(باہمی تنازعات کا حل صرف ایک ہی ہے)

باہمی تنازعات کوئی اچنبھے کی بات نہیں.. یہ ہمیشہ وجود میں آتے رہتے ہیں، لیکن ایک سمجھ دار قوم کے پاس ان تنازعات کے حل کا موجود نہ ہونا بہت بڑی اچنبھے کی بات ہے.

ہر اچھی قوم، ملک برادری کے پاس عدالتیں یا ثالثی کونسلوں کا نظام ہوتا ہے.

ہم اہل سنت و جماعت وہ پیدل قوم ہیں جس کے پاس باہمی تنازعات کے حل کا ایسا کوئی بھی نظام موجود نہیں ہے.

اتحاد کا تو میں ایک طویل عرصے سے کہہ کہہ کر تھک چکا ہوں، لیکن اگر ہم اتحاد کو بالکل ہی شجر ممنوعہ سمجھتے ہیں تو کم از کم ہمارے تمام مرکزی راہنما مل کر کم و بیش بیس بندوں کا ایک ثالثی بورڈ ہی بنا لیں جو سنیوں کے آپسی انتشار و افتراق والے متنازعہ معاملات میں فیصل ہو اور اس کی بات ماننا سب پر لازم ہو،وہ بورڈ اپنا ایک دائرہ کار متعین کرے، ایک ضابطہ اخلاق مرتب کرے اور پھر اس پر قائم رہنے کا عہد کرے.. جنہیں نیم رافضی یا نیم ناصبی وغیرہ کہا جاتا ہے ان کی بھی مرکزی شخصیات اس بورڈ کا حصہ ہوں. کیونکہ ان جراثيم کا حل بھی یہی بورڈ ہے اور کوئی نہیں.

اگر ہم نے کم از کم یہ بورڈ والا کام بھی نہ کیا تو پھر بہرصورت یہی کچھ ہو گا جو ہوتا چلا آ رہا ہے، اس وقت ہو رہا ہے اور آئندہ بھی یہی کچھ ہوتا رہے گا.

ہر کوئی اپنا اپنا ڈھول بجائے گا، کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ، کوئی لاء اینڈ آرڈر نہیں.

( عون محمد سعیدی مصطفوی بہاولپور)