تو اس کا حکم اس کی نیت پر موقوف ہے ‘ اگر اس کی نیت یہ تھی کہ تم میری ماں کی طرح معزز ہو ‘ تو طلاق یا ظہار کچھ نہیں ہے ‘ اور اگر اس نے کہا میری نیت ظہار کی تھی تو یہ ظہار ہے اور اگر اس نے کہا میری نیت طلاق کی تھی تو اس سے طلاق بائن واقع ہوجائے گی۔ (ہدایہ اولین ص ٤١٠۔ ٤٠٩ ذ ملخصا و موضحا ‘ مطبوعہ مکتبہ شرکت علمیہ ملتان)

ظہار کی ممانعت کے متعلق قرآن مجید کی یہ آیت ہے :

الذین یظھرون منکم من نسآ ئہم ما ھن امھتہم ط ان امھتہم الا الیٔ ولد نہم ط وانہم لیقولون منکرامن القول وزوراط وان اللہ لعفو غفور (المجادلہ : ٢)

تم میں سے جو لوگ اپنی بیویوں سے ظہار کرتے ہیں ‘ وہ حقیقت میں ان کی مائیں نہیں ہیں ‘ ان کی مائیں تو صرف وہ ہیں جن کے بطن سے وہ خود پید ہوئے ہیں ‘ بیشک یہ لوگ نامعقول اور جھوٹی بات کہتے ہیں ‘ اور بیشک اللہ بہت معاف کرنے والا ہے ‘ بہت بخشنے والا ہے۔ (المجادلہ : ٢)

والذین یظھرون من نسآ ئہم ثم یعودون لما قالوا فتحریررقبۃ من قبل ان یتمآساط ذلکم توعظون بہ ط واللہ بما تعملون خبیر فمن لمیجد فصیام شھرین متتا بعین من قبل ان یتمآساط فمنلم یستطع فاطعام ستین مسکیناط ذلک لتؤمنوا باللہ ورسولہ ط وتلک حدود اللہ ط وللکفرین عذاب الیم (المجادلہ : ٤۔ ٣)

جولوگ اپنی بیویوں سے ظہار کریں ‘ پھر اپنے قول سے رجوع کرلیں ‘ تو عمل زوجیت کرنے سے پہلے ان کے ذمہ ایک غلام آزاد کرنا ہے ‘ اس کے ساتھ تم کو نصیحت کی جاتی ہے اور اللہ تمہارے تمام کاموں کی خبر رکھنے والا ہے اور جو شخص غلام کہ نہ پائے اس کے ذمہ عمل زوجیت سے پہلے دو ماہ کے مسلسل روزے رکھنا ہے اور جو روزوں کی طاقت نہ رکھے اس کے ذمہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے ‘ یہ حکم اس لیے ہے کہ تم اللہ اور اس کے رسول پر (کامل) ایمان لائو ‘ یہ اللہ کی حدود ہیں اور کافروں کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ (المجادلہ : ٤۔ ٣)

بیوی کو طلاق کی نیت سے ماں بہن کہنے کی شرعی حکم 

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی زوجہ حضرت سارہ کے متعلق فرمایا یہ میری بہن ہے۔

(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٣٥٨‘ ٢٢١٧‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٣٧١‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣١٦٦‘ مسند احمد رقم الحدیث : ٩٢٣٠‘ عالم الکتب)

علامہ بدر الدین محمود بن احمد عینی حنفی متوفی ٨٥٥ ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :

اس حدیث سے یہ مسئلہ معلوم ہوا کہ جس شخص نے بغیر کسی نیت کے اپنی بیوی کے متعلق کہا یہ میری بہن ہے تو اس کا یہ کہنا طلاق نہیں ہے۔ (عمدۃ القاری ج ١٢ ص ٤٥‘ مطبوعہ دارالکتب العمیہ بیروت ‘ ١٤٢١ ھ)

حضرت ابو تمیمہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص کو اپنی بیوی سے یہ کہتے ہوئے سنا ” اے میر بہن “ تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو مکروہ قرار دیا اور اس کو یہ کہنے سے منع فرمایا۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ٢٢١١۔ ٢٢١٠‘ بیروت) 

علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی حنفی متوفی ١٢٥٢ ھ لکھتے ہیں :

