’’تصفیہ‘‘ کی عبارت اورالزام خطاء کی حقیقت
تحریر: عون محمد سعیدی مصطفوی، بہاول پور
’’تصفیہ‘‘ کی عبارت اورالزام خطاء کی حقیقت
حضرت سیدنا پیر مہر علی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ’’تصفیہ ما بین سنی و شیعہ‘‘ کی ایک عبارت کو لے کر اہل خطاء نے حضرت سیدۃ النساء رضی اللہ عنہا کی ذات اقدس پرجو خطاء کا الزام عائد کیا، جب ہم نے اس پر غور کیا تو پتہ چلا کہ وہ الزام بالکل بے سر و پا، حقیقت سے کوسوں دور اور قطعًا بے بنیاد ہے ۔آئیے دیکھتے ہیں کہ اس عبارت کا صحیح مفہوم کیا ہے؟۔ سب سے پہلے پیر صاحب قبلہ کی عبارت ملاحظہ ہو:
تصفیہ کی عبارت:
’’اس موضوع پر ایک اور دلیل جو فریق مخالف کی طرف سے دی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بموجب آیۃ تطہیر اہل بیت علیہم الرضوان کو پاک گردانا ہے ، لہذا سیدۃ النساء رضی اللہ عنہا فدک کا دعویٰ کرتے ہوئے کسی ناجائز امر کی مرتکب نہیں ہو سکتیں۔ اس دلیل کا تفصیلی جواب آگے چل کر آیت تطہیر کی فصل میں دیا جائے گا۔ یہاں اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ آیت تطہیر کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ یہ پاک گروہ معصوم ہے اور ان سے کسی قسم کی بھی خطا کا سرزد ہونا نا ممکن ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگربمقتضائے بشریت ان سے کوئی خطا سرزد بھی ہو تو وہ عفو وتطہیر الٰہی میں داخل ہو گی۔ سیدۃ النساء رضی اللہ عنہا کی تحریک اور سلسلہ جنبانی نے ہم کو سمجھا دیا کہ آیۃ یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْ اَوْلَادِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ (النساء :11) (خدا تمہاری اولاد کے متعلق تم کو ارشاد فرماتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے)میں خطاب امت کی طرف ہے اور خلفائے ثلثہ کے علاوہ اہل بیت پاک علیہم الرضوان نے بھی باغ فدک کے غیر مورث ہونے کو اپنے عمل سے ثابت کر دکھایا اور سارے عالم پر واضح ہو گیا کہ جناب سیدۃ النساء بھی بوجہ بضعۃ الرسول ہونے کے عبدیت محضہ کی وارث ہیں اور اپنے والد ماجد علیہ الصلوٰۃ و السلام کی طرح ان کی عالی اور پاک شان بھی ملکیت کے دھبہ اور خدائی فیصلہ پر ناراضگی کے نقص سے منزہ اور پاک ہے۔‘‘ (تصفیہ ما بین سنی و شیعہ، ص: 46,47، طبع: آستانہ عالیہ گولڑہ شریف)
حضرت پیر صاحب قبلہ کی مذکورہ عبارت سے کسی بھی طور پر یہ ثابت نہیں ہوتا کہ انہوں نے سیدۃ النساء رضی اللہ عنہاکے طلب فدک کو ان کی خطاء کہا ہو۔ آپ مذکورہ عبارت میں دیکھ سکتے ہیں کہ یہ اہل تشیع کے ایک اعتراض کا جواب ہے ۔اعتراض یہ ہے کہ چونکہ آیت تطہیر میں اہل بیت کوپاک کہا گیا ہے لہذا فدک کے دعویٰ میں وہ کسی ناجائز امر کی مرتکب نہیں ہو سکتیں۔
شیعہ کے اعتراض کی تنقیح:
آئیے! سب سے پہلے تو ہم شیعہ کے اعتراض کی تنقیح کرتے ہیں۔۔ان کے اس اعتراض میں دو بنیادی چیزیں ہیں ۔ ایک توان کے نزدیک آیت تطہیر کے مطابق اہل بیت کا پاک(بمعنی معصوم)ہونا ۔۔دوسرا اس کی بنیاد پران کے نزدیک فدک کا سیدہ پاک کا حق ہونا(یعنی جب آپ نے دعوی کر لیا تو وہ آپ کا حق بن گیا)۔
