أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

قَدۡ يَعۡلَمُ اللّٰهُ الۡمُعَوِّقِيۡنَ مِنۡكُمۡ وَالۡقَآئِلِيۡنَ لِاِخۡوَانِهِمۡ هَلُمَّ اِلَيۡنَا‌ ۚ وَلَا يَاۡتُوۡنَ الۡبَاۡسَ اِلَّا قَلِيۡلًا ۞

ترجمہ:

بیشک اللہ تم میں سے ان لوگوں کو جانتا ہے جو (جہاد سے) روکنے والے ہیں اور اپنے بھائیوں سے یہ کہنے والے ہیں کہ ہمارے پاس آجائو ‘ اور وہ بعت کم جہاد کرنے والے ہیں

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : بیشک اللہ تم میں سے ان لوگوں کو جانتا ہے جو (جہاد سے) روکنے والے ہیں اور اپنے بھائیوں سے یہ کہنے والے ہیں کہ ہمارے پاس آجائو اور وہ بہت کم جہاد کرنے والے ہیں وہ (تمہاری مدد میں) بخیل ہیں ‘ پس جب دشمن حملہ آور ہو تو آپ دیکھیں گے وہ آپ کی طرف ایسے نظریں جمادیں گے جیسے ان پر موت کی غشی طاری ہو ‘ پھر جب (جنگ کا) خطرہ ٹل جائے گا تو وہ مال غنیمت کی حرص میں تم سے تیزی اور طراری سی باتیں کریں گے ‘ یہ لوگ ایمان نہیں لائے تھے ‘ سو اللہ نے ان کے اعمال ضائع کردیئے اور یہ اللہ پر بہت آسان ہے وہ گمان کررہے ہیں کہ ابھی حملہ آور نہیں گئے اور اگر دشمن کے لشکر حملہ کرتے تو وہ یہ تمنا کرتے کہ کاش وہ جنگل میں دیہاتیوں کے پاس ہوتے اور (لوگوں سے) تمہاری خبریں دریافت کرتے اور اگر وہ تمہارے درمیان ہوتے تو دشمن سے بہت کم جہاد کرتے (الاحزاب : ٢٠۔ ١٨)

مسلمانوں کو جہاد سے باز رکھنے کے لیے منافقوں کی کوششیں ——

اور ان کا خوف اور ان کی چرب زبانی 

الاحزاب : ١٨ میں المعوقین کا لفظ ہے اس کا معنی ہے روکنے والے اور منع کرنے والے ‘ بعض لوگ مسمانوں کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جہاد کرنے سے روکتے تھے اور منع کرتے تھے ‘ یہکون لوگ تھے اس کی تعیین میں حسب ذیل اقوال ہیں :

(١) ابن السائب نے کہا یہ آیت عبد اللہ بن ابی ‘ معتب بن بشیر اور ان دیگر منافقین کے متعلق نازل ہوئی ہے جو خندق سے لوٹ کر مدینہ چلے گئی تھے ‘ ان کے پاس جب کوئی منافق آتا تو یہ اس سے کہتے تھے تم پر افسوس ہے ‘ یہیں بیٹھے رہو اور خندق کی طرف واپس نہ جائو ‘ اور لشکر میں جو ان کے ساتھی تھے ان کو بھی یہ پیغام بھیجتے تھے ہمارے پاس آجائو ہم تمہارے منتظر ہیں۔

(٢) قتادہ نے کہا یہ آیت ان منافقین کے متعلق جو مدینہ میں رہنے والے اپنے ان بھائیوں سے کہتے تھے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے انصار تھے کہ (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے اصحاب تعداد میں بہت کم ہیں وہ ابو سفیان اور اس کے لشکر کا مقابلہ نہیں کرسکتے وہ عنقریب ہلاک ہونے والے ہیں تم ان کا ساتھ چھوڑدو ۔

(۳)امام ابن ابی  حاتم نے ابن زید سے روایت کیا ہے کہ ایک دن ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لشکر سے نکل کر اپنے بھائی کے پاس گیا اس کے پاس روٹی ۔ بھنا ہوا گوشت ، نبیذ رکھا تھا اس نے بھائی سے کہا تم یہاں دادعیش دے رہے ہو اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تلواروں اور نیزوں کے درمیان ہیں ! اس کے بھائی نے کہا تم بھی یہیں آجائو میں قسم کھاتا ہوں کہ (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کبھی ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے ! اس نے کہا تم جھوٹ کہتے ہو ‘ میں قسم کھاتا ہوں کہ میں حضور کے پاس جا کر یہ بات بتائوں گا ‘ وہ آپ کو بتانے گیا تو حضرت جبریل یہ آیت لے کر نازل ہوئے۔جامع البیان جز ٢١ ص ١٦٨‘ تفسیر امام ابن ابی حاتم ج ٩ ص ٣١٢١‘ الکشف والبیان ج ٨ ص ٢١ )


تبیان القرآن – سورۃ نمبر 33 الأحزاب آیت نمبر 18