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ یہ قول ظہار نہیں ہے ‘ کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سوائے کراہت اور ممانعت کے اس کا اور کوئی حکم نہیں بیان فرمایا ‘ اسی طرح اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو اے بیٹی ! کہے تو اس کا بھی یہی حکم ہے۔ (ردالمتخار ج ٤ ص ١٠٥‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤١٩ ھ)

ان احادیث سے یہ واضح ہوگیا کہ بیوی کو بہن یا بیٹی کہنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی ‘ بیوی کو میری ماں کہنے سے بھی طلاق واقع نہیں ہوتی ‘ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو ناپسند اس لیے فرمایا کہ یہ واقع کے خلاف ہے اور جھوٹ ہے اس پر صرف توبہ کرنا واجب ہے ‘ فقہاء نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو طلاق کی نیت سے ماں بہن کہے تب بھی طلاق واقع نہیں ہوگی۔

علامہ حسن بن منصور اور جندی المعروف قاضی خاں متوفی ٥٩٢ ھ لکھتے ہیں :

ولو قال لا مراتہ ان فعلت کذافانت امی ونوی بہ التحریم فھو باطل لا یلز مہ شیٔ۔ (فتاوی قاضی خاں علی ہامش الھندیہ ج ١ ص ٥١٩‘ مطبوعہ مصر ‘ ١٣١٠ ھ)

اور اگر اس نے اپنی بیوی سے کہا اگر تو نے فلاں کام کیا تو ‘ تو میری ماں ہے ‘ اور اس سے اس کی مرادیہ تھی کہ اس کی بیوی اس پر حرام ہوجائے گی تو اس کا یہ قول باطل ہے ‘ اور اس پر کچھ لازم نہیں آئے گا یعنی اس کی بیوی حرام نہیں ہوگی۔

قاضی خاں کی اس عبارت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اگر کسی نے اپنی بیوی کو اپنی ماں بہن کہا تو اس سے طلاق واقع نہیں ہوگی خواہ اس نے طلاق کی نیت کی ہو۔

علامہ محمد بن علی بن محمد الحصکفی الحنفی المتوفی ١٠٨٨ ھ لکھتے ہیں :

کسی شخص نے اپنی بیوی سے کہا تو مجھ پر میری ماں کی مثل ہے ‘ یا کہا تو میری ماں کی مثل ہے ‘ اور اس سے بیوی کے معزز ہونے کی نیت کی ‘ ظہار کی نیت کی ‘ یا طلاق کی نیت کی تو اس کی نیت صحیح ہے اور جس کی اس نے نیت کی وہی حکم لاگو ہوگا اور اگر اس نے کوئی نیت نہیں کی یا تشبیہ کا ذکر نہیں کیا (یعنی طلاق کی نیت سے کہا تو میری ماں ہے) تو اسکا یہ کلام لغو ہوگا۔

(الدرالمختار رد المختار ج ٥ ص ١٠٣‘ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤١٩ ھ)

اور علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی حنفی متوفی ١٢٥٢ ھ لکھتے ہیں :

انت امی بلا تشبیہ فانہ باطل وان نوی کسی شخص نے اپنی بیوی سے بغیر تشبیہ دیئے کہا تو میری ماں ہے تو اس کا یہ قول باطل ہے خواہ اس نے طلاق کی نیت کی ہو۔ (ردالمختار ج ص ٩٨‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤١٩ ھ)

اسی طرح علامہ ابراہیم بن محمد حلبی حنفی متوفی ٩٥٦ ھ نے لکھا ہے :

اور اگر کسی شخص نے اپنی بیوی سے کہا تو مجھ پر میری ماں کی مثل ہے یا میری ماں کی مثل ہے تو اگر اس نے اپنی بیوی کے معزز ہونے کی نیت کی تو اس کی تصدیق کی جائے گی اور اگر اس نے اس قول سے ظہار کی نیت کی ہے تو یہ ظہار ہوگا یاطلاق کی نیت کی ہے تو یہ طلاق بائن ہوگی اور اگر اس نے کئی نیت نہیں کی تو پھر اس قول سے کوئی حکم ثابت نہیں ہوگا۔

(ملتقی الا بحر مع مجمع الا نھر ج ٢ ص ١١٨‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤١٩ ھ)