اعتراض کی یہ تنقیح اس وجہ سے ہے کہ اہل تشیع سے ہمارا اختلاف اور نوعیت کا ہے جبکہ اہل خطاء سے اور نوعیت کا۔ ۔ شیعہ سے اختلاف یہ ہے کہ فدک سیدہ پاک کا حق تھا یا نہیں جبکہ اہل خطاء سے اختلاف یہ ہے کہ آپ کی طلب خطاء تھی یا نہیں۔
چونکہ ’’تصفیہ‘‘ کی عبارت میں سوال جواب شیعہ سے ہے تو ’’کسی ناجائز امر کی مرتکب نہیں ہو سکتیں‘‘ کا جملہ فدک کے آپ کا حق ہونے نہ ہونے کے تناظرمیں ہے نہ کہ طلب کے خطاء ہونے نہ ہونے کے تناظر میں–شیعہ کے نزدیک اہل بیت چونکہ ہر ہر گناہ سے کلیتا ً معصوم ہیں لہذاسیدہ پاک نے جب فدک کا دعوی کر لیا تو وہ آپ کا شرعی حق بن گیا ۔
تطبیق سوال و جواب:
پس پیر صاحب قبلہ کا جواب بھی انھی دو پہلووں کے حوالے سے ہو گا ۔(1) آیت تطہیر کا صحیح مفہوم (2) فدک کا سیدہ پاک کا حق نہ ہونا۔
باقی رہ گیا طلب کا خطاء ہونا یا نہ ہونا، یہ تویہاں خود زیر بحث ہی نہیں ہے۔ لہذا اہل خطاء کا اسے اپنے غلط موقف کی دلیل کے طور پر پیش کرنا ان کی اپنی بہت بڑی خطاء ہے کہ وہ اتنا بھی نہ سمجھ سکے کہ یہاں بحث شیعہ کے ساتھ ہے اور شیعہ کے ساتھ ہمارا تنازع فدک کے حق ہونے نہ ہونے کا ہے نہ کہ طلب کے خطاء ہونے نہ ہونے کا۔
پیر صاحب قبلہ کا جواب:
اب جواب کی طرف آئیے۔پیرصاحب قبلہ کا جواب بھی انھی دو پہلوؤں (معصوم ہونے نہ ہونے + فدک کے حق ہونے نہ ہونے ) کے حوالے سے ہے(نہ کہ طلب کے خطاء ہونے نہ ہونے کے حوالے سے)۔
اعتراض کے اول پہلو کا جواب:
پیر صاحب قبلہ نے اول پہلو یعنی اہل بیت کے معصوم ہونے نہ ہونے کا جواب ان الفاظ سے دیا:
’’آیت تطہیر کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ یہ پاک گروہ معصوم ہے اور ان سے کسی قسم کی بھی خطا کا سرزد ہونا نا ممکن ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگربمقتضائے بشریت ان سے کوئی خطا سرزد بھی ہو تو وہ عفو وتطہیر الٰہی میں داخل ہو گی‘‘۔
پیر صاحب کی اس عبارت میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ یہاں انہوں نے دوامور کا ذکر کیا ہے ۔(1) آیت کے غلط مفہوم کی نفی (2) آیت کے صحیح مفہوم کا بیان ۔
(1)شیعہ کے غلط مفہوم کی نفی کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ اس آیت کو بنیاد بنا کر اہل بیت کے پاک گروہ کو معصوم سمجھنا بالکل غلط ہے، ان سے خطاء کا امکان موجود ہے۔
(2) آیت کا صحیح مفہوم بیان کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ اگر اہل بیت سے بشری تقاضے کے سبب کوئی خطاء سرزد ہو بھی جائے تو یہاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے لیے معافی اور طہارت کا وعدہ ہے۔
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ پیر صاحب قبلہ نے یہاں اہل سنت کے ایک مطلق عقیدے کا بیان کیا ہے جس کا طلب فدک کے خطاء ہونے نہ ہونے سے ذرہ برابر بھی تعلق نہیں ہے ۔ جبکہ اہل خطاء نے یہاں سخت ٹھوکرکھائی اور اس کا تعلق سیدہ پاک کے طلب فدک سے جا جوڑا۔
اعتراض کے دوسرے پہلو کا جواب:
اب پیر صاحب قبلہ شیعہ کے اعتراض کے دوسرے پہلو کی طرف آتے ہیں یعنی فدک سیدہ پاک کا حق تھا یا نہیں؟ آپ نے اس کا جواب ان الفاظ سے دیا:
