سرفرازی کی منزل
سرفرازی کی منزل
{انصاف کی راہیں مسدود ہوتی ہیں تو عشقِ رسول ﷺ کی قوت اپنا جلوہ دکھاتی ہے}
غلام مصطفیٰ رضوی
(نوری مشن مالیگاؤں)
اقتدار، طاقت اور شوکت کا نشہ رہِ انصاف سے محروم کر دیتا ہے… پھر تحفظ ناموسِ رسالت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا پاکیزہ جذبہ بھی دلوں سے رُخصت ہو جاتا ہے… اور انسان زندہ رہ کر بھی مُردہ ہو جاتا ہے…
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے
(اقبال) مسلم ممالک بے حسی کے شکار ہیں… ان کا مقصد اقتدار اور مال ہے… انھیں اقامتِ دین کی پروا نہیں… اسی لیے قادیانیت، دھریت، لادینیت ان کے سائے میں پناہ گزیں ہے… رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی بے ادبی/توہین کھلے عام ہو رہی ہے… جُرأت اتنی بڑھی کہ توہین آمیز مواد کی کھلی اشاعت کی جاتی ہے… گستاخوں کے خلاف مقدمات بجائے سُرعت کے سُستی سے چلائے جاتے ہیں… اور گستاخ بچائے جاتے ہیں… انھیں مراعات سے نوازا جاتا ہے… انھیں شہ دی جاتی ہے… مسلم دشمن طاقتیں ان کی پشت پناہی کرتی ہیں… مسلم حکمران ان کے دباؤ میں ہوتے ہیں… نتیجتاً انصاف کی راہیں مسدود ہو جاتی ہیں… عدل کے پیمانے توازن کھو دیتے ہیں… عشق کے انداز نرالے ہوتے ہیں… عشق سنگلاخ وادیوں کا شیدائی ہوتا ہے… اِسی لیے جب انصاف کی مسند ظالم کے لیے معاون ثابت ہوتی ہے… تو متاعِ عشق کو یہ گوارا نہیں ہوتا کہ… محبوب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا گستاخ آزاد رہے…
تازہ مِرے ضمیر میں معرکۂ کہن ہوا
عشقِ تمام مصطفیٰ عقل تمام بولہب
(اقبال) امتحانِ عشقِ رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے تقاضے بھی نرالے ہوتے ہیں… عاشق صدیوں کی منزل لمحوں میں پانے کو بے قرار ہو جاتا ہے… ہاں! اس کے شعور میں زندگی کی معراج ناموسِ رسالت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے لیے زندگی وار دینے میں ہوتی ہے… اس کے دل و دماغ میں یہی سودا سمایا ہوا ہوتا ہے…
نبی سے جو ہو بیگانہ اسے دل سے جدا کر دیں
پدر مادر برادر مال و جاں ان پر فدا کر دیں
(تاج الشریعہ)
رہِ عشق پر پامردی سے گزرنے والے سرخرو ہوئے… وہ گستاخ کو عبرتناک انجام سے دوچار کر کے شہادت گہِ اُلفت میں کامیابی سے گزر جاتے ہیں… عقل تکتے رہ جاتی ہے… عشق سرفرازی کی منزل پر فائز ہو جاتا ہے… منزل مُراد کے میر کارواں کیسے کیسے ہیں… جن سے تاریخِ اسلام کے اوراق روشن ہیں…غازی علم الدین شہید، غازی عبدالقیوم، عامر چیمہ شہید اور غازی ممتاز قادری اس صدی کے سالارِ کاروانِ عشق ہیں… جنھوں نے اپنے اپنے دور میں گستاخوں کو عبرتناک انجام تک پہنچایا… اور چمک گئے… جب انصاف کے پیمانے ظالم کے سائے میں پروان چڑھتے ہیں… تو انصاف کے قدرتی وسائل غازیانِ اسلام کی صورت میں وارد ہوتے ہیں… ٢٩ جولائی ٢٠٢٠ء کا دن انصاف کی تابندہ صبح کا استعارہ ہے… جب ایک قادیانی گستاخی کا داغ لیے نشانِ عبرت بن گیا… سلام ہو اُس عاشق رسول پر… جس نے اپنے ایمان کی تقویت کا سامان کیا… اب دنیا بہت کچھ کہے گی… جنھوں نے انسانیت کو تاراج کیا؛ وہ بھی دہشت گرد کی تکرار کریں گے… جو کئی دہائیوں سے ماؤں کی گودیں سوٗنی کر رہے ہیں… فلسطینی مسلمانوں کے لہو سے ہولی کھیل رہے ہیں… وہ بھی زبان وا کریں گے… لیکن عاشقِ رسول تو اپنی راہ آپ بناتا ہے… اور غیرتِ ایمانی کا مظاہرہ کر کے ایوانِ کفر کو لرزہ بر اندام کر دیتا ہے… اور یہ نعرۂ مستانہ بلند کرتا ہے…
جان دیدو وعدۂ دیدار پر
نقد اپنا دام ہو ہی جائے گا
(اعلیٰ حضرت)
یہ اِک جان کیا ہے اگر ہوں کروڑوں
تِرے نام پر سب کو وارا کروں میں
(حضور مفتی اعظم)
٭٭٭
٭نوری مشن مالیگاؤں
٣٠ جولائی ٢٠٢٠ء