اس عبارت کی شرح میں علامہ عبدالرحمن بن محمد الکلیوبی الحنفی المتوفی ١٠٧٨ ھ لکھتے ہیں :

اور اگر اس نے تشبیہ کو ذکر نہیں کیا ( اور بیوی سے کا تو میری ماں ہے) تب بھی یہ کلا لغو ہوگا جیسا کہ گزر چکا ہے۔ (مجمع الا نھر ج ٤ ص ١١٨‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤١٩ ھ)

نیز علامہ الکلیوبی نے لکھا ہے :

ظہار کی تعریف میں تشبیہ کی قید اس لیے لگائی ہے کہ اگر کسی شخص نے بغیر تشبیہ دیئے اپنی بیوی سے کہا تو میری ماں ہے یا میری بہن ہے ‘ یا بیٹی ہے تو یہ ظہار نہیں ہے ‘ اور اگر اس نے اپنی بیوی سے کہا اگر تو نے فلاں کام کیا تو تو میری ماں ہے ‘ اور اس کی بیوی نے وہ کام کرلیا تو اسکا یہ قول باطل ہوگا ‘ خواہ اس نے اس قول سے بیوی کے حرام ہونے کی نیت کی ہو۔ (مجمع الانھر ج ٢ ص ١١٥)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی متوفی ١٣٤٠ ھ سے سوال کیا گیا کہ ایک شخص نے بہ حالت غصہ اپنی زوجہ کو ماں بہن کہہدیا ‘ مگر نان نفقہ دیتا رہا عورت اس کے نکاح میں رہی یا بہ حکم شرع شریف جاتی رہی ؟

اعلیٰ حضرت قدس سرہ اس کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں :

الجواب : زوجہ کو ماں بہن کہنا خواہ یوں کہ اسے ماں بہن کہہ کر پکارے یا یوں کہے تو میری ماں بہن ہے سخت گناہ ناجائز ہے ‘ مگر اس سے نہ نکاح میں خلل آئے نہ توبہ کے سوا کچھ اور لازم ہو ‘ درمختار میں ہے :

اولا ینو شیئا او حذف الکاف لغا و تعین الا دنی ای البر یعنی الکرامۃ ویکرہ قولہ انت امی ویا ابنتی ویا اختی ونحوہ۔ (درمختار علی ہامش رد المختار ج ٥ ص ١٠٣‘ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤١٩ ھ)

اور اگر اس نے کوئی نیت نہیں کی ‘ یا تشبیہ کا ذکر نہیں کیا تو ادنی درجہ کا حکم متعین ہوگا یعنی عزت اور کرامت کا ‘ اور اس کا اپنی بیوی کو یہ کہنا مکروہ ہے کہ تو میری ماں ہے ‘ یا یہ کہنا اے میری بیٹی اور اے میری بہن اور اس کی مثل۔

علامہ شامی نے اس پر لکھا ہے :

حذف الکاف بان قال انت امی ومن بعض افطن جعلہ من باب زید اسد منتقی عن القھتانی قلت و یدل علیہ ما نذکرہ عن الفتح من انہ لابدمن التصریح من الا داۃ اسی میں ہے : انت امی بلا تشبیہ باطل وان نوی۔ (ردالمختار ج ٥ ص ٩٨‘ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤١٩ ھ)

اگر اس نے تشبیہ کا ذکر نہیں کیا اور بایں طور پر اپنی بیوی سے کہا تو میری ماں ہے ‘ بعض لوگوں کا یہ گمان ہے کہ یہ قول ایسا ہے جیسے کوئی کہیے زید شیر ہے ‘ میں کہتا ہوں اس پر دلیل یہ ہے کہ ہم فتح القدیر سے نقل کریں گے کہ تشبیہ کے حرف کا ذکر کرنا ضروری ہے ‘ نیز علامہ شامی نے کہا بغیر تشبیہ کے بیوی کو یہ کہنا کہ تو میری ماں ہے ‘ باطل ہے خواہ اس نے طلاق کی نیت کی ہو۔