’’سیدۃ النساء رضی اللہ عنہا کی تحریک اور سلسلہ جنبانی نے ہم کو سمجھا دیا کہ آیۃ یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْ اَوْلَادِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ (النساء :11) (خدا تمہاری اولاد کے متعلق تم کو ارشاد فرماتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے) میں خطاب امت کی طرف ہے‘‘۔
اس عبارت کی وضاحت حسب ذیل ہے:
(1)پیر صاحب قبلہ اس عبارت میں سب سے پہلے توضمناًسیدہ پاک کی طلب کا ذکر کرتے ہیں اور آپ واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ وہ طلب فدک کو ’’تحریک‘‘ اور ’’سلسلہ جنبانی‘‘کے الفاظ سے یاد فرما رہے ہیں جن میں خطاء کا دور دور تک کوئی بھی تصور نہیں ہے ۔جبکہ اہل خطاء اس طلب کو سیدہ پاک کی خطاء کے پرخطاء الفاظ سے یاد کرتے ہیں،جن کا ’’تصفیہ‘‘ کی ساری کی ساری عبارت میں از اول تا آخرکسی بھی جگہ کوئی وجود نہیں ہے ۔
(2)دوسراپیر صاحب ارشاد فرما رہے ہیں کہ آیت میراث کی مخاطب نبی پاک ﷺ کی امت ہے نہ کہ اہل بیت نبی۔ لہذا فدک اہل بیت کا حق نہیں ہے۔
(3)تیسراآپ حیران ہوں گے کہ پیر صاحب قبلہ تو ’’تحریک اور سلسلہ جنبانی‘‘ کے الفاظ سے ہمیں بتا رہے ہیں کہ آیت میراث کی مذکورہ وضاحت کا سہرا سیدہ پاک کے سر جاتا ہے کہ آپ نے مطالبہ فرمایا تو شریعت کا یہ مسئلہ امت پر واضح ہوا۔اب آپ خود سوچیں کہ اسے سیدہ پاک کی خطاء کہنا چاہیے یا آپ کی عطاء؟۔
جیسا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے گم شدہ ہارکو ڈھونڈنے کی وجہ سے جب مسلمانوں کو سفر میں تاخیر ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے آیت تیمم نازل فرمائی جس پر صحابہ کرام نے خوش ہو کر کہا : ’’ما ھی باول برکتکم یا آل ابی بکر‘‘۔ اے آل ابو بکر! یہ کوئی آپ کی پہلی برکت نہیں ہے ،آپ لوگوں سے اس طرح کی برکتیں تو ظاہر ہوتی ہی رہتی ہیں۔
بالکل یہی معاملہ سیدہ پاک کے طلب فدک کا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو طلب کی طرف متوجہ کیا اور اس کی برکت سے میراث کے ایک عظیم شرعی حکم کو واضح فرمایا ۔ پس یہ تو آپ کا امت پر احسان عظیم ہوا جس پر آپ کروڑوں سلاموں کی حق دار ہیں۔ نہ یہ کہ اسے آپ کی خطاء قرار دے کے اپنے دین و ایمان کا نقصان کیا جائے.
نوٹ: تصفیہ کی عبارت کی مذکورہ تشریح ملاحظہ کرنے کے بعد آپ پر اچھی طرح واضح ہوچکا ہو گا کہ حضرت سیدنا پیر مہر علی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا دامن سیدۃ النساء رضی اللہ عنہا پر لگائے گئے الزام خطاء سے بالکل پاک ہے.
پس اہل خطاء کا پیر صاحب کی مذکورہ عبارت سنانے کے بعد یہ نتیجہ نکالنا کہ خطاء پر تھیں، جب مانگ رہی تھیں خطاء پر تھیں ( خواہ مطلق ہو خواہ اجتہادی) ان کا از خود گھڑا ہوا ہے ، اور یہ بلا جواز صحابہ کرام اور اہل بیت اطہار کے درمیان جج بن کر فیصلہ سنانے والی بات ہے.
دل کی بات
آخر میں علامہ شہزاد مجددی اور علامہ پروفیسر اعجاز جنجوعہ مدظلہما کے بالترتیب دو اشعار اہل خطاء کی نذر۔۔۔۔
(1) خطاء شعار! خطاؤں کو ان سے کیا نسبت
تمہاری سوچ سے برتر ہیں زہراء و صدیق
(2) مرا عقیدہ کہ محفوظ ہیں خطاء سے دونوں
خدا گواہ کہ معصوم نہیں زہراء و صدیق