ہاں اگر یوں کہا ہو کہ تو مثل یا مانند یا ماں بہن کی جگہ ہے ‘ تو اگر بہ نیت طلاق کہا تو ایک طلاق بائن ہوگئی اور عورت نکاح سے نکل گئی اور بہ نیت ظہار یا تحریم کہا یعنی یہ مراد ہے کہ مثل ماں بہن کے مجھ پر حرام ہے تو ظہار وہ گیا اب جب تک کفارہ نہ دے لے ‘ عورت سے جماع کرنا ‘ یا شہوت کے ساتھ اس کا بوسہ لینا یا بہ نظر شہوت اس کے کسی بدن کو چھونا ‘ یا بہ نگاہ شہوت اس کی شرم گاہ دیکھناسب حرام ہوگیا اور اس کا کافرہ یہ ہے کہ جماع سے پہلے ایک غلام آزاد کرے ‘ اس کی طاقت نہ ہو تو لگا تار دو مہینہ کے روزے رکھے ‘ اس کی بھی قوت نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو صدقہ فطر کی طرح اناج یا کھانا دے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ‘ اور اگر ان میں کئی نیت نہ تھی ‘ تو یہ لفظ بھی لغو و مہمل ہوگا ‘ جس سے طلاق یا کفارہ وغیرہ کچھ لازم نہ آئے گا ‘ درمختار میں ہے :

ان نوی بانت علی مثل امی او کامی وکذا لو حذف علی (خانیہ) برا او ظھارا او طلاقا صحت نیتہ ووقع مانواہ وان لم ینو شیئا او حذف الکاف لغا۔ (الدرالمختار مع رد المختار ج ٥ ص ١٠٣‘ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤١٩ ھ)

اس نے بیوی یے کہا تو مجھ پر میری ماں کی مثل ہے یا کہا تو میری ماں کی مثل ہے اور اس سے بیوی کے معزز ہونے کی نیت کی ‘ یا ظہار کی نیت کی یا طلاق کی نیت کی تو اس کی نیت صحیح ہے اور جس کی اس نے نیت کی ہے وہی حکم لاگو ہوگا ‘ اور اگر اس نے کوئی نیت نہیں کی یا تشبیہ کا ذکر نہیں کیا (یعنی طلاق کی نیت سے کہا تو میری ماں ہے) تو اس کا یہ کلام لغو ہوگا۔ (الدرالمختار مع رد المختار ج ٥ ص ١٠٣‘ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤١٩ ھ)

ھندیہ میں خانیہ سے ہے اگر اس نے اپنے قول سے تحریم کی نیت کی تو اس میں اختلاف ہے ‘ اور صحیح یہ ہے کہ یہ سب کے نزدیک ظہار ہوگا۔ (فتاوی رضویہ ج ٥ ص ٦٢١۔ ٦٣٠‘ مطبوعہ سنی دارالاشاعت فیصل آباد)

اعلیٰ حضرت نے درمختار کی آخری عبارت جو نقل کی ہے اس میں یہ تصریح ہے کہ اگر اس نے بیوی کو طلاق کی نیت سے ماں بہن کہا تو یہ کلام لغو ہے اور اس سے طلاق نہیں ہوگی ‘ اسی طرح علامہ شامی کی عبارت بھی گذرچ کی ہے کہ اگر اس نے بیوی کو خواہ طلاق کی نیت سے کہا تو میری ماں ہے تو یہ قول باطل ہے۔ (ردالمختار ج ٥ ص ٩٨) یعنی اس سے طلاق نہیں ہوگی۔

خلاصہ یہ ہے کہ احادیث صحیحہ صریحہ ‘ فتاوی قاضی خاں ‘ الدر المختار ‘ ردالمختار ‘ ملتقی الا بحر ‘ مجمع الانھر اور فتاویٰ رضویہ کی عبارات سے یہ واضح ہوگیا کہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی سے یہ کہا کہ تو میری ماں بہن ہے تو اس سے طلاق واقع نہیں ہوگی ‘ خواہ اس نے یہ قول طلاق دینے کی نیت سے کہا ہو یا بیوی کو اپنے نفس پر حرام قرار دینے کی نیت سے کہا ہو ‘ اس شخص کا یہ قول واقع کے خلاف ہے اور جھوٹ ہے اور اس پر واجب ہے کہ وہ اس جھوٹ سے توبہ کرے۔ ہم نے اس قدر تفصیل اس لیے کی ہے کہ یہ مسئلہ عامۃ الوقوع ہے لوگ غصہ میں بیوی کو ماں بہن کہہ دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس سے طلاق ہوگئی۔

منہ بولے بیٹوں کو ان کے اصل باپوں کے ناموں کے ساتھ پکارنے کا حکم 

اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اور نہ تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا (حقیقی) بیٹا بنایا ہے ‘ یہ تمہارا صرف زبانی کہنا ہے ‘ اور اللہ حق بات کہتا ہے اور سیدھا راستہ دکھاتا ہے (الاحزاب : ٤)

حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت زید بن حارثہ (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آزاد کردہ غلام تھے ‘ ہم ان کو صرف زید بن محمد کہا کرتے تھے حتیٰ کہ یہ آیت نازل ہوئی :

ادعو ھم لا بآ ئھم ھو اقسط عنداللہ اپنے منہ بولے بیٹوں کو ان کے حقیقی باپ کی طرف منسوب کرکے بلائو ‘ یہ اللہ کے نزدیک زیادہ منصفانہ بات ہے۔ (الاحزاب : ٥)

زمانہ جاہلیت میں جو شخص کسی کو اپنا بیٹا بنا لیتا تھا لوگ اس کو اسی شخص کی طرف منسوب کرکے پکارتے تھے اور وہ اس شخص کی میراث کا وارث ہوتا تھا ‘ حتی کہ یہ آیت نازل ہوئی۔ (عمدۃ القاری ج ١٩ ص ١٦٥‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤٢١ ھ)

حضرت زید بن حارثہ (رض) کی سوانح حیات 

حافظ احمد بن علی بن حجر عسقلانی متوفی ٨٥٢ ھ لکھتے ہیں :

ہشام بن محمد سائب الکبی اپنے والد سے اور جمیل بن مرثد الطائی وغیر ہما سے بیان کرتے ہیں کہ حضرت زید بن حارثہ کے والد بنو قضاعہ سے تعلق رکھتے تھے ‘ جو یمن کا ایک معزز قبیلہ تھا ‘ ان کی والدہ سعدیٰ بنت ثعلبہکا تعلق بنو معن سے تھا ‘ جو قبیلہ طے کی ایک شاخ تھی ‘ ایک بار وہ حضرت زید کو لے کر اپنے میکہ گئیں ‘ اس وقت حضرت زید کم عمر تھے ‘ اس دوران بنو قین کے سوار لوٹ مار کر کے آرہے تھے ‘ وہ حضرت زید کو خیمہ کے سامنے سے اٹھا کرلے گئے اور غلام بنا کر عکاظ کے بازار میں فروخت کے لیے پیش کردیا ‘ حضرت حکیم بن حزام (رض) نے ان کو چار سو درہم میں خرید کر اپنی پھوپھی حضرت خدیجہ بنت خویلد (رض) کی خدمت میں پیش کردیا ‘ اور جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت خدیجہ سے نکاح کیا تو انہوں نے حضرت زید کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے ہبہ کردیا ‘ ادھر ان کے والد ارثہ بن شراحیل ان کی گم شدگی پر بہت غمگین تھے اور اکثرروتے رہتے تھے۔

قبیلہ کلب کے کچھ لوگ حج کے لیے گئے ‘ انہوں نے حضرت زید کو دیکھ کر پہچان لیا ‘ اور حضرت زید نے بھی ان کو پہچان لیا ‘ انہوں نے یمن جا کر حضرت زید کے والد کو خبر دی اور یہ بتایا کہ حضرت زید کس مقام پر ہیں ‘ پھر حارثہ اور ان کے بھائی کعب فدیہ کی رقم لے کر مکہ پہنچے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق معلوم کیا ‘ انہیں بتایا گیا کہ آپ مسجد میں ہیں ‘ وہ دونوں آپ کے پاس گئے اور کہنے لگے : اے عبدالمطلب کے بیٹے ! اے اس قوم کے سردار کے بیٹے ! آپ لوگ اللہ کے حرم میں رہنے والے ہیں آپ غلاموں کی گردنیں آزاد کرتے ہیں اور قیدیوں کو قید سے چھاتے ہیں ‘ ہم اپنے بیٹے اور آپ کے غلام کے سلسلہ میں آپ کے پاس آئے ہیں ‘ آپ ہم پر احسان فرمائیں اور اس کا فدیہ ہم سے قبول کرکے اس کو آزاد کردیں ‘ آپ نے پوچھا ‘ تمہارا بیٹا کون ہے ؟ انہوں نے کہا وہ زید بن حارثہ ہے ‘ آپ نے فرمایا اس کو بلالو اور اس کو اختیار دو ‘ اگر وہ تمہارے ساتھ جانا پسند کرے تو تم اس کو کسی فدیہ کے بغیر اپنے ساتھ لے جائو اور اگر وہ میرے ساتھ رہنا پسند کرے تو اللہ کی قسم ! جو شخص میرے ساتھ رہنے کو اختیار کرے میں اس پر فدیہ کو اختیار کرنے والا نہیں ہوں ‘ پھر آپ نے حضرت زید کو بلایا ‘ اور فرمایا کیا تم ان کو پہچانتے ہو ؟ انہوں نے کہا یہ میرے والد اور میرے چچا ہیں ‘ آپ نے فرمایا تم کو علم ہے کہ میں کون ہوں اور تم میرے سلوک کو بھی پہچانتے ہو ‘ پس تم مجھے اختیار کرلو یا ان دونوں کو اختیار کرلو۔ (الطبقات الکبریٰ ج ٣ ص ٤٢ )

حضرت زید نے کہا میں آپ کے اوپر کسی شخص کو بھی ترجیح نہیں دے سکتا ‘ میرے باپ اور چچا تو آپ ہی ہیں ‘ حضرت زید کے والد اور چچا نے کہا اے زید ! تم پر افسوس ہے ! تم غلامی کو آزادی پر ترجیح دے رہے ہو اور اپنے باپ اپنے چچا اور اپنے گھر والوں پر ان کو ترجیح دے رہے ہو ! حضرت زید نے کہا ہاں میں نے ان کی ایسی سیرت دیکھی ہے کہ میں ان پر کسی کو بھی ترجیح نہیں دے سکتا ‘ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت زید کی اس محبت کو دیکھاتو ان کو اپنی گود میں بٹھایا اور فرمایا : لوگو ! گواہ ہو جائو بیشک زید میرا بیٹا ہے ‘ یہ میرا وارث ہوگا اور میں اس کا وارث ہوں گا ‘ جب حضرت زید کے باپ اور چچانے یہ منظر دیکھا تو وہ خوش ہوگئے اور واپس چلے گئے ‘ پھر حضرت زید بن حارثہ کو زید بن محمد کہا جانے لگا حتیٰ کہ اسلام کا ظہور ہوگیا۔ امام ابن اسحاق نے بھی اس قصہ کو اسی طرح روایت کیا ہے۔ (تاریخ دمشق رقم الحدیث : ٤٥٧٦)

جب یہ آیت نازل ہوئی ادعو ھم لا بائھم تو حضرت زید نے کا میں زید بن حارثہ ہوں۔

(المعجم الکبیر ج ٢ ص ٤٢٢‘ تاریخ دمشق رقم الحدیث : ٤٥٧٨)

ابو صالح حضرت ابن عباس (رض) سیروایت کرتے ہیں کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت زید کو بیٹا بنایا تو آپ نے اپنی پھوپھی بھی زاد بہن حضرت زینب بنت حجش سے ان کا نکاح کردیا جو آپ کی پھوپھی امیمہ بنت عبدالمبطلب کی بیٹی تھیں ‘ اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے پہلے ان کا نکاح اپنی باندی ام ایمن سے کردیا تھا جن سے حضرت اسامہ پیدا ہوئے تھے ‘ پھر جب حضرت زید نے حضرت زینب بنت حجش (رض) کو طلاق دے دی تو آپ نے ان کا نکاح حضرت ام کلثوم بنت عقبہ (رض) سے کردیا ‘ ان سے زید بن زید اور رقیہ پیدا ہوئیں ‘ پھر حضرت زید نے ام کلثوم کو طلاق دے دی اور درۃ بنت ابی لھب بن عبدالمطلب سے نکاح کرلیا ‘ پھر ان کو طلاق دے دی اور حضرت زبیر کی بہن ھند بنت العوام سے نکاح کرلیا۔

امام عبدالرزاق نے زہری سے روایت کیا ہے کہ ہم کسی ایسے شخص کو نہیں جانتے جو حضرت زید بن حارثہ (رض) سے پہلے اسلام لایا ہو۔

حضرت زید بن حارثہ غزوہ بدر اور بعد کے تمام غزوات میں شریک ہوئے اور غزوہ موتہ میں شہید ہوئے ‘ وہ اس لشکر کے امیر تھے اور کئی مواقع پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو اپنا خلیفہ مقرر کیا تھا۔

امام ابن ابی شیبہ نے سند قوی کے ساتھ حضرت عائشہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جس لشکر میں بھی حضرت زید کو بھیجا ان کو اس لشکر کا امیر بنایا اور اگر وہ زندہ رہتے تو انہی کو اپنے بعد جانشین مقرر فرماتے۔ (مسند احمد ج ص ٢٢٧۔ ٢٢٦ )

امام بخاری نے حضرت سلمہ بن الاکوع (رض) سے روایت کیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ سات غزوات میں شریک تھے اور ان کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمارا امیر بنایا تھا۔ امام واقدی نے کہا کہ حضرت زید کا پہلا لشکر القردۃ کی طرف گیا ‘ دوسرا المجموم کی طرف گیا ‘ پھر العیص کی طرف پھر الطرف ‘ پھر الحسمی کی طرف ‘ پھر ام قرفہ کی طرف ‘ پھر ان کو غزوہ موتہ کے لشکر کا امیر بنایا گیا ‘ اسی غزوہ میں وہ پچپن سال کی عمر میں شہید ہوئے ‘ حضرت زید کے علاوہ قرآن مجید میں اور کسی کا نام صراحۃً مذکور نہیں ہے۔

امام محمد بن سعد نے حضرت اسامہ بن زید (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت زید بن حارثہ (رض) سے فرمایا : اے زید ! تم میرے مولیٰ ( آزاد کردہ غلام ہو) ہو ‘ اور تمہاری ابتداء مجھ سے اور میری طرف ہے اور تم تمام لوگوں سے زیادہ مجھے محبوب ہو۔ (تاریخ دمشق رقم الحدیث : ٤٥٨٣)

؁ْامام بخاری حضرت ابن عمر (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ کی قسم ! بیشک زید بن حارثہ امارت کے لائق ہیں اور بیشک وہ مجھے تمام لوگوں سے زیادہ محبوب ہیں۔ (تاریخ دمشق رقم الحدیث : ٤٥٨٦)

امام ترمذی اور دیگر ائمہ نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ حضرت زید بن حارثہ مدینہ میں آئے ‘ اس وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے حجرہ میں تھے ‘ انہوں نے دروازہ کھٹھکٹایا ‘ آپ دروازے کی طرف گئے ‘ ان کو گلے سے لگایا اور ان کو بوسہ دیا۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٧٣٢)

حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) نے حضرت اسامہ بن زید (رض) کا وظیفہ میرے وظیفہ سے زیادہ مقرر کیا ‘ میں نے اس کی وجہ پوچھی تو حضرت عمر (رض) نے فرمایا حضرت اسامہ (رض) تمہاری بہ نسبت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو زیادہ محبوب تھے اور تمہارے باپ کی بہ نسبت اسامہ کا باپ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو زیادہ محبوب تھا ‘ یہ حدیث صحیح ہے۔ (الا صابہ ج ٤ ص ٤٩٨۔ ٤٩٤‘ ملخصا ‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤١٥ ھ)

امام ابو القاسم علی بن الحسن ابن عسا کر المتوفی ٤٧١ ھ نے اس سے بہت زیادہ تفصیل سے حضرت زید بن حارثہ کا تذکرہ لکھا ہے۔ (تاریخ دمشق الکبیر ج ٢١ ص ٢٦٢۔ ٢٤١‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤٢١ ھ)

اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : یہ تمہارا صرف زبانی کہنا ہے ‘ اور اللہ حق بات کہتا ہے اور سیدھا راستہ دکھاتا ہے (الا حزاب : ٤)

آیت کے اس حصہ میں اس بات کی مزید تاکید فرمائی ہے کہ منہ بولے بیٹے کو حقیقی بیٹا قرار دینا ایک ایسی بات کہنا ہے جس کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں ہے ‘ یہ محض زبانی کہنا ہے ‘ اور اللہ تعالیٰ حق بات فرماتا ہے ‘ جس کی واقعہ میں حقیقت ہوتی ہے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 33 الأحزاب آیت نمبر 4